بسم اﷲ الرحمن الرحیم
مرتب:مفتی محمدصادق حسین قاسمی
اضافہ جدید:مولاناتنویراحمداعوان
فخرِ دوعالم،سرورِ کائنات،امام الانبیاء خاتم النبین سیدنا محمد رسول اﷲ ﷺ
کو ساری انسانیت کی راہنمائی کے لیے مبعوث فرمایا گیا،ہر طبقہ ہائے زندگی
کے لیے مشعل راہ ہیں،بلاشبہ اﷲ کریم نے آپ کو رحمۃ للعالمین بنا کر
بھیجا،اورانسانیت کو حقوق و فرائض،تہذیب و تمدن،احترام و محبت،انصاف اور
رواداری کا درس آپ ہی نے دیا،آپ ہی کی تعلیمات کا ثمرہ ہے کہ انسان انسانوں
کی غلامی سے نکل کر اﷲ وحدہ لاشریک لہ کی عبادت کرنے لگااورجس کے بدولت
انسان کوشرف اور عظمت ملی ،خلافت ارضی کی اہلیت پیدا ہوئی اور ابن آدم
حقیقی معنوں میں نیابت الہی کا مستحق ٹھہرا،اسی مہتاب نبوت کی کرنوں سے
جہالت مٹ گئی ،تعلیمات ِامامِ الانبیاء پرعمل پیرا ہو کر اصحاب رسول
تاقیامِ قیامت کتاب ِالہی کے اوراق میں تابندہ ہوگئے۔
اﷲ کریم کا ارشاد مبارک ہے ''ٍحقیقت یہ ہے کہ تمھارے لیے رسول اﷲ ﷺ کی ذات
میں ایک بہترین نمونہ ہے،ہراس شخص کے لیے جو اﷲ سے اور یوم آخرت سے امید
رکھتا ہو اور کثرت سے اﷲ کا ذکر کرتا ہو۔(الاحزاب۔۱۲)یعنی کسی بھی دور کا
انسان تعلیمات خاتم الانبیاء ﷺ کے بغیر اعلیٰ معیار زندگی،بہترین اخلاقی
اقدار اور عدل وانصاف،امن اور انصاف کے قیام میں کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک
وہ امام الانبیاء کی تعلیمات کو معیار اور کسوٹی نہیں بنا لیتا۔یہی وجہ ہے
کہ بحیثیت مسلمان ہم میں سے ہر ایک کو پیغمبر اسلام کی پوری زندگی کے حوالے
سے آگاہی ضروری ہے،اس امر کو بھی شدت سے محسوس کیا جارہاہے کہ مسلمان بچوں
سمیت ہر عمر کے افراد کو سیرت مطہرہ کے اہم پہلوں کے حوالے سے خوب آگاہی
ہو،زیر نظر رسالہ جس کو مفتی محمد صادق حسین قاسمی صاحب نے بڑی محنت کے
ساتھ سیرت کی معتبر اور مشہور کتابوں سے موتی چن کرتیار کیاتھا ،ضروری
ترامیم کے بعد حصول ِسعادت ِدارین اور امت کی راہنمائی کے لیے پیش کیا
جارہا ہے۔
ولادت باسعادت:
20/اپریل571ء،پیر کے دن ربیع الاول کے مہینہ میں آپ ﷺ کی ولادت باسعادت
ہوئی۔مشہور تاریخ 12ربیع الاول ہے،محققین کے نزدیک یہ ربیع الاول کی9تاریخ
تھی۔(سیرت النبی:1/109از علامہ شبلی ؒ،الرحیق المختوم:83)
نامِ مبارک:
دادا نے آپ کا نام محمد(ﷺ)رکھا اوروالدہ ماجدہ نے’’احمد‘‘رکھا،جب آپ بڑے
ہوئے تو صاحبزادے کی نسبت سے ’’ابوالقاسم‘‘ کنیت اختیار فرمائی۔(پیامِ
سیرت:43)اس کے علاوہ آپ ﷺ کے بہت سے مبارک نام ہیں۔
والدین محترمین کے اسمائے گرامی:
آپﷺ کے والدِ ماجد کانام نامی اسمِ گرامی حضرت عبداﷲ ہے،آپ ﷺ جب بطنِ مادر
میں تھے اسی وقت آپ ﷺ کے والدِ ماجد نے وفات پائی۔والدہ ماجدہ کا نام حضرت
