جمعیۃ علماء ہند ہندوستانی مسلمانوں کی وہ واحد نمائندہ
تنظیم ہے جو اپنی تاسیس کے پہلے ہی دن سے مسلمانوں کے ملّی تشخص، ان کے
مذہب، عقائد اور معابد و مقابر کے تحفظ کے لیے اکابر کے مقرر کردہ رہنما
اصولوں کی روشنی میں جدوجہد کرتی رہی ہے۔ آزادی سے پہلے بھی اس نے یہ فریضہ
انجام دیا اور آزادی کے بعد بھی وہ یہ فریضہ پورے انہماک کے ساتھ انجام دے
رہی ہے۔جہاں تک بابری مسجد کی بازیابی کا سوال ہے مسلمانان ہند کے دلوں کی
دھڑکن اور نمائندہ تنظیم جمعیۃ علما ء ہند اور اس کی فعال و متحرک قیادت
1934 سے لے کر اب تک جو زبردست اوربے مثال پیہم جدوجہد کی ہے وہ کسی سے
پوشیدہ نہیں ہے ۔1934میں بابری مسجد کی بے حرمتی کا جائزہ لینے کی خاطراس
وقت کے صدرحضرت مولانا مفتی کفایت اﷲ ؒ خوداجودھیا تشریف لے گئے تھے اور
احوال کا جائزہ لے کر ایک مفصل رپورٹ ورکنگ کمیٹی میں پیش کی تھی ۔پھر
دسمبر 1949کورات کی تاریکی میں جب مسجد میں بت رکھ دیئے گئے تھے تو
جمعیۃعلماء ہند کے قائدین شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی
نوراﷲ مرقدہ ،امام الہندمولانا ابوالکلام آزاد، اورمجاہدملت مولانا حفظ
الرحمن سیوہاروی ؒ نے اس جسارت کو انسانیت کی پیشانی پر بدنماداغ سے تعبیر
کرتے ہوئے اس مذموم حرکت کو ہندوستان کی جمہوریت اور سیکولرازم کیلئے
شرمناک قراردیا تھا ۔بابری مسجد کی بازیابی کے سلسلہ میں جمعیۃعلماء ہند کی
جہد کی تفصیل نہایت طویل ہے جو مختلف ادوار پر مشتمل ہے۔ مختصراً
جمعیۃعلماء ہند کی کوششوں کو دوحصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے ۔ ایک طرف
جہاں اکابرین جمعیۃعلماء ہند تاریخی شواہد کی روشنی میں برادران وطن کی ایک
بڑی تعدادکو اس بات کیلئے قائل کرنے میں کامیاب ہوئے کہ بابری مسجد ایک
حقیقت ہے اور ٹھوس تاریخی شواہد اس کے عکاس ہیں ۔جسے جھٹلایا نہیں جاسکتا ۔
اس کے ساتھ ہی دوسری طرف اکابرین جمعیۃنے مضبوط قانونی چارہ جوئی کے ذریعہ
اس کے حصول کے لیے عدالتی کارروائی کا آغاز کیا جس کا سلسلہ ہنوز جاری
ہے۔ساتھ ہی 1949ء سے لے کر آج تک جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ و منتظمہ
کی ہونے والی میٹنگوں میں اس مسئلہ پر ہمہ پہلو تبادلۂ خیال ہوتا رہااور
مسجد کی واگذاری پر غوروخوض کرکے ایسی صورتوں کی نشاندہی کی جاتی رہی جو نہ
صرف مسجد کے تحفظ کے نقطۂ نظر سے درست تھیں بلکہ ملکی اتحاد اور قومی
یکجہتی کے لیے بھی ضروری تھی،جس کااندازہ مختلف موقعوں پرمجلس عاملہ
اورمجلس منتظمہ جمعیۃعلماء ہند میں پاس ہونے والی تجاویز سے لگایاجاسکتاہے
۔جس کی کچھ نظیر یہ تجاویزہیں۔
11-12؍فروری 1951ء میں منعقدہ مجلس عاملہ میں اس مسئلہ پر سیرحاصل بحث و
مباحثہ کے بعد ایک تجویز منظور کی گئی جس میں کہا گیا ہے کہ موجودہ سنگین
