عوام کا احتجاج بھی متعدی مرض کی
طرح ہوتا ہے۔ ایک دوسرے کی دیکھا دیکھی لوگ سڑکوں پر نکل آتے ہیں اور
احتجاج کے نام پر دل کی بھڑاس نکالنے لگتے ہیں۔ تالاب کے کنارے سب کھڑے
ہوتے ہیں مگر اِس انتظار میں رہتے ہیں کہ پہلا پتھر کوئی اور پھینکے! تیونس
میں عوامی انقلاب آیا تو مصر کے لوگ بھی بیدار ہوگئے اور اچانک یاد آگیا کہ
احتجاج تو اُنہیں بھی کرنا ہے! اور پھر احتجاجی چمن میں کچھ اس انداز سے
بہار آئی کہ آس پاس کے بہت سے مہر و ماہ بھی تماشائی ہو رہے۔ لبنان، اردن،
یمن اور شام کے عوام بھی اب انگڑائی لیکر بیدار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
مشرق کا وسطی حصہ نام نہاد اعتدال کو خیرباد کہتے ہوئے اب انتہا کو پہنچ
چکا ہے۔ مصر کے حالات نے کمال کر دکھایا ہے۔ جسے دیکھیے وہ مصری ہوا جاتا
ہے! کپڑوں، جوتوں، پردوں اور دوسری بہت سی چیزوں کی طرح رجحانات کا بھی
فیشن اور موسم ہوتا ہے! امریکہ اور اس کے مغربی اتحادی مسلم دنیا کے مرکز
میں جو کھیل طویل مدت سے کھیلتے آ رہے ہیں وہ اب ختم ہوتا دکھائی دیتا ہے۔
مصر کے عوام نے اب شاید کسی بھی فرعون کو کسی بھی شکل میں برداشت نہ کرنے
کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اللہ کرے کہ ہمارا یہ اندازہ درست نکلے اور بھلائی کی
طرف جانے والی راہ کچھ تو ہموار ہو۔
تیونس، مصر اور مشرق وسطیٰ کے دیگر ممالک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کے اثرات
ہزاروں میل دور پاکستان میں بھی اِس قدر مرتب ہوئے ہیں کہ اوروں کے ساتھ
ساتھ مرزا تفصیل بیگ بھی احتجاجی رنگ میں رنگ گئے ہیں، بلکہ یہ کہنا زیادہ
موزوں ہوگا کہ وہ مزید مرزا ہوگئے ہیں! کبھی کبھی وہ خیالوں کی وادی میں
اِس قدر مٹر گشت کرتے ہیں کہ انہیں اِس عالم میں دیکھنے والے اپنی قسمت پر
رشک کرتے ہیں کہ اُنہیں بغیر ٹکٹ دیکھنا نصیب ہوگیا! مرزا جب خیالات میں گم
ہوتے ہیں تو ان کا عالم ہی کچھ اور ہوتا ہے اور خلائی امور کے بعض ماہرین
کے اِس اعتقاد پر ایمان لانے کو جی چاہتا ہے کہ کائنات میں کہیں اور بھی
زندگی یعنی جاندار مخلوق موجود ہے! خیالات میں گم ہوکر مرزا کسی اور دنیا
کی مخلوق دکھائی دیتے ہیں!
ہر انسان اپنے مزاج میں چند ایک چیزیں ڈیفالٹ میں لیکر پیدا ہوتا ہے، یعنی
وہ چیزیں ’بلٹ اِن‘ ہوتی ہیں۔ مرزا کو اختلاف کرنے کا وصف پیدائشی طور پر
ملا ہے۔ اُنہیں تو اپنی پیدائش پر بھی اختلاف ہے! آج تک سَن کا تعین نہیں
کرسکے۔ فرماتے ہیں کہ گزرے ہوئے ہر دور میں حالات اس قدر خراب رہے ہیں کہ
اپنے صحیح سلامت پیدا ہونے کا یقین اب تک نہیں آتا! مگر خیر، دل خراش حقیقت
یہ ہے کہ مرزا نہ صرف یہ کہ پیدا ہوئے بلکہ اب تک ہمارے حصے میں لکھے ہوئے
ہیں!
مرزا کا نیا نظریہ یہ ہے کہ دنیا بدلنے والی ہے۔ ہمارے سامنے وہ اس نوعیت
کی باتیں کرتے ہوئے کتراتے ہیں۔ واضح رہے کہ مرزا کوئی بھی نیا نظریہ اُسی
وقت پیش کرتے ہیں جب اُس کا عملی پہلو مکمل شکل میں دنیا کے سامنے آچکا
ہوتا ہے، تاکہ تردید کی گنجائش نہ رہے! ٹی وی پر سیاسی مُرغوں کی یومیہ
لڑائی یعنی ٹاک شوز دیکھتے رہنے کے باعث اب وہ ”نظریات“ بھی خاصی تیزی سے
پیش کرنے لگے ہیں! جب بھی ملتے ہیں تو صاف محسوس ہوتا ہے کہ اُن کے ذہن (!)
