ذکر ایک ننھی پری کا

کچھ شہزادیاں کچھ خاص دیس کی ہوتی ہیں اور انہیں وہی دیس راس آتا ہے اور کچھ روحیں اتنی نیک ہوتی ہیں کہ ان کو اس دنیا کی مطلب پرستیاں برایاں اور ظلم ناچاقیاں دیکھی نہیں جاتیں جو ان کا جسم تو برداشت کر رہا ہوتا ہے مگر ان کی روح جسم کا ساتھ نہیں دے پا رہی ہوتی اور ان کی روح کا بس نہیں چلتا کہ وہ اس کا ساتھ چھوڑ جایں

ایک نہ ایک دن تو ہر روح نے جسم کا ساتھ چھوڑنا ہی ہوتا ہے لیکن انہیں زیادہ جلدی ہوتی ہے اور وہ یہ بھی نہیں سوچتیں کہ ان سے جڑے لوگوں کو ان کی کتنی عادت ہو چکی ہے اور وہ جدای کا تصور بھی نہیں کر سکتے مگر انہیں تو واپس اسی معصوم نگر جانا ہوتا ہے جہاں معصومیت اور چین ہی چین ہے جہاں کوی فساد نہیں جہاں وہ تھے اور ان کا رب اور اس کی دی ہوی خُلد

اور جس ننھی پری کو میں جانتا تھا جو ایک قریبی عزیز کی عزیز ترین گڑیا تھی وہ روح تھی یا اس کو الٹا پڑھیں تو کوی حور تھی اور اس کے نام کا مطلب بھی شائد حور ہی تھا مگر اس دنیا میں تو وہ انسان ہی تھی اور انسانوں جیسے جزبات احساسات اور انسانوں کے ساتھ ہی رہتی تھی اور انسانوں جیسی ہی ضروریات اور محبت کرنے والے ماں باپ ناصح دادی اور درویش دادا جو تھے تو شائد کیمیا کے استاد مگر ان کا نسخہ کیمیا ذرا اور ہی قسم کا تھا

بہر حال رہ تو وہ ہمارے ساتھ ہی رہی تھی اور اسی طرح کے اسکولوں میں جاتی تھی اور وہ زہنی طور پر پریوں کے دیس میں رہتی تھی اور گھر میں بھی خدا نے اس کا دل بہلا نے کو بہت سی رحمت کی پریاں دی ہوی تھیں جو اس کے چاچا اور چاچی کی نور نظر بھی تھیں اور وہ خود تو سب کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور۔قرة العین تھی بڑی آنکھوں والی حور عینا اور معصوم اس کے نینا اور ایک چھوٹی سی بہنا اور بھای کے ساتھ رہنا سُنا سب کا کہنا مگر پسند تھا جنت میں رہنا اسی لیے اس کی روح اور جسم میں جنگ چل رہی تھی اندر ہی اندر اور روح اس کی جلد از جلد جنت کی طرف جانا چاہتی تھی اور سب اسے دنیا کی طرف کھینچ رہے تھے زبردستی چاہے والدین ددھیال ننھیال یا ماموں ممانی چاچا چاچی اور دیگر رشتہ دار اور دوسری طرف اس کے دادا جو شائد اس لیے خوش تھے کہ وہ جس جہاں میں تھے ان کا اس کے بغیر دل نہیں لگ رہا تھا اور وہ اس کا بے چینی سے انتظار کر رہے تھے
ہم کچھ بھی چاہیں کاتب تقدیر نے کچھ اور لکھ رکھا تھا اور وہ بہتر جانتا ہے اور بےشک وہ بہتر جانتا ہے مگر وہ خدا ہے اور ہم تو انسان ہیں اور انسانوں کی طرح ہی سوچتے ہیں مگر وہ اور اس کے ماں باپ تو انسانوں کے بجاے فرشتوں کی طرح سوچنے لگے تھے اور بڑے حوصلہ اور صبر کے ساتھ اُس فرشتہ صفت کو فرشتوں کے حوالے کر دیا اور وہ مسکراتے ہوے بڑے آرام کے ساتھ اس دنیا سے رُخصت ہو گئ جس کی تمنا بڑے بڑے بزرگ کرتے ہیں

‎﴿إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَيْهِمُ الْمَلَائِكَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِي كُنْتُمْ تُوعَدُونَ

جن لوگوں نے کہا کہ
" ہمارا رب الله ہے اور پھر وہ اس پر ثابت قدم رہے تو اُن پر بے شک فرشتے اتریں گے کہ"نہ خوف کرو نہ غم کرو اور اس جنت سے خوش ہو جاو جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا
‎نَحْنُ أَوْلِيَاؤُكُمْ فِي الْحَيَاةِ
‎الدُّنْيَا وَفِي الْآَخِرَةِ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَشْتَهِي أَنْفُسُكُمْ وَلَكُمْ فِيهَا مَا تَدَّعُونَ * نُزُلاً مِنْ غَفُورٍ رَحِيمٍ *

ہم دنیاوی زندگی میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی اور اس جنت میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جس کو تمہارا دل چاہے اور اس میں ہر وہ چیز تمہارے ہی لیے ہے جو تم منگوانا چاہو اور یہ بطور مہمانی کے ہو گا غفور رحیم کی طرف سے

 

Noman Baqi Siddiqi
About the Author: Noman Baqi Siddiqi Read More Articles by Noman Baqi Siddiqi: 255 Articles with 290810 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.