حالات میں زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مسئلہ کو عوامی مسئلہ نہ بنایا جائے،
بلکہ قانونی کارروائی جاری رکھی جائے اور حکومت سے برابر رابطہ قائم رکھ کر
اس مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اس اجلاس کی صدارت شیخ الاسلام حضرت
مولانا سید حسین احمد مدنی نوراﷲ مرقدہ‘ نے فرمائی، اور مولاناابوالکلام
آزادؒ، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمنؒ، مفتی اعظم مولانا کفایت اﷲؒ کے علاوہ
دوسرے مؤقر علمائے کرام اور دانشورانِ ملت نے شرکت فرمائی۔ اس سلسلہ میں
جمعیۃ علما ء ہند کے اکابر و اسلاف نے 1950ء میں جو راہ متعین کی تھی، وقت
کی کسوٹی نے اسے حرف بحرف صحیح ثابت کردیا اور وہ لوگ جو جمعیۃ علما ء ہند
کی اس معتدل پالیسی کو مصلحت پسندی کا نام دے کر ہمیشہ بدنام کرتے رہے تھے،
آج وہ بھی اس اعتراف پر مجبور نظر آرہے ہیں کہ جمعیۃ علما ء ہند کے اکابر
ین نے بابری مسجد کے تعلق سے جو پالیسی اپنائی تھی، اگر اسی پر عمل کیا
جاتا تو آج وہ حالات شاید رونما نہ ہوتے جو ہندوستانی مسلمانوں اور ان کی
عبادت گاہوں کے لیے باعث تشویش بنے ہوئے ہیں۔اس کے بعد یکم و 2؍نومبر 1986ء
کو مجلس منتظمہ کا اجلاس بلایا گیا جس میں دوسرے اہم ملکی و ملّی مسائل کے
علاوہ بابری مسجد کے موجودہ حالات پر بھی سنجیدگی کے ساتھ غور کیا گیا اور
ایک تجویز منظور کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بابری مسجد کی 31؍جنوری
1986ء سے پہلے کی پوزیشن بحال کی جائے، مسجد کے اس جزء کی فوری طور پر مرمت
کی اجازت دی جائے جو کسی وجہ سے منہدم ہوگیا ہے۔ اجلاس نے حکومت اور عوام
سے بھی امن و امان برقراررکھنے اور فرقہ وارانہ منافرت کو بڑھنے سے روکنے
کے لیے ہر ممکن جدوجہد کی اپیل کی۔ 1987ء میں منعقد ہونے والی مجلس عاملہ و
منتظمہ کے اجلاس میں بھی بابری مسجد کے مسئلہ کو اہمیت حاصل رہی۔
13؍فروری1987ء کو منعقد ہونے والے مجلس عاملہ کے اجلاس میں ایک تجویز کے
ذریعہ حکومت پر واضح کیا گیا کہ بابری مسجد پورے ملک کے مسلمانوں اور پورے
سیکولر سماج کے لیے نہایت اہم مسئلہ ہے۔ 25؍ستمبر 1989ء کو سابق صدرجمعیۃ
علما ء ہند فدائے ملت حضرت مولانا سیّد اسعد مدنی رحمۃ اﷲ علیہ نے وزیر
اعظم ہند کو ایک میمورنڈم پیش کیا جس میں دیگر مسائل کے ساتھ ساتھ بابری
مسجد کے تعلق سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ فرقہ پرستوں کی طرف سے بابری مسجد
کو ہڑپ کرنے کا مسلسل اعلان کیا جارہا ہے۔ حکومت بابری مسجد کے تحفظ کو
یقینی بنائے اور مسلمانوں کو مطمئن کرے۔ اس سے پہلے اگست کے دوسرے ہفتہ میں
پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا میں تقریر کرتے ہوئے سابق صدرِ محترم اور رکن