سیدہ آمنہ ہے۔والد ہ محترمہ کی وفات ’’مقامِ ابواء‘‘ پر ہوئی، اس وقت آپ ﷺ
کی عمرِ مبارک صرف چھ سال تھی۔(سیرتِ پاک ﷺ:12)
دادا،دادی اور نانا،نانی کے اسمائے گرامی:
آپ ﷺ کے دادا کا نام عبد المطلب،(عبد المطلب کا اصل نام شیبۃ الحمد
تھا۔(سیرت المصطفی:1/32)پردادا کانام ہاشم،دادی کانام فاطمہ تھا،اور نانا
کانام وہب،نانی کانام برَّہ تھا۔
آپ ﷺ کے چچا:
آپ ﷺکے والد ماجد حضرت عبداﷲ کے کل دس بھائی تھے:
(1) عباسؓ (2) حمزہؓ (3) عبداﷲ (4) ابو طالب (5) زبیر(6)حارث (7) جَحل (8)
المقوِم (9) ضرار (10) ابولہب۔ان میں سے حضرت عباسؓ اور حضرت حمزہؓ مشرف بہ
اسلام ہوئے،ابو طالب آپ کے بہت محسن اور محبوب چچا تھے،اور ابو لہب اسی قدر
بد ترین دشمن۔(مختصر السیرۃ الرسول ﷺ:60)
آپ ﷺ کی پھوپیاں:
آپ ؐ کی چھ پھوپیاں تھیں: (1) ام حکیم (2) عاتکہ (3) برَّہ (4) امیمہ (5)
اروی (6) صفیہ۔ (السیرۃ النبویۃ لابن ہشام:1/(127)
ان میں سے حضرت صفیہ نے اسلام قبول کیا اور اروی کے بارے میں بھی کہا گیا
کہ اسلام قبول کیا۔ (زاد المعاد:1/ 102)
دودھ پلانے والی خواتین:
پیدائش کے بعد چند دن تو والدہ ماجدہ حضرت آمنہ نے دودھ پلایا،اس کے بعد
ابولہب کی آزاد کردہ باندی حضرت ثویبہؓ نے اور پھر اس کے بعد حضرت حلیمہ
سعدیہؓ نے۔(تہذیب السیرۃ النبویۃللنوی:31)حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے شوہر کانام
حارث بن عبد العزی تھا،حضرت ثویبہ اور حضرت حلیمہ سعدیہؓ آپ پر ایمان
لائیں،حارث بن عبد العزی نے بھی اسلام قبول کیا۔(پیامِ سیرت:44)
رضاعی بھائی بہن:
آپﷺ کے رضاعی چاربھائی بہن تھے جن کے نام یہ ہیں:عبد اﷲ،انیسہ،حذیفہ اور
حذافہ جو شیماء کے لقب سے مشہور تھیں،ان میں عبد اﷲؓ اور شیماءؓ کا اسلام
لانا معلوم ہے باقیوں کا نہیں۔(سیرت النبی ﷺ:1/111)
ازواجِ مطہراتؓ:
آپ ﷺ کی گیارہ ازواجِ مطہراتؓ ہیں جن کے نام بالترتیب یہ ہیں:(1)حضرت خدیجہ
الکبریؓ۔(2)حضرت سودہؓ (3)حضرت عائشہؓ۔(4)حضرت حفصہؓ۔(5) حضرت زینب بنت
خزیمہؓ۔(6)حضرت ام سلمہؓ۔(7)حضرت زینب بنت جحشؓ۔(8)حضرت جویریہؓ۔(9) حضرت
ام حبیبہؓ۔(10) حضرت صفیہؓ۔(11)حضرت میمونہؓ۔
صاحبزادے اور صاحبزادیاں:
آپﷺکو چار صاحبزادیاں اور تین صاحبزادے ہوئے۔
صاحبزادوں کے نام یہ ہیں:
(1)حضرت قاسمؓ (2)حضرت عبداﷲؓ (3)حضرت ابراہیمؓ
صاحبزادیوں کے نام یہ ہیں:
(1) حضرت زینبؓ:ان کا نکاح حضرت ابو العاصؓ سے ہوا۔ (2)حضرت رقیہؓ:ان کا
نکاح حضرت عثمان غنیؓ سے ہوا۔(3)حضرت ام کلثومؓ: حضرت رقیہؓ کی وفات کے بعد
آپ ﷺ نے ان کو حضرت عثمانؓ کے نکاح میں دیا،اسی لئے حضرت عثمانؓ ذی النورین
سے ملقب ہوئے۔ (4)حضرت فاطمہؓ الزہرا: آپ کا نکاح حضرت علیؓ مرتضی کرم اﷲ
وجہہ سے ہوا،اورآپ سے حضور ﷺ کی نسل چلی۔تینوں صاحبزادے بچپن میں ہی فوت
