تحریر :مہک سہیل ،کراچی
بھارت کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے موجودہ حکومت کا مؤقف واضح ہے، وزیراعظم
عمران خان نے بھی اپنی پہلی تقریر میں کہا تھا کہ دہلی ایک قدم آگے بڑھائے
تو ہم دو قدم بڑھائیں گے پاکستان بھارت کے ساتھ امن چاہتا ہے۔ مسائل کا حل
مذاکرات کے ذریعے چاہتا ہے، مگر بھارتی حکمران نہ تو مذاکرات کے لئے تیار
ہیں اور نہ ہی انہیں امن میں دلچسپی نظر آ رہی ہے۔ بھارتی فوج کا بجٹ اب
تقریباً 60 ارب ڈالر کے قریب پہنچ چکا ہے۔ بھارت دنیا کا سب سے بڑا اسلحہ
درآمد کرنے والا ملک بن چکا ہے۔ 60 ارب ڈالر سے بہت سے بھارتی اکابرین کو
دلچسپی ہے۔اگر خطے میں امن قائم ہوتا ہے تو بھارت کو اپنا دفاعی بجٹ کم
کرنا پڑے گا اور یہ وہاں بہت سے لوگوں کو گوارا نہیں ہے سال 2019 شروع ہوتے
ہی بھارت کا جاسوسی ڈرون ناپاک عزائم لیے پاکستانی سرحد میں داخل ہوگیا تھا
جسے پاک فوج کے جوانوں نے بروقت کارروائی کرکے مار گرایا تھا، یعنی 2 روز
میں بھارت کا دوسرا ڈرون پاک فوج کا نشانہ بنا اس سے قبل پاک فوج نے 19
نومبر 2016 کو پاکستانی حدود میں داخل ہونے والے ڈرون کو مار گرایا تھا،آئی
ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ڈرون 60 میٹر تک پاکستانی حدود میں داخل ہوگیا
تھا.۔عالمی بینک کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان
اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے دونوں ملکوں کو سالانہ تجارت کی مد
میں 35 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ رہا ہے۔غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق جنوبی
ایشیا میں دنیا کا سب سے کم معاشی انضمام پایا جاتا ہے، عالمی بینک نے
پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ محاذآرائی کے بجائے مصنوعی رکاوٹیں
گرا کر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا شروع کریں۔دوسری جانب پاک بھارت
تعلقات سے متعلق عمران خان نے کہا کہ بھارتی حکومت نے ہماری مذاکرات کی
پیشکش کو ٹھکرادیا۔ بھارت کشمیر میں جو کچھ کررہا ہے وہ وحشیانہ عمل
ہے،کشمیریوں کی جدوجہد آزادی مقامی ہے انھوں نے خبردار کیا کہ پاک بھارت
اختلافات ایٹمی جنگ سے حل کرنا خودکشی ہوگی، امن کا واحد راستہ مذاکرات
ہیں۔پاکستان اب کسی اور کی جنگ نہیں لڑے گا اور کرائے کی بندوق کا کردار
ادا نہیں کریگا۔ پاکستان سے ہمیشہ ڈومور کی توقع کی گئی ہے۔ پاکستان نے
بھارت کے ساتھ مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا البتہ بھارت نے ہی ہر بار
مذاکرات کو سبوتاڑ کیا۔ بھارت نے تنازع کشمیر کے حل کی جانب کبھی پیش قدمی
نہیں کی مقبوضہ کشمیر میں بھارتی درندگی کا سلسلہ بدستور جاری ہے اور مختلف
علاقوں میں نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر شہریوں کو گھروں سے نکال کر شہید
کر دیا جاتا ہے۔مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ ماہ بھی بھارتی جارحیت عروج پر رہی
اب تک مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کے نام نہاد سرچ آپریشن کی آڑ میں مظلوم
کشمیریوں کے کتنے گھر بھی تباہ کر دیئے گئے یہی نہیں بلکہ نسبتاً آسان
تنازعات کو حل کرنے کے لیے بھی کبھی سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ اب پانی
کے تنازعے پر بھی بھارت نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کیا ہے۔بھارت مسلسل مقبوضہ
کشمیر میں پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں پر ڈیم اور بیراج بنا رہا ہے
جس کی وجہ سے پاکستان کی جانب بہنے والے دریاؤں میں پانی مسلسل کم ہو رہا
ہے۔ پاکستان کی زراعت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ رہا ہے اور اس کے ساتھ
ساتھ زیرزمین پانی بھی کم ہو رہا ہے۔بھارت لائن آف کنٹرول پر سرحدی حدود کی
مسلسل خلاف ورزیاں کرتے ہوئے بلا اشتعال گولہ باری کر کے شہریوں کی جان،
مال ،تعلیمی ادارہ جات،صحت کے ادارہ جات کو نقصان پہنچا رہا ہے۔مقبوضہ
کشمیر میں بھی آئے روز بے گناہ شہریوں کا قتل عام جاری ہے مقبوضہ کشمیر میں
حالات کی خرابی کا برملا اعتراف کیا جا رہا ہے۔ وہاں اب جرنیل بھی مسئلے کے
سیاسی حل کی ضرورت پر زور دے رہے ہیں۔دوسری جانب پاکستان اور انڈیا کے
درمیان بارڈر پر حالیہ جھڑپوں نے کئی سویلینز کی جانیں لی ہیں۔ لائن آف
کنٹرول پر فائرنگ ویسے تو معمول ہے، اور اس بات کا اشارہ ہوتا ہے کہ دونوں
ممالک کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں پاکستان کی کنٹرول لائن پر بھارت کی جانب
سے سیز فائر معاہدے کی خلاف ورزیوں میں دوبارہ اضافہ ہواہے لائن آف کنٹرول
پر شہریوں کو نشانہ بنانا قابل مذمت اور انسانی اقدار اور انسانی حقوق کے
قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ تناؤ اور کشیدگی دونوں پڑوسی ممالک کے مفاد
میں نہیں۔ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی ختم اور تعلقات میں بہتری ممکن ہے
بشرطیکہ دونوں حکومتیں سنجیدگی کا مظاہرہ کریں کیونکہ دوست بدلے جا سکتے
ہیں لیکن پڑوسی نہیں بدلے جاسکتے۔بھارتی قیادت کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی
چاہئے کہ وہ پاکستان کو دباؤ میں لا کر کسی بھی مسئلے کا من مرضی کا حل
تلاش نہیں کر سکتا۔ اس کے لیے مذاکرات کا آن ہی استعمال کرنا پڑے گا لہٰذا
وقت کی ضرورت یہ ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے اور پاکستان کے ساتھ
موجود متنازعہ معاملات پر بات کرے تاکہ کشیدگی کی فضا ختم ہو سکے اور دونوں
ملک تعمیر وترقی کی راہ پر گامزن ہو سکیں۔پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک
بڑا مسئلہ جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات کی نوعیت آج تک کشیدہ ہے، وہ
مسئلہ کشمیر ہے۔کشمیر کا مسئلہ پوری دنیا بالخصوص جنوبی ایشیا کے لئے ایک
سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ دوسرا بڑا تنازع پانی کا تنازع ہے دونوں ممالک
کو بات چیت کے ذریعے تمام تنازعات کا حل نکالنا چاہئے پاکستان کو بھارت کے
عزائم پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور اقوام عالم کو اس کے خطرناک ارادوں سے
باخبر رکھنے کے لئے بھی غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ پاک
بھارت جنگ کا خطرہ حقیقی صورت بھی اختیار کر سکتا ہے۔ |