کی مارکیٹ میں نیا مال آیا ہوا ہے! ذہن کی مارکیٹ کا نیا مال وہ سب سے پہلے
ہم پر ٹرائی کرلیتے ہیں! اُن کا ایک بنیادی شکوہ یہ ہے کہ ہم ایسی باتوں
یعنی نئے سیاسی نظریات کے بیان کرنے پر اُن کا مذاق اڑاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے
کہ ہم اُن کی ”ویسی“ باتوں کو بھی مضحکہ خیز ہی سمجھتے ہیں! مرزا واقعی
عوام میں سے ہیں یعنی سادہ لوح ہیں، ذرا سے احتجاج اور باسی کڑھی میں اُبال
کو انقلاب قرار دیکر خوش ہولیتے ہیں! غریب آدمی کی ”خوشیاں“ چھوٹی چھوٹی
ہوتی ہیں جو اُس سے کوئی چھین نہیں سکتا۔ ”انقلاب“ کا تصور بھی ایک ایسی ہی
خوشی ہے۔ پولیس سے جھڑپوں، دس بیس گاڑیاں جلانے اور سو پچاس دکانیں لوٹ
لینے کو بھی لوگ انقلاب سمجھ کر دل بہلا لیا کرتے ہیں! اب تک پسماندہ دنیا
میں یہی ہوتا رہا ہے۔ قومی دولت لوٹنے والوں کو اقتدار سے محروم کرنے کی
کوشش کرنے والے مزید قومی دولت کو آگ لگا کر، تلف کر کے اپنے دل کو ٹھنڈک
پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں اور اِس عمل کو انقلاب سمجھ کر خوش ہو لیتے
ہیں!
شمالی افریقہ اور عرب دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے اُس کی پشت پر عوام کے
ساتھ ساتھ تھوڑی بہت سازش بھی دکھائی دے رہی ہے یا محسوس ہو رہی ہے۔ امریکہ
کو شاید تازہ دم مہروں کی تلاش ہے۔ اگر عوام جاگ اٹھے اور اپنے مؤقف پر ڈٹے
بھی رہے تو ہوسکتا ہے کہ امریکہ کو طاقتور مہرے بٹھانے کا موقع نہ ملے یا
شاید وہ مہرے سامنے لانے سے کچھ مدت کے لئے گریز پر مجبور ہو جائے! مرزا
تفصیل بیگ کا استدلال ہے کہ اب مسلم دنیا جاگ اٹھی ہے۔ اُن کے منہ میں گھی
شکر، مگر کیا کیجیے کہ محض کہنے سے کوئی بات ہو نہیں جاتی۔ یہ تو اللہ کا
معاملہ ہے کہ وہ ”کُن“ کہے تو ”فیکُون“ یعنی ہو جاتا ہے۔ ہمارے ”کُن“ اور
”فیکُون“ کے درمیان عمل کی دنیا حائل ہے، بیچ میں جہدِ مسلسل کی شرط کا
میدان بھی پڑتا ہے! کہے کو کئے ہوئے میں تبدیل کرنے کے لئے ایک آگ کا دریا
عبور کرنا پڑتا ہے۔۔ اور وہ بھی ڈوب کر! صرف زبان کی نوک یعنی دل کے اوپری
حصے پر ”آوے ای آوے“ کا نعرہ ہو تو وہی گھسے پٹے چہرے پھر اقتدار کے فریم
میں جُڑ جاتے ہیں! اور ہم چہروں کی تبدیلی سے بھی بہل جاتے ہیں۔ سیاست اور
اقتدار کی منڈی بھی عام بازاروں ہی طرح ہوتی ہے، جیسا گاہک مل جائے ویسے
دام بتاؤ اور اُس کے گلے پر ڈیل کی چُھری پھیر دو! ہمارے ہاں ڈیل کی باتیں
تجارت سے زیادہ سیاست میں کی جاتی رہی ہیں، بلکہ پوری سیاست ہی پبلک ڈیلنگ
میں تبدیل ہوگئی ہے یعنی عوام کا یک مُشت، بیک جنبش قلم سودا کردیا جاتا
ہے! اقتدار کے ایوان میں جو آتا ہے وہ ڈیل کی پیداوار ہوتا ہے۔ اور لطف کی
بات یہ ہے کہ اِس حقیقت کے منظر عام پر آ جانے کی صورت میں شرمندہ بھی نہیں
ہوتا۔۔ بلکہ کبھی کبھی تو فخریہ بتاتا ہے کہ اُس کا اقتدار ڈیل کے بطن سے
پیدا ہوا ہے!
