یہ ہوتا ہے ففٹی ففٹی

بہت سے اساتذہ کو عام طور پر یہ گلہ ہوتا ہے کہ آجکل کے طالب علم اساتذہ کی عزت نہیں کرتے۔ان کا رویہ جارحانہ ہوتا ہے اور وہ کلاس میں آتے ہی نہیں اوراگر آتے بھی ہیں تو پڑھنے میں ان کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ وہ طالب علموں ، ان کے والدین اور ان کے اساتذہ کا مقابلہ ہندستان کے پرانے کلچر سے کرتے ہیں جس میں والدین اپنے بچوں کو کئی سال کے لئے اس کے استاد یا گورو کے سپرد کر دیتے تھے۔سپرد کرتے وقت والدین استاد سے منت کرتے کہ ہمارے بیٹے کو علم کی دولت سے مالا مال کرکے کسی قابل بنا دیں۔اس مقصد کے لئے آپ جو طریقہ بھی اختیار کریں ہم کچھ اعتراض نہ کریں گے۔ اس کی اصلاح کے لئے آپ کی مار پر بھی ہمیں کوئی اعتراض نہ ہو گا۔ اس کی ہڈیاں ہماری اور جسم کا گوشت آپ کا ۔یہ فقرے تکلفاً کہے جاتے تھے جبکہ اس وقت کے گورو اپنے شاگردوں کو اپنی اولاد سے بڑھ کرچاہتے اور گورو اور اس کی بیوی اپنے بچوں سے بڑھ کر اپنے ان شاگردوں کو پیار کرتے تھے۔ پچھلے سالوں میں اساتذہ کی مار ڈھاڑ کے جو اعلیٰ نمونے ہمیں اپنے ملک میں نظر آتے رہے ہیں، ماضی بعید میں ان کا تصور بھی استاد کے نزدیک گناہ تھا۔

آج وقت بدل گیا ہے۔ لوگوں میں شعور پہلے کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ لوگ جو محسوس کرتے ہیں اس کا اظہار بھی بلا جھجھک کرتے ہیں۔ اور مصلحت کے تحت چپ رہنے کو تیار نہیں ہوتے ۔ وہ دیانتداری کے ساتھ کچھ کہنے سے ڈرتے بھی نہیں۔طلبا بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ وہ بھی اس تبدیلی کا اثر قبول کر رہے ہیں۔ ان میں بے باکی اور اظہار کی آزادی زیادہ ہے اس لئے کہ نوجوانی زیادہ متحرک ہوتی ہے۔ نوجوان زیادہ منہ پھٹ ہوتے ہیں۔میں نے اپنی تدریسی زندگی میں یہ محسوس کیا ہے کہ وہ استاد جو محنت سے پڑھاتے ہیں اور طلبا کو کچھ نہ کچھ علم منتقل کرتے ہیں، وہ طلبا کا رول ماڈل ہوتے ہیں۔طلبا ان کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں اور زندگی بھر ان کا ذکر اچھے الفاظ میں کرتے ہیں۔ وہ لوگ جو پڑھانے میں کمزور ہوتے ہیں، یا جان بوجھ کر صحیح نہیں پڑھاتے ، طلبا کی تلقین کا نشانہ بنتے ہیں۔طلبا ان کا احترام نہیں کرتے اور زندگی بھر ان کا ذکر گستاخانہ اور گھٹیا انداز میں کرتے ہیں، گو یہ ایک افسوسناک امر ہے مگر اس میں طلبا کے ساتھ ساتھ اپنے عہدے سے انصاف نہ کرنے والے اساتذہ بھی برابر کے شریک ہیں۔

منہ پھٹ ،بے باک اور بولڈ قسم کے طالب علم برے اساتذہ کو کبھی معاف نہیں کرتے اور زندگی میں جب بھی موقع ملے اپنے گلے شکوے زبان پر لے آتے ہیں۔چند دن پہلے اسی طرح کا ایک واقع پیش آیا۔مجھے ایک کالج سے دعوت نامہ ملا کہ کالج میں پرانے سابق طلبا اور پرانے اساتذہ کا ایک اجتماع ہو رہا ہے جس میں سب لوگ عرصہ دراز کے بعد ایک دوسرے سے ملاقات کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کی بہت سی یادوں کو تازہ کریں گے۔تقریب کے روز میں بھی اس محفل کا حصہ تھا۔۴ مجھے غلط فہمی تھی کہ میں ایک پرانا بزرگ استاد ہوں۔ مگر اس محفل میں ایسے ایسے قدیم بزرگ اساتذہ کو اٹھا کر ان کے عزیزواقارب لائے ہوئے تھے کہ مْْحکمہ آثار قدیمہ کو پتہ چل جاتا تو انہیں محفوظ کرنے کے چکر میں ہوتا۔ظالب علموں میں بہت سے میرے ہم عمر اور کچھ کسی نا کسی ادارے میں میرے ہم جماعت رہے بھی موجود تھے۔ اساتذہ کے قدیم تر ہونے کا اندازہ اسی سے ہی لگایا جا سکتاہے۔