ہوگئے،حضرت ابراہیم کے سوا آپ ﷺ کی تمام اولاد حضرت خدیجہ الکبریؓ کے بطن
سے ہے،حضرت ابراہیم آپ کی باندی حضرت ماریہ قبطیہؓ کے بطن سے پیدا ہوئے۔
نواسے اور نواسیاں:
آپ ﷺ کی بڑی صاحبزادی حضرت زینبؓ کی دواولادیں ،ایک لڑکا اورایک لڑکی
تھی:(1)اُمامہ بنت ابوالعاص۔(2)علی بن ابوالعاص۔’علی‘‘کا انتقال بچپن میں
ہی ہوگیا۔اور امامہ بڑی عمر کو پہنچی۔
دوسری صاحبزادی حضرت رقیہؓ سے ایک لڑکا ہوا:عبد اﷲ بن عثمان غنیؓجن کا چھ
سال کی عمر میں انتقال ہوا۔
چھوٹی صاحبزادی حضرت فاطمہؓ کی پانچ اولادیں تھیں(1)حسنؓ بن علیؓ۔(2)حسین
بن علیؓ(3)محسن بن علیؓ۔(4)ام کلثوم بنت علیؓ۔(5)زینبؓ بنت علیؓ۔محسنؓ کا
بچپن میں انتقال ہوگیا باقی چار تاریخ میں مشہور ہیں۔(سیرت النبی:2/249)
آپ ﷺ کی کنیزات:
آپ ﷺ کے پاس چار کنیزات(باندیاں رہیں)"نبی کریم ﷺ نے اپنی آمد کے ساتھ اس
سلسلہ غلامی کو بھی آہستہ آہستہ ختم فرمایا"(1) ماریہ قبطیہؓ۔جن سے حضرت
ابراہیم پیداہوئے۔(2) ریحانہؓ۔(3) ایک باندی جو قید ہوکر آئی۔(4) اور ایک
باندی جسے حضرت زینب بنت جحش نے ہبہ کیا۔(زاد المعاد:1/111)
آپ ﷺ کے خدمت گزار:
(1) حضر ت انس بن مالکؓ جو مختلف ضروریات میں آپ کی خدمت پر مامور تھے۔(2)
حضرت عبد اﷲ بن مسعودؓ جو نعلین اور مسواک کی خدمت پر مامور تھے۔(3)حضرت
عقبہ بن عامر جہنیؓ جو سفر کی خدمت میں رہتے۔(4)اسلع بن شریکؓ جو سواری کے
نظم میں رہتے۔اس کے علاوہ بھی بعض صحابہ کرام تھے جوآپﷺ کی ہمہ خدمت کے لئے
حاضر رہا کرتے تھے۔(زاد المعاد:1/113)
آپ ﷺ کی سواریاں:
آپ ﷺ کے پاس تین اونٹنیاں تھیں جن کے نام یہ ہیں:(1)العَضْبَاء(2)
الجَدْعاء (3)القَصْواء۔
تین قسم کے اونٹ تھے: (1) الَسکْب (2)سَبْحَۃ۔(3)المُرْتَجِزْ۔
تین قسم کے گھوڑے تھے:(1)لَزَازْ۔(2)الَظرْب۔(3) اللُحَیْف۔
ایک خچر بھی تھا جس پر آپ ﷺ سوار ہواکرتے تھے جس کانام
’’دُلدُل‘‘تھا۔(الفصول فی اختصار سیر ۃ الرسول لابن کثیر:276)
آغازِ وحی:
چالیس کی عمرمبارک میں نبوت سے سرفراز کئے گئے اور وحی کا آغاز ہوا،آپ ﷺ
غارِ حرا میں تھے رمضان کے مہینہ میں حضرت جبرئیل ؑ آئے اورقرآن کریم کے
سور ۃ علق کی ابتدائی پانچ آیتیں نازل ہوئیں۔(الفصول فی اختصار سیرۃ
الرسول:49)
شعبِ ابی طالب میں:
جب اسلام پھیلنے لگا تو مشرکین مکہ نے آپﷺ اور آپ ﷺ کے خاندان سمیت تمام
صحابہ کرام رضی اﷲ عنھم کا بائیکاٹ کیااور تمام معاشرتی تعلقات ختم
کردئیے،محرم 7نبوی سے تقریبا تین سال تک آپﷺ اور بنو عبد المطلب ودیگر
صحابہ’’شعب ابی طالب‘‘ کی گھاٹی میں محصور رہے۔(رحمۃ للعالمین:91،المواہب
للدنیہ:1/247)
عام الحزن:
شعبِ ابی طالب سے نکلنے کے بعد 10نبوی میں پہلے آپ ﷺ کے چچا ابوطالب