پارلیمنٹ حضرت مولانا سیّد اسعد مدنی نوراﷲ مرقدہ نے صاف طور پر فرمایا تھا
کہ بابری مسجد کا مسئلہ ہمیں وسیع القلبی سے حل کرنا چاہیے۔ تنگ نظری سے ہم
کسی صحیح نتیجہ پر نہیں پہنچ سکتے۔ آپ نے حکومت سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس
مسئلہ میں منصفانہ اور مؤثر قدم اُٹھائے۔ پھر 1990ء میں مجالس عاملہ و
منتظمہ کے جو بھی اجلاس منعقد ہوئے ان میں بابری مسجد کے سنگین حالات اور
تازہ ترین صورتِ حال پر غور کیا جاتا رہا اور اس کے سلسلے میں مناسب فیصلے
کیے جاتے رہے۔ 18؍مارچ 1990ء کے مجالس عاملہ کے اجلاس میں بھی اس پر اظہارِ
خیال کیا گیا اور تجویز منظور کی گئی۔
بہرحال یہ ایک طویل بحث ہے جو جمعیۃعلماء ہند کی جانب سے تیارکردہ مختلف
کتابچوں میں موجودہے،جسے دیکھا جاسکتاہے ۔جمعیۃعلماء ہند کی موجودہ قیادت
بھی اپنے کابرین کے رہنمااصولو ں پر پوری ایمانداری اور جرأت کے ساتھ گامزن
ہے جو بعد کے سطور میں ملاحظہ فرمائیں۔ جمعیۃعلماء ہند کی قیادت جب مولانا
سید ارشدمدنی نے سنبھالی ،تویہ معاملہ جمعیۃکے لئے ترجیحی طورپر دیگر تمام
ملی مسائل پر حاوی رہا ۔30 ؍ستمبر 2010ء کو جمعیۃ علماء ہند کے موجودہ اور
باوقار صدرِ مولانا سید ارشدمدنی نے بابری مسجد اراضی ملکیت پر الٰہ آباد
ہائی کورٹ کے فیصلہ کے خلاف عدالت عظمیٰ (سپریم کورٹ) جانے کا اعلان کیا
اور کہا کہ ہمیں ہندوستان کی عدلیہ پر پورا بھروسہ ہے اور امید ہے کہ سپریم
کورٹ میں ہمیں انصاف ملے گا۔
23؍اکتوبر 2010ء کو جمعیۃ علماء ہند کی مجلس عاملہ نے بابری مسجد کے متعلق
الٰہ آباد ہائی کورٹ لکھنؤ بنچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں پٹیشن داخل
کرنے کا فیصلہ کیا اور تجویز منظور کی، جس میں کہا گیا کہ مسجد جہاں ایک
بار تعمیر ہوجاتی ہے ،وہ تاقیامت مسجد رہتی ہے، اس لیے جب وہاں مورتی رکھ
کر قبضہ کیا گیا، وہ تب بھی مسجد تھی اور جب شہید کیا گیا تب بھی اور آج جب
عدالت نے تمام دلائل اور شواہد کو نظر انداز کرکے آستھا اور عقیدت کی بنیاد
پر فیصلہ کیا ہے تب بھی وہ جگہ ہمارے نزدیک مسجد ہی ہے۔ لہٰذا مسلمانوں کا
اپنے حق کے لیے سپریم کورٹ جانا نہ صرف درست بلکہ ضروری ہے۔
چنانچہ 15؍ نومبر 2010ء کو بابری مسجد ملکیت سے متعلق ہائی کورٹ کے فیصلہ
کے خلاف سب سے پہلے جمعیۃ علماء ہند نے 126 پہلوؤں کوبنیاد بناکر سپریم
کورٹ آف انڈیا میں پٹیشن داخل کردی جو الحمد ﷲ سماعت کے لیے منظور کرلی
گئی۔ان پہلوں میں سے کچھ اہم نکات یہ ہیں ۔
l کیا حقیقت سے متعلق دعوے میں تقسیم جائیداد کا حکم صادر کیا جاسکتا ہے،
جبکہ کسی فریق نے تقسیم کا دعویٰ نہ کیا ہو اور نہ پٹیشن میں اس قسم کی
استدعا کی گئی ہو؟
