ڈھول کی تھاپ پر احتجاج اور گھاس خوری

ہم بھی کیا غضب ناک حد تک ”جشن پسند“ قوم واقع ہوئے ہیں۔ لوگ ہمیں خوشی کے لمحات میں جامے سے باہر ہوتا دیکھ کر حیران رہ جاتے ہیں، اگر وہ ”غمی“ کی حالت میں ہمارے مسرت آمیز جذبات کا بے قابو ہو جانا دیکھیں تو حیرانی کی منزل سے آگے بڑھ کر پریشانی کو بھی گلے لگالیں!

زندہ دلان فیصلہ آباد کی مہربانی سے ایک نیا تماشا دیکھنے کو ملا ہے۔ گیس کی بندش کو دو ماہ گزر جانے پر بھی جب باقاعدگی سے بل موصول ہوئے تو مکینوں نے ڈھول کی تھاپ پر احتجاج کیا اور بیچ سڑک پر آکر دھمال ڈالتے ہوئے سارے بل جلا ڈالے! مگر صاحب، صرف یہ بل جلانے سے کیا ہوگا؟ ہمیں وہ سارے بل جلا ڈالنے ہیں جن سے نکل کر نا اہلی کے سانپ ہمیں ڈستے رہتے ہیں! رزق دینے والی ذات اللہ کی ہے، مگر وسیلہ ہم بن جاتے ہیں۔ اب ہمارے ہاں احتجاج کے لئے سڑکوں پر آنے والے بھی ڈھول والوں کے لئے دو وقت کی روٹی کا اہتمام کرتے ہیں!

جیکب آباد سے یہ اطلاع ملی ہے کئی ماہ سے تنخواہیں نہ ملنے پر اساتذہ نے گھاس کھا کر احتجاج کیا۔ ہمارا خیال یہ ہے کہ اساتذہ کو مزید گھاس کھانے کی چنداں ضرورت نہیں۔ اب اِس ملک میں ”ٹیچری“ کرنا گھاس کھانے ہی کے مترادف ہے!

کہاں ڈھول کی تھاپ اور کہاں گھاس! ساحر لدھیانوی نے کہا تھا
بربادیوں کا سوگ منانا فضول تھا
بربادیوں کا جشن مناتا چلا گیا

لگتا ہے یاروں نے گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں نام لکھوانے کا عہد کر رکھا ہے! چند ماہ کی تنخواہیں نہ ملنے پر اساتذہ نے اپنے معاملے کو ایٹمی پروگرام سے جوڑ دیا! آپ سوچ رہے ہوں گے ایٹمی پروگرام کہاں سے بیچ میں آگیا؟ جناب، شاید آپ کو یاد نہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو نے 1974 میں بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکے کے بعد کہا تھا کہ گھاس کھانی پڑی تو کھائیں گے، مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے! ایٹم بم ہم بناچکے ہیں، اب اگر گھاس کھانی پڑ رہی ہے تو غم کیسا! ویسے سچی بات تو یہ ہے کہ جس ملک میں آبادی کے بڑے حصے کو پینے کا صاف پانی، توانائی اور صحت و تعلیم کی بنیادی سہولتیں میسر نہ ہوں اُس کے پاس ایٹمی ڈیٹیرنٹ کا ہونا اچھی بات سہی مگر کبھی کبھی لگتا ہے ہم نے کوئی تیر نہیں مارا بلکہ صرف گھاس کھودی ہے! یہ بھی بھٹو صاحب کی اعلیٰ ظرفی تھی کہ ایک بڑے پروگرام کے عوض گھاس چروانے کا عندیہ دیا ورنہ بعد کے حکمران تو ہمیں، کسی جواز کے بغیر، بس ”ایویں ای“ گھاس کھانے پر مجبور کرتے رہے ہیں!

1950 کے عشرے میں بننے والی فلم ”آوارہ“ کا ایک سین لاجواب تھا۔ اس فلم میں راج کپور نے جیب کترے کا کردار ادا کیا تھا۔ سین یہ ہے کہ جج صاحب یعنی پرتھوی راج کپور سنار کی دکان سے ایک ڈبہ تھامے ہوئے باہر آتے ہیں۔ نرگس کو سالگرہ کے موقع پر دینے کے لئے انہوں نے ہار خریدا ہے جو ڈبے میں ہے۔ راج کپور جیب کترا ہے۔ وہ یہ بات نہیں جانتا کہ جج صاحب اس کے والد ہیں۔ راج کپور ان سے ٹکراتا ہے اور ڈبے سے ہار لے اڑتا ہے۔ جج صاحب اس بات سے بے خبر ہیں کہ ڈبے سے ہار غائب ہوچکا ہے۔ وہ نرگس کے گھر پہنچتے ہیں۔ چند لمحوں کے بعد راج کپور بھی وہاں پہنچتا ہے اور نرگس کو جیب سے نکال کر، ”بغیر ڈبے کا“ ہار پیش کرتا ہے۔ اگلے ہی لمحے جج صاحب بھی نرگس کو سالگرہ کے تحفہ یعنی ہار کا ڈبہ پیش کرتے ہیں۔ نرگس ڈبہ کھولتی ہے تو حیران رہ جاتی ہے، ظاہر ہے ہار اس میں نہیں تھا۔ وہ کہتی ہے۔۔ آج کا دن بھی عجیب ہے۔ کسی نے ہار دیا ہے تو ڈبہ نہیں تھا۔ اور اب کسی نے ڈبہ دیا ہے تو اس میں ہار نہیں!

