ظرف

تحریر:صدف نایاب
ظرف کیا ہے؟۔ ظرف کا مطلب ہے ہمت، حوصلہ کے ساتھ کچھ ایسا کر کے دکھا دینا جہاں آپ کی انا آپ کو آگے نہ بڑھنے دے۔ عموما انسان وہاں اپنا ظرف کھو دیتا ہے جب وہ اپنے سے کسی کمزور یا رشتہ میں کسی چھوٹے سے معاملات کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جب انسان اپنے سے کسی بڑے کے سامنے بھی حق پر ہوتے ہوئے بھی جھگڑا چھوڑ دیتا ہے اورمعاف کر دیتا ہے تو یہ بھی اس کی اعلی ظرفی ہے۔ کسی بھی بڑے کا لحاظ کیے بغیر جواب دینا بہر حال بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے جو کہ منع فرمایا گیا ہے۔ نبیﷺکا ارشاد ہے’’جو چھوٹے پر رحم اور بڑے کا ادب نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔

آج گھروں میں لڑائی جھگڑا، بے سکونی، مقابلہ، ایک دوسرے کو چپ کروانے کے لیے ایک سے بڑھ کر ایک جواب سوچ کر دینا، فضول کی بحث ومباحثہ میں پڑنا، ساس بہو، جیٹھانی دیورانی، باس کلرک حتی کہ ماں بیٹی تک کا رشتہ آج جھگڑوں کی نظر ہو چکا ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کیوں ہم عدم برداشت، غصے، دل میں پلنے والے کینے، بغض اور عداوت کا شکار ہو چکے ہیں۔ وہ کونسے عوامل ہیں جو ہمیں اخلاقی پستی کا مظاہرہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں؟ بجائے اس کے کہ ہم اعلیٰ اخلاق اپنائیں ہم دوسرے سے زیادہ برا رویہ روا رکھ کر یہ بتاتے ہیں کہ ہم میں قوت برداشت کا عنصر موجود نہیں۔ ہم بچپن سے اﷲ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرنا سیکھتے ہیں مگر ہمارے دماغ کی پروگرامنگ پھر بھی ہمیں غلط کرنے پر ہی ابھارتی ہے۔

ان سب باتوں کی بنیادی وجہ کم ظرفی اور شیطان کا ہمارے اوپر مکمل کنٹرول ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم شیطان سے اپنے آپ کو بچانا سیکھیں۔ ہر حال میں چاہے وہ اچھا ہو یا برا اس کو اﷲ کی عطا سمجھ کر قبول کریں۔ صرف زبانی تعریفوں کہ بجائے کسی کی خدمت کو دل سے قبولیت کا شرف بخشنا،کسی ناپسندیدہ شخص کے بارے میں اگر کچھ اچھا نہیں بول سکتے تو برا کہنے سے بھی اجتناب کرنا۔ چھوٹی چھوٹی باتوں کو سراہنا اور اعتماد دینا۔ یہ سب رویے ہمارے ذہن کے لیے آکسیجن کا کام کرتے ہیں۔ ایسے ہی کسی کے لیے اپنی ذاتی سوچ کو بالائے طاق رکھتے ہوئے حسن ظن سے کام لینا اور معاملہ کرنا ظرف نہیں تو اور کیا ہے؟