l کیا عقیدہ کی بنیاد پر کوئی فیصلہ دیا جاسکتا ہے، کیا ایک فرقہ کے عقائد
نظریات کے تحفظ کے لیے دوسرے فرقہ کے جذبات کو مجروح کرنا آئین کے مطابق
درست ہے؟
l کیا تاریخی حقائق کے تجزیے کے لیے ماضی و حال کے تمام سروے اور معروضی
مؤزانہ ضروری نہیں ہے؟
l محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ، جو قانونی طور پر شہادت کا درجہ نہیں رکھتی،
اسے کہاں تک ملحوظ رکھا گیا ہے؟
یہ سب ایسے بنیادی نکات ہیں، جن پر سپریم کورٹ میں سماعت ہونی تھی۔ پھر
حضرت صدر محترم کی نگرانی میں مکمل تیاری اور نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ
سینئر وکلا کی ایک ٹیم کورٹ میں موجود تھی، ملک بھر کے مسلمان اور سیکولر
برادران وطن امید بھری نگاہوں سے سپریم کورٹ کے ردعمل کے منتظر تھے، حق اور
انصاف کی جیت کا یقین تھا، جس کی وجہ سے جمعیۃ علماء ہند کے ارادے مضمحل
نہیں ہوئے۔ 9 ؍مئی 2011ء کی صبح پرنٹ میڈیا میں یہی خبر شہ سرخیوں میں تھی،
جس میں کہا گیاتھا :
’’نرموہی اکھاڑہ، اکھل بھارتیہ ہندو مہاسبھا، جمعیۃ علماء ہند اور سنّی
سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے داخل کی گئی اپیلوں کو جسٹس آفتاب عالم اور آر
ایم لودھا کی ایک بنچ سنے گی۔ بھگوان رام براجمان نے بھی ایک پٹیشن عدالتِ
عظمی میں داخل کی ہے، وقف بورڈ اور جمعیۃ علماء ہند نے عدالت سے یہ استدعا
کی ہے کہ چونکہ الٰہ آباد ہائی کورٹ کا فیصلہ عقیدت اور آستھا پر مبنی ہے
اور اس مقام پر مندر ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ہے، اس لیے اس فیصلے کو رد کیا
جانا چاہیے۔ انھوں نے یہ تسلیم کیا کہ مسلمان، ہندو اور نرموہی اکھاڑہ
باہمی طور پر تنازعہ کو حل کرنا چاہتے تھے، لیکن ایسا نہیں ہوسکا۔ اپیلوں
میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ میں ایسا کوئی مقدمہ ہی نہیں ہے کہ مسلمان،
ہندو اور نرموہی اکھاڑے کا متنازع جگہ پر مشترکہ قبضہ تھا۔‘‘(09/05/2011)
بالآخر صدر محترم جمعیۃعلماء ہند کی مخلصانہ جدوجہد رنگ لائی اور 9؍مئی
2011ء کو عدالتِ عظمی کے جسٹس آفتاب عالم اور جسٹس لودھا نے جمعیۃ علماء
ہند اور سنّی سینٹرل وقف بورڈ کی جانب سے دائر کی گئی رٹ پٹیشن کی سماعت
شروع کردی اور ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگاتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ نہیں،
بلکہ صلح نامہ ہے، جس کی طلب کسی فریق کو نہیں تھی، جب کسی فریق نے متنازعہ
اراضی کی تقسیم کا مطالبہ ہی نہیں کیا، تو پھر ہائی کورٹ نے اسے تقسیم کیوں
کیا اور قانون پر آستھا کو ترجیح کیو دی؟جمعیۃ علماء ہند نے اپنی اپیل میں
یہ مطالبہ کیا کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ خارج کردیا جانا چاہیے، کیونکہ یہ
