اصلاحات کا متقاضی فرسودہ نظامِ تعلیم

بقلم: محمد ابوسفیان اعوان

تعلیم کس بھی فرد،معاشرے،ملک اور قوم کی ترقی وخوشحالی،عروج و ارتقاء اور عظمت و شان کے لیے بنیاد کی حیثیت رکھتی ہے۔

قوموں کی ذہنی و فکری صلاحیتوں کو ابھارنے،انہیں ان کے شاندار ماضی اور اسلاف سے روشناس کروانے اور ان کی سوچ کو صحیح سمت دینے میں تعلیم اہم کردار ادا کرتی ہے۔

تعلیم انسان کو اس کی حقیقت اور مقصد حیات کو سمجھنے میں ممدو معاون ثابت ہوتی ہے۔

جس طرح کسی محکمے کو چلانے کے لیے قواعد و ضوابط کی ضرورت ہوتی ہےاور کسی مکان کو بنانے کے لیے نقشے کی ضرورت ہوتی ہے ٹھیک اسی طرح تعلیم کے فروغ و ترویج کے لئے بھی کچھ طریقہ کار اور اصول و ضوابط کے ایک مربوط نظام کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ نظام تعلیم کہلاتا ہے۔

ایک کامیاب، ترقی یافتہ اور جدید تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیمی نظام ہی تہذیب یافتہ قوم کی تعمیر اور ملک کی ترقی کے خواب کو شرمندہ تعبیر کر سکتا ہے۔

ترقی یافتہ اقوام نے ہمیشہ تعلیم کو سب سے مقدم رکھا ہے اور اس کے فروغ کی ہر ممکن کوشش کو بروئے کار لایا ہے۔

لیکن بدقسمتی سے ستر سال گزرنے کے باوجود بھی ہم ایسا نظام وضع کرنے میں ناکام رہے ہیں۔جو ہماری تہذیبی و معاشرتی فکروں اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔

ہم آج کے جدید دور میں بھی اپنی جدید ضروریات اور مذہبی اور ثقافتی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر اس فرسودہ اور سازشی تعلیمی نظام کے زیر سایہ نونہالان وطن کی تربیت میں مصروف ہیں۔

جس کے بارے میں اس کے بانی لارڈ میکالے نے فروری 1935 کو برٹش پارلیمنٹ میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ"میں نے انڈیا کے طول و عرض میں سفر کیا ہے۔میں نے اس ملک میں کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو بھکاری ہو ،جو چور ہو۔ایسی دولت میں نے اس ملک میں دیکھی ہے،ایسی اعلیٰ اقدار اور ایسے اعلیٰ میعار کے لوگ ہیں کہ میرا خیال ہے کہ ہم اس ملک کو تب تک فتح نہیں کر سکتے جب تک ہم اس قوم کی ریڑھ کی ہڈی کو نہیں توڑ دیتے جو کہ اس کی اخلاقی و روحانی میراث ہے۔اس لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ ہمیں ان کے پرانے اور تاریخی نظام تعلیم اور ان کے کلچرکو بدل دینا چاہیے تاکہ وہ لوگ یہ سوچنے لگیں کہ بیرونی کلچر اور انگریزی زبان ان کی زبان اور کلچر سے بہتر ہے۔"

پھر وہ بتاتا ہے کہ اس سے ہمیں کیا حاصل ہو گا

"پھر وہ اپنی عزت نفس کھو دیں گے اور پھر وہ ویسے ہو جائیں گے جیسے ہم چاہتے ہیں .....ایک حقیقی زیر اثر قوم"-

آج دنیا اکیسویں صدی کے جدید دور میں نت نئی ایجادات اور اختراعات سے مستفید ہونے میں مصروف ہے۔

لیکن ہم آج بھی وہی فرسودہ نظام لیے اپنی بدحالی اور ناکامیوں کا رونا رونے میں مصروف ہیں۔

ہمارا نظام تعلیم طلبہ کو حقیقی معنوں میں مہذب اور اعلیٰ کردار کا حامل انسان بنانے سے قاصر نظر آتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ہمارے طلبہ اساتذہ کے احترام اور اخلاق و اقدار سے عاری ہیں۔

ان کا مطمع نظر صرف ڈگری کاحصول اور اس کے بعد اپنے صرف شدہ پیسوں کا حصول ہوتا ہے۔

وہ خدمت انسانیت اور فلاح وطن کے جذبے سے خالی نظر آتے ہیں۔

میعاری نظام تعلیم طلبہ میں حب الوطنی اور غیرت و حمیت کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔

اس کے بر عکس گھٹیا نظام تعلیم طلباء میں غلامی اور عمل سے بیزاری کی بیماری پیدا کرتا ہے ۔
پاکستان میں تکنیکی مہارتوں کے اداروں کی کمی کی وجہ سے بیروزگاری میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے۔

جدید دور کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں سائنس اور ٹیکنالوجی کے ماہر افراد کی ضرورت ہے۔
لیکن ہمارا موجودہ نظام تعلیم چپڑاسی اور کلرکوں کی ایک بڑی تعداد پیدا کر رہا ہے جو کہ ایک ترقی پذیر ملک کے لیے بوجھ ثابت ہو رہے ہیں۔

ہمارا طلباء ڈگری کے حصول کے لیے ہر جائز وناجائز ذریعے کا استعمال اپنا بنیادی حق سمجھتے ہیں۔

سکول وکالج کے اساتذہ پر عدم اعتمادی،اکیڈمیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، مہنگے گیس پیپرز کا حصول اور پیپرز لیک کرنے کے واقعات اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم حکام بالا کی صرف نظری کی وجہ سے تباہی و بربادی کے دہانے پر کھڑا ہے۔

حصول تعلیم کے بعد ملک میں مناسب روزگار کی عدم دستیابی کی وجہ سے تعلیم یافتہ افراد بیرونی ممالک میں کام کرنے کے لیے مجبور ہو جاتے ہیں جو کہ ہمارے لئے ایک ناقابل تلافی نقصان کا باعث ہے

ہمیں ایک ایسے نظام تعلیم کی اشد ضرورت ہے جو ہماری تہذیبی اقدار و دور جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔جو ہمیں ترقی یافتہ اقوام کے شانہ بشانہ چلنے میں مددگار ثابت ہو اور ہمارے مستقبل یعنی ہمارے طلبہ میں وطن کی محبت اور انسانیت کی فلاح کے جذبے کو پروان چڑھانے کا باعث بنے۔

جو قومیں تعلیمی میدان میں جدید دور کی ضروریات کو پورا کرنے سے کتراتی ہیں اور رفتار زمانہ کا ساتھ نہیں دیتیں زمانے انہیں روندتے ہوئے نکل جاتا ہے۔

اور پھر ان کے پاس سوائے غیروں کی غلامی اور اپنی کم مائیگی کا رونا رونے کے کچھ باقی نہیں رہتا۔

اٹھو ابھی بھی وقت ہے ورنہ.......
تمھاری داستاں تک نہ ہوگی داستانوں میں

Muhammad Naeem Shahzad
About the Author: Muhammad Naeem Shahzad Read More Articles by Muhammad Naeem Shahzad: 144 Articles with 105542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.