والدین کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ ان اولاد کو کوئی
تکلیف نہ پہنچے ۔ اگر یہ کہاجائے تو غلط نہ ہوگا کہ ماں اور باپ دونوں ہی
قدرت کا عظیم شاہکار ہیں ۔ پیدا ہوتے ہی یہ دو فرشتے دل و جان سے اپنے
نومولدبچے کی نگہداشت اپنی جان سے زیادہ کرتے ہیں ‘ معمولی سی تکلیف بھی
انہیں بے چین کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے ۔ مجھے یاد ہے کہ جب میں تیسری
جماعت میں پڑھتا تو اس وقت میرے والد واں رادھا رام (موجودہ نام حبیب آباد
) میں بطور کیبن مین80 روپے تنخواہ پر ملازم تھے ‘ ایک شام میری دونوں
آنکھیں سوجھ گئیں ‘ کوشش کے باوجود کچھ دکھائی نہیں دے رہا تھا ۔ سخت
سردیوں کاموسم تھا ‘ والد صاحب ڈیوٹی ختم کرکے 4 بجے گھر پہنچے تو اپنے
لاڈلے کی حالت دیکھ کر پریشان ہوگئے ‘ کچھ کھائے پیئے بغیر ہی مجھے اپنے
ساتھ لے کر گاڑی کے انتظار میں آبیٹھے ‘کچھ دیر بعد لاہور سے ساہی وال جانے
والی ٹرین آئی تو اس میں سوار ہوکر ہم رینالہ خورد پہنچے جہاں ایک نیم حکیم
قسم کا ڈاکٹر موجود تھا ۔یاد رہے کہ یہ وہ زمانہ تھا جب شام ڈھلے دکانیں
اور ٹریفک بند ہواجاتاکرتی تھی ۔ ڈاکٹر سے آنکھوں میں ڈالنے کے لیے دوائی
لی اور ایک بار رینالہ خورد اسٹیشن کے پلیٹ فارم پر آبیٹھے ‘ موسم کی
قہرسامانیاں جاری تھیں ‘ ہم دونوں سردی سے کانپ رہے تھے‘ والد نے اپنے اوپر
اوڑھی ہوئی گرم چادر بھی مجھ ڈال دی ‘ ہم رات 9 بجے سردی سے کانپتے ہوئے
گھر واپس پہنچے اور خود کتنے ہی دن بخار میں مبتلا رہے۔اگر میں کہوں کہ باپ
ایثار ‘ قربانی اور بے لوث محبت کا نام ہے تو غلط نہ ہوگا ۔یہ واقعہ میرے
ذہن میں ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوگیا۔ کسی دوست نے والد صاحب کو مشورہ دیا اگر
تم یہاں ہی قیام پذیر رہے تو نہ تمہارے بچے اعلی تعلیم حاصل کرسکتے ہیں اور
نہ ہی وہ کسی اچھے عہدے پر پہنچ سکتے ہیں ۔بہترہوگا اگر تم لاہور اپنی
ٹرانسفر کروا لو۔ یہ بات والد صاحب کے دل کو لگی انہوں نے اسی وقت لاہور
آنے کا فیصلہ کرلیا اس کے باوجود کہ لاہور تعیناتی کے بعد انہیں شنٹنگ
پورٹر کی حیثیت سے کام کرنا پڑا۔ یہ ڈیوٹی اس قدر خطرناک تھی کہ معمولی سے
غلطی سے انسان کے دو ٹکڑے ہوسکتے تھے لیکن والد صاحب نے ہماری تعلیم اور
ترقی کی خاطر اپنی جان کو خطرے میں ڈالا ۔ یاد رہے کہ لاہور شہر کے اخراجات
پورے کرنے کے لیے انہیں آٹھ گھنٹے ڈیوٹی کے علاوہ بھی ریل کے ڈبوں سے
لکڑیاں اتارنی پڑتیں جس کا معاوضہ صرف 3 روپے ملتا تھا ‘اتنے پیسوں کے لیے
وہ صبح سے شام تک یہ مزدوری کرتے ۔میں اور میرے بڑے دو بھائی بھی سکول سے
آنے کے بعد ان کا ہاتھ بٹاتے ۔ جن دنوں مجھے لوکل گورنمنٹ میں گیارہویں
سکیل کی ملازمت ملی ۔اس دن والد اور والدہ کے چہرے پر میں نے اتنی خوشی
دیکھی جیسے انہیں اپنی محنت کا پھل مل گیا ہو ۔والد صاحب لاہور آنے کے بعد
زیادہ دیر اولاد کی خوشیاں اورکامیابیاں نہ دیکھ سکے اور جلد ہی بیماریوں
نے انہیں گھیر لیا ۔پیشاب میں رکاوٹ کی بیماری تو بہت پہلے سے تھی ‘ دونوں