ہمارے پیارے نبیﷺکا فرمان ہے، ’’ اپنے بھائی کے لیے وہی پسند کرو جو اپنے لیے کرتے ہو‘‘۔ اس ایک فرمان میں اﷲ کے نبیﷺنے آداب معاشرت سکھا دی۔ جب انسان وہی رویہ جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے دوسرے کے ساتھ بھی بھی رکھے گا تو جھگڑا کس بات کا ہو گا۔ یہاں ایک بہت بڑا نکتہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم کسی کے ساتھ مثبت رویے اور اپنے مثبت طرز تکلم کے ساتھ بات چیت کریں گے۔ تو یہ عین ممکن ہے کہ اس کے دل دماغ پر ایک نہیں تو دسویں بار ضرور مثبت اثر پڑے گا۔ یہ مثبت اثر جب ایک اکلوتے بندے سے ایک دوسرے شخص تک پہنچے گا تو لازمی سی بات ہے کہ آہستہ آہستہ یہ اثر پورے گھر، محلے، معاشرے سے ہوتا ہوا ایک دن ضرور پوری دنیا میں پھیلے گا۔ اس کی سب سے بڑی مثال ہمارے انبیا کے بعد صحابہ کی ہے کیونکہ انبیا اگرچہ اﷲ تعالٰی کے فضل سے گناہوں سے پاک اور معجزانہ صلاحیتیں رکھتے ہیں لیکن صحابہ کرامؓ جن میں حضرت عمرؓ جیسے جلیل القدر صحابی کی بہادری اور شجاعت کے قصیدے ہندو بھی پڑھتے ہیں۔ ہمیں بھی ان کی سیرت پر عمل پیرا ہونا چاہیے۔

ایک دفعہ ایک جنگ کے دوران ایک صحابی کی زد میں ایک کافر آگیا اس نے ان کے منہ پر تھوکا۔ مگر ان صحابیؓ نے یہ سوچ کر اس کافر کی جان بخشی کر دی کہ اگر اب میں نے اسے مارا تو یہ اﷲ کے لیے نہیں بلکہ میرے غصے کی وجہ سے ہوگا۔ یعنی جہاں اپنی انا آگے آجائے اور نفس کہے کے قتل کر ڈالو وہاں درگزر کر جانا سوائے اﷲ کی خاطر اور دین اسلام کی جہاں بات ہو گی وہاں کوئی رعایت نہیں بخشی جائے گی۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کسی کی دی ہوئی اذیت ہم شاید بھلا تو سکیں مگر معاف نہیں کر سکیں گے۔ یہاں سوچنے کا مقام ہے کہ روز قیامت ہم اپنے گناہوں کا بار اٹھائے اﷲ کے حضور معافی کے طلبگار بن کر کھڑے ہوں۔ اﷲ تعالی ہمیں دیکھ کر یہ فرمائیں’’آج میرے لیے بہت مشکل ہے تمھیں معاف کرنا۔ تم نے یہ اور یہ اتنے بڑے گناہ کیے لہذا جھنم کی آگ میں گرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘یقینا یہ ایک دل دہلا دینے والی سوچ ہے۔ ہم میں سے کوئی بھی یہ سوچنا بھی نہیں چاہے گا کہ ہماری بخشش نہ ہو۔ ایسے ہی ہمیں بھی چاہیے کہ اعلی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے سے بڑے، چھوٹے یا برابر والے کی غلطی کو معاف کر دیں تاکہ ہمارے ساتھ بھی نرمی والا معاملہ فرمایا جائے جس دن ہمیں معافی کی سب سے زیادہ ضرورت ہوگی۔
نبیﷺ کی کیا خوبصورت اور اﷲ پر توکل کو بڑھاتی ہوئی حدیث ہے کہ’’حضرت عائشہؓ سے روایت ہے،’’بے شک اﷲ نرمی کرنے والا ہے، نرمی کو پسند فرماتا ہے، نرمی پر جو کچھ عطا فرماتا ہے وہ سختی پر اور اس کے علاوہ کسی چیز پر عطا نہیں فرماتا‘‘۔

البتہ دین کے معاملات اور حدود الہیہ میں نرمی نہیں چلے گی بلکہ وہاں ظرف کا مطلب برائی سے روکنا اور نیکی کا حکم دینا ہو گا۔اب ہم میں سے کون ہے جو وہ چیز حاصل نہیں کرنا چاہتا جو اﷲ نے نرمی اور معاف کرنے والوں کیلیے رکھی ہے۔ یقیناً دنیا اور آخرت کی بھلائی ہماری زندگیوں کا نصب العین ہے۔

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1023085 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.