مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ کئے جانے کے بعد سے
مقامی سیاست میں ''جوڑ توڑ ''کا عمل جاری ہے اور اگلے الیکشن کے لئے بھارت
نواز سیاسی جماعتوں میں استعمال شدہ کھلاڑیوں کے علاوہ نئے کھلاڑی بھی تیار
کرنے کی کوششیں نظر آ رہی ہیں۔اس حوالے سے ایسے انداز بھی اپنائے جا رہے
ہیں کہ جن سے مقبوضہ کشمیر کے عوام کو انڈین سیاست کی طرف مائل کیا جا
سکے۔اس وقت انڈیا میں '' بی جے پی'' کی نریندر مودی حکومت کی انتہا پسندانہ
پالیسیوں،سخت گیر اقدامات کے خلاف کانگریس کی سیاسی مہم جاری ہے ۔مقبوضہ
کشمیر میں بھی اس طرح کی سیاسی لام بندی کی جار ہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں
قتل و غارت گری کی کاروائیوں کو مودی حکومت کے ذمے لگاتے ہوئے،اس کی مخالفت
کا'' انڈین موقف'' اپنا کر کشمیریوں کو بھارتی دھارے کی طرف راغب کیا جائے
۔
گزشتہ دو چار دنوں سے مقبوضہ کشمیر میں انڈین ایڈ منسٹریٹیو سروس( آئی اے
ایس) کے ایک افسر شاہ فیصل کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں شہری ہلاکتوں اور
انڈین حکومت کی طرف سے اس حوالے سے سیاسی اقدامات نہ اٹھائے جانے کے خلاف
سروس سے مستعفی ہونے اور سیاست میں آنے کے اعلان کی ڈرامائی صورتحال دیکھنے
میں آ رہی ہے۔شاہ فیصل نے پہلے نیشنل کانفرنس میں شامل ہونے کا اشارہ
دیا،پھر کہا کہ وہ ایک آزاد امیدوار کے بطور شمالی کشمیر سے انڈین پارلیمنٹ
کے ایوان زریںلوک سبھا کا الیکشن لڑ سکتے ہیں۔شاہ فیصل کے خلاف سوشل میڈیا
پہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی شہری ہلاکتوں کی مذمت کے الزامات میں سرکاری
تحقیقات جاری تھی اور اسی دوران شاہ فیصل چھٹی لے کر ایک سال امریکہ رہے۔
شاہ فیصل نے'' بی بی سی'' گفتگو میں کہا کہ ''ایک ایسی سیاسی جماعت کا حصہ
بنوں گا جس میں مجھے انڈین مسلمانوں، کشمیریوں اور اقلیتوں کے ساتھ ہونے
والی زیادتیوں پر بات کرنے کی آزادی ملے گی۔ پہلے میں انتظامیہ کے ذریعہ
لوگوں کی خدمت کرتا رہا اب سیاست کے ذریعہ بہتر انداز میں کر سکوں گا،
سیاست پبلک سروس کا ایکسٹینشن ہے ۔ جو ہم آج تک کام کررہے تھے وہ
سیاستدانوں کے ساتھ ملکر کرتے تھے ۔ اب سیاستدان بن کر کرسکتے ہیں۔ دو
باتیں ہیں، ایک عوام کی بات کرنا اور دوسرا عوام کے کام کرنا، یہ دو چیزیں
سیاست میں ممکن ہیں۔ اس لئے سیاست میرے لئے ایک اچھا آپشن ہے ۔ قوم کی
نمائندگی کرنے میں ایک الگ مزا ہے ۔ اگر مجھے سیاست میں آنے کا موقع ملا تو
میں اس موقعے کو حاصل کروں گا۔یہ بھی سوچا تھا کہ میں گیلانی صاحب کی قیادت
والی حریت کانفرنس میں شامل ہو جائوں گا، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میں وہاں
کروں گا کیا؟ حالانکہ کشمیر میں تبدیلیاں الیکشن اور قانون سازی سے لائی
جاتی ہیں۔یا تو ایسا ہونا چاہئے تھا کہ کشمیر میں الیکٹورل سیاست ہوتی ہی
نہیں۔ یا تو کوئی منتخب ہی نہیں ہوتا۔ لیکن جو لوگ منتخب ہورہے ہیں کیا وہ
ہمارے ساتھ انصاف کرپاتے ہیں؟ اس طرف سوچنے کی ضرورت ہے ۔ ایک طرف ہم نے
آزادی کے لئے ملین مارچ نکالا تو دوسری جانب70فیصد ووٹ ڈالے ۔ اس کو دیکھتے
ہوئے ہم کیوں نہ اچھے لوگوں کو پارلیمنٹ میں بھیجے اور اسمبلی میں بھیجے جو
عوام کے ساتھ انصاف کرسکے ۔ مین اسٹریم سیاست کو صحیح معنوں میں استعمال
کرنے کی ضرورت ہے ۔ یہ بتانے کی ضرورت ہے کہ کشمیر نوکریاں، زمین ، سڑک یا
مذہبی تنازعہ نہیں ہے بلکہ ایک سیاسی مسئلہ ہے۔''شاہ فیصل سے متعلق چہ مہ
گوئیاں بڑ ہیں تو کہا کہ جمعہ کو پریس کانفرنس میں اہم اعلان کروں گا تاہم
جمعہ کو پریس کانفرنس میں شاہ فیصل پہلے کہی گئی باتوں کے علاوہ کسی نئی
بات کا اضافہ نہ کر سکے۔
گزشتہ دنوں ہی '' پی ڈی پی '' کے ایک اسمبلی ممبر،سابق پولیس افسر سمیت
متعدد افراد سجاد لون کی پیپلز کانفرنس میں شامل ہوئے۔اسی حوالے سے ایک
پریس کانفرنس میں سجاد لون کا یہ کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر کے پولیس افسران
بھارت نواز سیاسی جماعتوں کی توڑ پھوڑ میں لگے ہوئے ہیں۔شاہ فیصل کی طرف سے
مقبوضہ کشمیر میں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کی حکومتوں کے اختیارات کی
سطح اور معیار دیکھتے ہوئے بھی مقبوضہ کشمیر کی بھارتی کنٹرول کی سیاست سے
توقعات وابستہ کرنا انوکھی بات ہے۔کشمیر کے بعض حلقے سجاد لون کو پاکستانی
سیاست میں تیار کئے جانے والے عمران خان کے کردار کے روپ میں دیکھ رہے
ہیں۔یوں ایک طرف کشمیری عوام کی آزادی ،مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لئے
جدوجہد اور قربانیوں کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے اور دوسری طرف مقبوضہ کشمیر
میں مفاد پرستی کی سیاست کا کاروبار بھی جاری ہے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی
سیاسی شطرنج کی چالوں کے جواب میں تحریکی و ہمدرد حلقے کیا انداز اپناتے
ہیں،یہ بات بھی نہایت اہم ہے۔ |