کاانتقال ہوا،تین دن بعد آپ ﷺ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہؓ کا بھی انتقال
ہوگیا،یہ دونوں آپ ﷺ کے مضبوط سہارا تھے،باہر ابوطالب اور اند ر حضرت
خدیجہؓ سے آپ ﷺ کو بڑی تقویت حاصل تھی،ان دونوں کے انتقال کی وجہ سے آپ ﷺ
پر بڑے مصائب آئے،اسی لئے اس سال کو ’’عام الحزن‘‘ (غم کا سال)کہاجاتا
ہے۔(المواہب اللدنیۃ:1/266)
سفرِ معراج:
آپ ﷺ کا حیرت انگیز معجزہ سفرِ معراج 11نبوی میں سفرِ طائف سے واپسی کے بعد
ہوا،مشہور یہ ہے کہ رجب کی ستائیسویں شب کو یہ سفر پیش آیا،جس میں آپﷺ نے
آسمان دنیا کا مشاہد ہ فرمایا۔(سیرت المصطفیٰ:1/288)
ہجرتِ مدینہ:
27صفر 13نبوی بروز جمعرات آپ ﷺ حضرت ابوبکرؓ کو ساتھ لے کر غارِ ثور کی طرف
نکلے،تین دن یہاں پناہ لی،پھر یکم ربیع الاول بروز اتوار رات کو مدینہ کی
طرف چل پڑے،8ربیع الاول کو قباء پہنچے،یہاں چودہ دن قیام فرمایا،یہاں سے
مدینہ منورہ پہنچے۔(پیامِ سیرت:57)
آپ ﷺ کے حج وعمرے:
آپ ﷺ نے ہجرت کے بعد چار عمرے کئے اور ایک حج ادا کیا جو’’حجۃ الوداع‘‘ کے
نام سے مشہور ہے۔(تہذیب سیرۃ النبوۃ:54،حجۃ الوداع وعمرات النبی:225)
غزوات:
ہجرت کے بعد کے دس سالوں میں تقریباً 29 غزوات لڑے گے ان میں سے سات غزوات
بڑے شمار کئے جاتے ہیں:(1)غزوہ بدر(2)غزوہ احد(3)غزوہ خندق(4)غزوہ
خیبر(5)فتح مکہ(6)غزوہ حنین(7)غزوہ تبوک۔ایک غزوہ ’’غزوہ احد‘‘ میں آپﷺ
زخمی ہوئے۔ سرایا(چھوٹے لشکر) کی تعدار تقریبا 60ہے۔(زاد المعادلابن
القیمؒ:1/125)17رمضان 2ھ میں غزوہ بدر ہوا،غزوہ احد شوال 3ھ میں پیش
آیا۔غزوہ خندق شوال 5ھ میں ہوا۔غزوہ خبیرمحرم7ھ میں ہوا۔غزوہ فتح مکہ رمضان
8ھ میں ہوا۔غزوہ حنین 6 شوال 8ھ میں ہوا۔غزوہ تبوک رجب9ھ میں پیش
آیا۔(تلخیص از سیر ت المصطفیٰ)
وفات:
ہجرت کے 11ویں سال29صفر سے آپ ﷺ کی علالت کا سلسلہ شروع ہوا،12ربیع الاول
پیر کے دن،سہ پہر 63سال کی عمر مبارک میں آپ ﷺ نے دنیا سے رحلت
فرمائی،تجہیز وتکفین منگل کے دن ہوئی، لوگوں نے تنہا تنہا آپﷺ کی نمازہ
جنازہ پڑھی،چہارشنبہ کو نصف شب میں تدفین عمل میں آئی۔(تہذیب السیرۃ النبوۃ
للنووی:21،پیامِ سیرت:67)
خلیفۃ الرسول ﷺ وخلفاء راشدین:
رسول اﷲ ﷺ کے وصال کے بعد حضرت ابو بکر صدیق ؓخلیفۃ الرسول منتخب ہوئے،آپ
کا دور خلافت 11ہجری سے13 ہجری تک ہے جب کہ دوسرے خلیفہ راشدحضرت عمر فاروق
ؓ تھے،آپ کا دور خلافت 13 ہجری سے23 ہجری تک رہا۔حضرت فاروق اعظم ؓ کی
شہادت کے بعد حضرت عثمان غنی ؓتیسرے خلیفہ راشد منتخب ہوئے، آپ کا دور
خلافت24 ہجری سے 35 ہجری تک تھا،چوتھے خلیفہ راشدحضرت علی مرتضی ؓ تھے،آپ
35 ہجری سے 40 ہجری تک خلیفہ راشد کے منصب پر فائز رہے۔
یَارَبِّ صَلِّ وَسَلِّمْ دَائِمًا اَبَداً عَلٰی حَبِیْبِکَ
خَیْرِالْخَلْقِ کُلِّھِمٖ |