آنکھوں میں سفید موتیا بھی اترآیا ۔اس لمحے مجھے اپنے والد کی قربانیوں اور
محبتوں کا مکمل احساس تھا میں اپنے اخراجات پر پروسٹیٹ کا آپریشن کروانے
پرتیار تھا لیکن والد اوپن سرجری سے خوفزدہ تھے‘ اس لیے آپریشن نہ ہوسکا ۔
بعدازاں آنکھوں کا آپریشن یکے بعد دیگرے سروسز ہسپتال میں ڈاکٹرواصف محی
الدین سے کروایا تو سردیوں کی کتنی ہی راتیں ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر ‘ میں
نے اپنے والد کی دیکھ بھال میں گزار دیں ۔اﷲ کے فضل سے دونوں آنکھوں کی
بینائی لوٹ آئی ۔ 19 جنوری 1994ء کا دن بھی آج پہنچا جب وہ ہمیں چھوڑ کر
ایسی دنیا میں جابسے جہاں سے کوئی واپس نہیں آتا۔میں نے اپنی بخشش کے لیے
جو کلمہ کلام پڑھ رکھا تھا وہ ایصال ثواب کردیا ۔ ابھی تین دن ہی گزرے تھا
کہ وہ مجھے خواب میں ایک بلند چوبترے پر بیٹھے دکھائی دیئے ۔ انہوں نے مجھے
آواز دے کر اپنے پاس بلا یا اور حکم دیا کہ اپنے بھائی اکرم کا خیال رکھو ‘
وہ حادثے کے وجہ سے جنازے میں شریک نہیں ہوسکا تھا اور یہ بھی فرمایا کہ ان
کی جان کا صدقہ دو تاکہ وہ جلد صحت یاب ہوجائے ۔ پہلی ملاقات اتنے خوشگوار
ماحول میں ہوئی کہ میں خوشی سے نہال ہوگیا ۔ میں سمجھتا ہوں کہ یہ والدین
کی دعاؤں کانتیجہ ہے کہ میں گزشتہ بیس پچیس سالوں سے نماز تہجد اور صلاۃ
تسبیح پڑھنے کے بعد‘نماز فجر باجماعت ادا کرتا ہوں اور اپنے مرحوم والدین
اور دیگر عزیز اقارب کی بخشش کے لیے دعا بھی کرتا ہوں اور صدقہ خیرات بھی ۔
شاید اسی دعا کا نتیجہ ہے کہ روزانہ نہیں تو ہر دوسرے تیسرے دن والدین سے
میری ملاقات ہوجاتی ہے ۔پھر وہی ماحول دکھائی دیتا ہے جو وفات سے پہلے تھا
۔کئی مرتبہ تو والدہ کے ہاتھ کے پکے ہوئے کھانے بھی کھا چکا ہوں اور غلطی
پر ڈانٹ بھی پڑتی ہے ۔ جن دنوں میں بنک سے ریٹائر ہورہا تھا سخت پریشان تھا
کہ تنخواہ اور پنشن کے بغیر زندگی کیسے گزرے گی ‘ والدین خواب میں ملے اور
دلاسہ دیتے ہوئے فرمایا کیا لوگ ریٹائر نہیں ہوتے تم کیوں پریشان ہو ‘ایک
در بند تو سو در کھلتے ہیں ‘ اﷲ تمہیں زندگی کی ہر نعمت عطا کرے گا ۔ کسی
نے کیا خوب کہاہے کہ والدین موت کی صورت میں جسمانی طور پر جدا تو ہوجاتے
ہیں لیکن ان کی روحیں اپنی اولاد کو ایسے ہی دیکھ رہی ہوتی ہیں جیسے وہ
زندگی میں دیکھاکرتی تھیں ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن میں یہ بات پوری
دیانت داری سے کہتا ہوں کہ میں جب سوتا ہوں تو اپنے مرحوم والدین کے پاس
پہنچ جاتا ہوں ‘ نیند سے بیدار ہوتا ہوں تو اپنے بیوی بچوں کے پاس خود کو
موجود پاتاہوں ۔ اس دنیااور اس دنیا میں ایک باریک ساپردہ ہے یہی پردہ زندہ
اور مرنے والوں کے درمیان میں حائل ہے ۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے ماں باپ ہی تمہاری
جنت اور ماں باپ ہی تمہارا دوزخ ہیں ۔وہ خوش نصیب ہیں جن کے والدین زندہ
ہیں ۔نیک اولاد والدین کو زندگی میں بھی راحت پہنچاتی ہے اور مرنے کے بعد
بھی اپنی عبادت او نیک عمل سے والدین کی قبر کو جنت کا گہوارہ بنا دیتی ہے
۔ |