جب ماحول میں اِس قدر ڈھٹائی پائی جاتی ہو تو کیسی جمہوریت، کہاں کی
جمہوریت؟ ایسے میں تو بہت کچھ داؤ پر لگنے کی صورت ہی میں کسی بہتری کی
توقع کی جاسکتی ہے۔ مصر میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ مسلم دنیا کے لئے ٹیسٹ کیس
ہے۔ ایک آمر تیس سال کے بعد بھی جانے کے لئے تیار نہیں اور زبان پر یہ
دعویٰ ہے کہ وہ تو اقتدار کا بھوکا کبھی رہا ہی نہیں، بس مجبوری کا سودا
تھا جو نبھانا پڑا!
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خُدا!
واقعی سادگی کی انتہا ہے، اب تو ہاتھ میں تلوار بھی نہیں رہی! پھر بھی
اقتدار کے میدان سے نکل بھاگنے کو جی نہیں چاہ رہا! بس ایک موہوم سی امید
ہے کہ شاید بگڑی بات پھر بن جائے! لوگوں کو کہنا پڑ رہا ہے۔۔ کچھ شرم، یا
شیخ! مگر شیخ صاحب ہیں کہ شرم الشیخ میں چلمن سے لگے بیٹھے ہیں، صاف چھپتے
بھی نہیں اور سامنے آتے یعنی ملک سے جاتے بھی نہیں! ہر آمر کا ایسا ہی پردہ
ہوتا ہے، یعنی چلمن سے لگا بیٹھا رہتا ہے!
مشرق وسطیٰ کے تمام آمر اُسی ٹائپ کا پردہ پسند کرتے ہیں جو حسنی مبارک کو
پسند ہے۔ بیشتر کے پاؤں قبر میں لٹکے ہوئے ہیں مگر پھر بھی پسپا یا دست
بردار ہونے کو تیار نہیں۔ شاید وہ اپنی تدفین بھی اقتدار کے ایوان ہی میں
چاہتے ہیں تاکہ جسم کو حکومتی مٹی ملے اور روح کو اختیاری سُکون ملتا رہے!
مرزا کا کہنا ہے کہ جو کچھ مصر میں ہوا وہ اب اور بہت سے ممالک میں بھی
ہونے والا ہے۔ ہم اُن کی بات سے مکمل طور پر متفق نہیں۔ ہمارا استدلال یہ
ہے کہ خود بخود کچھ نہیں ہوگا، ہم کچھ کریں گے تو کچھ ہوگا! جو کچھ مشرق
وسطیٰ میں ہو رہا ہے وہ ایسی آسانی سے نہیں ہو جایا کرتا۔ انسان کی فطرت یہ
ہے کہ وہ جائز یا ناجائز، کسی بھی طور حاصل کی ہوئی چونّی اٹھنّی بھی آسانی
سے نہیں چھوڑتا۔ ایسے میں کوئی آسانی سے اقتدار کیوں چھوڑے گا؟ مُسلّط کئے
ہوئے اقتدار کی دیوار گرتی نہیں، گرائی جاتی ہے۔ یہ وہ منحوس دیوار ہے کہ
گر بھی رہی ہو تو بھروسہ نہیں کرنا چاہیے کیونکہ کبھی کبھی یہ خود ہی کمر
سیدھی کرلیتی ہے! یہی سبب ہے کہ اقتدار کی گرتی ہوئی دیوار کو بھی زور سے
دھکّا دینا پڑتا ہے! محض بھونکنے کے سے انداز سے نعرے لگانے کی صورت میں
”اِنکلاب“ تو آسکتا ہے، انقلاب کسی طور نہیں آسکتا! جب ہم مرزا سے یہ بات
کہتے ہیں تو وہ وہ ہتّھے سے اکھڑ جاتے ہیں اور خالص ”اِنکلابی“ انداز
اختیار کرتے ہوئے ہم پر برس پڑتے ہیں! ہم اُنہیں عوام اور اپنے آپ کو آمر
سمجھ کر چپ ہو رہتے ہیں، خوش ہو لیتے ہیں!
HIGHLIGHT
ہماری سیاست پبلک ڈیلنگ میں تبدیل ہوگئی ہے یعنی عوام کا یک مُشت، بیک جنبش
قلم سودا کردیا جاتا ہے! |