پاکستان کا فسانہ بھی ”آوارہ“ کی کہانی سے خاصی مماثلت رکھتا ہے۔ جو لوگ باقاعدگی سے بجلی کا بل ادا کرتے ہیں انہیں بجلی میسر نہیں ہوتی۔ اور جنہیں باقاعدگی سے بجلی نصیب ہو جائے ان کے لئے بلنگ کا اہتمام نہیں کیا جاتا! ہوسکتا ہے بجلی کی فراہمی پر مامور ادارہ ہمیں ”شاک پروف“ رکھنا چاہتا ہو! مگر اُسے کیا معلوم کہ جو کرنٹ تاروں میں نہیں وہ بجلی کے بل میں پایا جاتا ہے! پانی کی فراہمی پر مامور ادارہ بھی کچھ ایسا ہی کھیل کھیلتا ہے۔ پانی ویسے تو آتا نہیں۔ جب بے پانی کا بل آتا ہے تب آنکھوں میں پانی ضرور آ جاتا ہے! اور اگر پانی نہ آنے کی شکایت درج کرانے جائیے تو لگتا ہے متعلقہ اہلکاروں کی آنکھوں کا پانی بھی مرچکا ہے!

کسی زمانے میں ”بھائی بھلکڑ“ کے عنوان سے ایک نظم پڑھی تھی۔ ان کا حال یہ تھا کہ جوتا پہنتے تو موزے پہننا بھول جاتے تھے اور موزے پہن لیتے تو جوتے پہننا یاد نہیں رہتا تھا! ہم پاکستانی بھی خاصے بھلکڑ اور سادہ ہیں۔ بقول میر تقی میر
اُسی عطّار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں!

جن لوگوں کو بار بار آزما چکے ہیں پھر اُنہی کو آزمانے کا ارادہ ہے! اب تک کتنی ہی حکومتوں نے ہمیں لوٹا ہے مگر ہم ایسے بھلکڑ ہیں کہ ساری کوتاہیاں بھول جاتے ہیں، معاف کردیتے ہیں! جب تک ہم اہل اقتدار کی حرام خوری برداشت کرتے رہیں گے، گھاس خوری ہی ہمارا مقدر رہے گی!

ہمدم دیرینہ، مدیر تکبیر یعقوب غزنوی سے کسی زمانے میں اِخلاص کا تعلق تھا، اب صرف ”اِصرار“کا رشتہ رہ گیا ہے۔ ملتے ہیں تو سلام دعا کے بعد پہلی فرصت میں (غزنوی ہونے نسبت سے!) اٹھارہواں حملہ کرتے ہوئے استفسار آمیز اصرار کرتے ہیں کالم کب دے رہے ہو! یہ جملہ وہ کچھ اِس انداز سے ادا کرتے ہیں جیسے مُرغی سے پوچھ رہے ہوں کہ انڈا کب دو گی! برادرم یعقوب غزنوی جب کالم کا تقاضا کرتے ہیں تو اُن کا چہرہ ایک خاص کیفیت سے دوچار دکھائی دیتا ہے۔ ایک دن ہم نے اُنہیں ایسی حالت میں دیکھ کر کہا کہ کالم دو ایک دن میں مل جائے گا تو وہ بولے ایسی کوئی نہیں۔ ہم نے پوچھا پھر کیا بات ہے، آپ کا چہرہ خاصا ”مقبوضہ“ کیوں دکھائی دے رہا ہے! اُنہوں نے پریشانی بیان کی ”آج کل گیس کا پرابلم چل رہا ہے۔“ ہم نے ایک مشہور زمانہ چورن تجویز کیا تو کہنے لگے ”نہیں بھئی، ہم تو قدرتی گیس کی بات کر رہے ہیں۔ ہم نے عرض کیا۔۔ بھائی صاحب، معدے کے کنویں میں پیدا ہونے والی گیس بھی قدرتی ہی ہوتی ہے! فرق صرف اتنا ہے کہ اِس کی پیداوار و اخراج کے لئے کسی ٹھیکیدار اور مشینری کی ضرورت نہیں پڑتی! یعقوب غزنوی صاحب نے جب گیس کے بحران کی وضاحت کی تب اندازہ ہوا کہ وہ اُس گیس کی بات کر رہے ہیں جو پیدا تو قدرتی طور پر ہی ہوتی ہے مگر ہم تک پہنچتے پہنچتے خاصی ”آرٹیفیشل“ یعنی مہنگی اور نخریلی ہو جاتی ہے! معلوم یہ ہوا کہ اُن کے ہاں گیس نہیں آ رہی۔ پھر جب اُنہوں نے بتایا کہ اُن کا فلیٹ چوتھے فلور پر ہے تب معاملہ ہماری سمجھ میں آگیا۔ چوتھے فلور تک تو رشتہ دار بھی نہیں آتے، گیس کہاں سے آئے گی! پھر ہم نے مبارک باد دی کہ گیس آپ سے دور ہوگئی تو کیا ہوا، چوتھی منزل پر سُکونت اختیار کرنے کی بدولت آپ گیس پیدا کرنے والی ذات سے تو قریب ہوگئے ہیں! اتنا سُننا تھا کہ وہ عالم کیف و مستی میں کہیں کھو گئے! ہم سمجھ گئے کہ پہلی بار کوئی ملا ہے جو اُن کے ٹاپ فلور کو سمجھنے میں کامیاب ہوا ہے!

کاش اِسی طرح ہم کسی دن ارباب و بست و کشاد کا ٹاپ فلور سمجھنے میں بھی کامیاب ہو جائیں! اُس دن ڈھول تاشوں کا حق ہوگا کہ اُن کی تھاپ پر احتجاج کیا جائے!
M.Ibrahim Khan
About the Author: M.Ibrahim Khan Read More Articles by M.Ibrahim Khan: 572 Articles with 525102 views I am a Karachi-based journalist and columnist. .. View More