ثبوتوں پر نہیں، آستھا پر مبنی ہے۔ جمعیۃ کے وکیل نے یہ بھی کہا کہ متنازعہ
زمین پر مسلمانوں، ہندوؤں اور نرموہی اکھاڑہ کے دعوے الگ الگ ہیں، جنھیں
مشترک نہیں کیا جاسکتا۔ اپیل میں کہا گیا کہ ہائی کورٹ میں کسی کا ایسا
معاملہ نہیں تھا کہ مسلمانوں، ہندوؤں اور نرموہی اکھاڑہ کا متنازع زمین پر
مشترکہ حق ہو۔ تینوں میں سے ہر ایک نے پوری ملکیت پر دعویٰ کیا، جیسے وہ اس
کی اپنی ہو، کسی نے بھی زمین کی تقسیم کی ہدایت نہیں مانگی ہے۔
عدالتِ عظمیٰ نے 45 منٹ تک جاری دونوں فریق کے وکلا کے دلائل سننے کے بعد
بابری مسجد ملکیت معاملہ میں ہائی کورٹ کے فیصلے پر روک لگائی، متنازع مقام
کی ملکیت اور ایکوائر اراضی پر ’اسٹیٹس کو‘ کا حکم جاری کیا، اور معاملہ کو
آئینی بنچ کے سپرد کرنے کا اشارہ دیا۔ جمعیۃ علماء ہند کی کوششوں سے سپریم
کورٹ کے اس ریمارکس کے بعد مسلمانوں نے راحت کی سانس لی اور حق و انصاف کے
لیے امید کی کرن نظر آئی، جس کے لیے آج ملتِ اسلامیہ ہند کا ہر فرد حضرت
صدر محترم کا ممنون و مشکور ہے۔
جمعیۃ علماء ہند نے 30؍ ستمبر 2010ء سے لے کر 9 ؍مئی 2011ء تک سپریم کورٹ
میں رٹ پٹیشن دائر کرنے کی تیاری میں سپریم کورٹ آف انڈیا کے موقر اور
سینئر وکلاء کی ٹیموں سے مسلسل میٹنگ اور کانفرنسوں کے ذریعہ مکمل خواندگی
کرانے میں کوئی کسرنہیں چھوڑی ، دستاویزات کی فراہمی اور سپریم کورٹ کے رول
کے مطابق ان تمام مخطوطات و دستاویزات کا انگریزی زبان میں ترجمہ کرایااور
بروقت اسے کورٹ میں داخل کرایا گیا ،تاکہ کسی طرح کی رکاوٹ یا تکنیکی خامی
سے بچاجاسکے ۔ یاد رہے کہ بابری مسجد مقدمہ میں جمعیۃعلماء ہند لیڈمیٹر میں
ایم صدیق کے نام سے لسٹیڈ ہے ۔
الحمدﷲ ابھی تک کی عدالتی پیش رفت قابل اطمینان ہے، جس پر صدرمحترم مولانا
سید ارشدمدنی نے مکمل اعتمادکااظہارکیا ہے اور4؍جنوری 2019سے شروع ہونے
والی سماعت کیلئے سپریم کورٹ کے سینئر وکلاء کی ایک ٹیم کو متعین کیاگیاہے
جس میں جناب راجیودھون سینئر ایڈوکیٹ، جناب راجورام چندرن سینئر ایڈوکیٹ ،
برندراگرور سینئر ایڈوکیٹ ، ایڈوکیٹ آکرتی ،ایڈوکیٹ قرۃالعین ، ایڈوکیٹ
شاہد ندیم اور ایڈوکیٹ آن ریکارڈ جناب اعجاز مقبول قابل ذکر ہیں۔
صدرجمعیۃعلماء ہند مولانا ارشدمدنی کیس کے تاریخی پس منظر اور حساسیت کو
محسوس کرتے ہوئے اپنے وکلاء سے برابر رابطہ میں ہیں اور مسلسل اس پر
نظررکھے ہوئے ہیں تاکہ کسی بھی چھوٹی سے چھوٹی تکنیکی خامی سے بھی بچاجاسکے
۔جمعیۃعلماء ہند اور اس کی قیادت کا یہ ایک بے مثال کارنامہ ہے جسے تاریخ
میں ہمیشہ یادرکھاجائے گا۔ اﷲ سے دعاہے کہ اﷲ جمعیۃعلماء ہند اور اس کے
مخلص صدرمولانا ارشدمدنی کی ہر طرح سے نصرت فرمائے اور ملک وملت کے تئیں ان
کی خدمات کو قبول فرمائے آمین : |