طالب علم باری باری سٹیج پر آتے اور مائیک پر اپنی یادوں کے کچھ حوالے بیان کرتے اور سبھی ان سے محظوظ ہوتے۔اسی دوران اس کالج کے ایک پرانے ستر سالہ طالب علم تشریف لائے اور اپنے حوالے سے کالج سے جڑی یادیں تازہ کرنے لگے۔ پتہ نہیں انہوں نے کیا مزاج پایا تھا۔ کوئی مثبت بات انہوں نے کی ہی نہیں۔ اساتذہ کا ذکر ہوا تو بہتر تو یہ تھا کہ اچھے اساتذہ کی بات کرتے۔مگر انہوں نے سیدھے ایک اسی (80) سالہ بزرگ استاد کی طرف اشارہ کیاکہ وہ بھی ہمارے ٹیچر تھے۔ نئے نئے کالج میں آئے تھے۔ ان کا پڑھایا ہوا ہمیں کبھی سمجھ نہیں آیا۔ ان سے گلہ کرتے تو کہتے کہ بھائی یہ مت کہو کہ کچھ سمجھ نہیں آیا ۔ مجھے اندازہ ہے پچاس فیصد ضرور سمجھ آیا ہو گا۔ ہم گھر بیٹھ کر بہت اندازہ لگاتے مگر وہ کسی چرح بھی پچاس فیصد نہیں ہوتا تھا۔

موصوف نے فرمایا کہ یہاں سے پڑھنے کے بعد میں لندن چلا گیا۔اگلے دن لندن میں ایک دکان سے برگر لینے لگا۔ بیف برگر پچاس سینٹ کا تھا۔ ان دنوں برائلر مرغی نہیں ہوتی تھی اور دیسی مرغی بہت مہنگی ہوتی تھی اور اسی لحاظ سے چکن برگر ڈیڑھ ڈالر کا تھا۔ ایک تیسرا برگر بھی تھا۔ ففٹی ففٹی برگر ، اس کی قیمت ساٹھ(60) سینٹ تھی۔ میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔ بیف پچاس سینٹ، چکن ڈیڑھ ڈالر، اس حساب سے ففٹی ففٹی کو ایک ڈالر کا ہونا چائیے تھا مگر یہاں فقط ساٹھ سینٹ کا تھا۔ کیسے ممکن ہے۔ برگر بیچنے والے سردار کو پوچھا تو بولے ،’’آپ غلط حساب کرتے ہیں۔ مجھ سے پوری طرح سمجھ لو بات صاف ہو جائے گی۔ ہم ایک پوری مرغی لیتے ہیں اور ایک پوری گائے۔ دونوں کا گوشت ملا لیتے ہیں ۔ ایک گائے اور ایک مرغی ، یہ ہوتا ہے ففٹی ففٹی‘‘۔ اس دن سے بات پوری طرح سمجھ آ چکی ہے۔ استاد محترم بھی اسی شاندار انداز میں اپنا ففٹی ففٹی لیکچر سمجھاتے تھے۔

مذاق کی بات اپنی جگہ مگر بزرگ طالب علم جو خود ستر (70) سال سے زیادہ کے تھے اپنے بزرگ پچاسی (85) سالہ استاد کے بارے میں ماضی کے حوالے سے بات کر رہے تھے تو اس وقت وہ اپنے ظرف کا اظہار کر رہے تھے۔ اور اتنی عمر گزرنے کے بعد انسان کو بہت عالی ظرف ہونا چائیے۔ کوئی شخص جب بغیر کسی ٹریننگ اور بغیر کسی تجربے کے کلاس میں آتا ہے تو یقیناً اسے کچھ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے۔ نئے آئے استاد بھی ناتجربہ کاری کے سبب مشکلات کا شکار ہونگے۔ یقیناً وہ کچھ ڈلیور کرنے میں ناکام ہوں گے۔ لیکن اس بزرگی کے دور میں اپنے سے بڑے کسی بزرگ اور وہ بھی استاد کے بارے ایسی بات آپ کی اپنی ذات کی تحقیر کا سبب بنتی ہے۔ طلبا اپنے اساتذہ کی عزت کرنا سیکھیں ۔اساتذہ کو بھی خلوص اور لگن کے ساتھ تعلیم دینے کی پوری دیانتدارانہ کوشش کرنی چائیے کہ طلبا کو کوئی گلہ نہ ہو۔۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 442938 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More