مہمان نوازی کی اسلام میں بڑی قدرومنزلت ہے مگر آج کے
مادی دور میں مسلمان اس صفت سے عاری ہوتے نظر آرہے ہیں۔ تھوڑے بہت ہوں گے
جنہیں اللہ کی توفیق سے مہمان نوازی کا شرف حاصل ہوجاتا ہے جبکہ اکثر کے
حصے میں محرومی آتی ہے ۔ ایسا نہیں ہے کہ آج کھانے پینے کی کمی ہے یا
دعوتیں اور تقریبا ت منعقد نہیں ہوتیں ۔ اس معاملے میں تو ہم سب بہت آگے
ہیں مگر وہ دعوت کہاں نظر آتی ہے جس میں کوئی بھوکا شامل ہو، کوئی فقیر
ومسکین شریک ہواہویا اس میں کسی یتیم کو بلایا گیا ہو۔ آج کل کی اکثر
دعوتیں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے اس فرمان کے مصداق ہیں۔
عن أبي هريرةَ أنه كان يقول : بئسَ الطعامُ طعامُ الوليمةِ يُدعى إليه
الأغنياءُ ويُترك المساكين،فمن لم يأتِ الدَّعوةِ ، فقد عصى اللهَ ورسولَه
.(صحيح مسلم:1432)
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ برا کھانا اس ولیمہ کا
کھانا ہے جس میں امیر بلائے جائیں اور مساکین نہ بلائے جائیں تو جو دعوت
میں نہ حاضر ہو اس نے نافرمانی کی اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کی۔
قرآن میں ایک انصاری صحابی کی ضیافت کا ذکر ہے ،آئیےاسے پڑھ کے اپنا ایمان
تازہ کرتے ہیں ، فرمان الہی ہے :
وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ ۚوَمَنيُوقَشُحَّنَفْسِهِفَأُولَٰئِكَهُمُالْمُفْلِحُونَ
(الحشر:9)
ترجمہ: اور وہ اپنے اوپر انہیں ترجیح دیتے ہیں گو خود کتنی ہی سخت تنگی میں
ہو اور جو بھی اپنے نفس کے بخل سے بچایا لیا گیا وہی اصل کامیاب ہے ۔
اس آیت کی شان نزول میں صحیح بخاری میں نہایت ہی ایمان افروز واقعہ مذکور
ہے چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی خدمت میں ایک صاحب خود حاضر ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! میں
فاقہ سے ہوں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے پاس
بھیجاکہ وہ آپ کی دعوت کریں لیکن ان کے پاس کوئی چیز کھانے کی نہیں تھی۔ آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا کوئی شخص ایسا نہیں جو آج رات اس
مہمان کی میزبانی کرے؟ اللہ اس پر رحم کرے گا۔ اس پر ایک انصاری صحابی (ابوطلحہ)
کھڑے ہوئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آج میرے مہمان ہیں پھر وہ انہیں
اپنے ساتھ گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کے مہمان ہیں، کوئی چیز ان سے بچا کے نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا اللہ کی
قسم میرے پاس اس وقت بچوں کے کھانے کے سوا اور کوئی چیز نہیں ہے۔ انصاری
صحابی نے کہا اگر بچے کھانا مانگیں تو انہیں سلا دو اور آؤ یہ چراغ بھی
بجھا دو، آج رات ہم بھوکے ہی رہ لیں گے۔ بیوی نے ایسا ہی کیا۔ پھر وہ
انصاری صحابی صبح کے وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فلاں (انصاری
صحابی) اور ان کی بیوی (کے عمل) کو پسند فرمایا۔ یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے یہ فرمایا کہ) اللہ تعالیٰ مسکرایا پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کی «ويؤثرون
على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة» یعنی اور اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتے
ہیں اگرچہ خود فاقہ میں ہی ہوں۔(صحيح البخاري:4889)
سبحان اللہ کتنے عظیم ہیں وہ میزبان جن کی تعریف اللہ کرے اور ان کا ذکر
قرآن میں کرے ؟
کھانا کھلانے اور میزبانی کرنے کے بڑے فضائل ہیں اور یہ بڑےثواب کا کام ہے
، نبی ﷺ فرماتے ہیں :
خيرُكُمْ مَنْ أَطْعَمَ الطعامَ ، وردَّ السلامَ(صحيح الجامع:3318)
ترجمہ: تم میں سے سب سے بہتر آدمی وہ ہے جو کھانا کھلاتا ہے اور سلام کا
جواب دیتا ہے۔
اور جو ضیافت نہیں کرتا وہ خیر سے محروم ہے ، نبیﷺ فرماتے ہیں :
لا خيرَ فِيمَنْ لا يُضِيفُ(صحيح الجامع:7492)
ترجمہ: اس شخص میں کوئی بھلائی نہیں ہے جو میزبانی نہ کرے۔
یہاں تک رسول اللہ ارشاد فرمادیاکہ اگر کوئی ضیافت سے انکار کرے تو جبرا
اپنی ضیافت وصول کرو، فرمان نبوی ہے :
إن نزلتم بقومٍ ، فأُمِرَ لكم بما ينبغي للضيفِ فاقْبَلُوا ، فإن لم
يَفعلوا ، فخذوا منهم حقَّ الضيفِ(صحيح البخاري:2461)
ترجمہ:اگر تمہارا قیام کسی قبیلے میں ہو اور تم سے ایسا برتاؤ کیا جائے جو
کسی مہمان کے لیے مناسب ہے تو تم اسے قبول کرلو، لیکن اگر وہ نہ کریں تو تم
خود مہمانی کا حق ان سے وصول کرلو۔
اسی لئے متعددعلماء نے میزبان پر ضیافت کو واجب کہا ہے ، یہ استدلال مذکورہ
حدیث کے علاوہ اور احادیث سے کیا جاتا ہے ، ان میں سے ایک یہ ہے ، نبی ﷺ
فرماتے ہیں:
مَن كان يُؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخِرِ فلْيُكرِمْ جارَهُ، ومَن كان
يُؤمِنُ باللهِ واليومِ الآخِرِ فلْيُكرِمْ ضَيْفَهُ جائِزَتَه. قال : وما
جائِزَتُه يا رسولَ اللهِ ؟ قال : يومٌ وليلةٌ، والضِّيافَةُ ثلاثةُ أيامٍ،
فما كان وَراءَ ذلك فهو صدَقَةٌ عليه(صحيح البخاري:6019)
ترجمہ: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کا
اکرام کرے اور جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان
کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق
کب تک ہے۔ فرمایا ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس
کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے۔
اس حدیث میں مہمان کے میزبان پر تین مراتب کا ذکر ہے۔ پہلا مرتبہ یہ ہے کہ
ایک دن اور ایک رات مہمان کی ضیافت کرنا واجب ہے ،دوسرا مرتبہ یہ ہے کہ
دوسرے اور تیسرے دن کی ضیافت مستحب ہے ، اس بات کو دوسرے لفظوں میں یوں بھی
کہہ سکتے ہیں کامل ضیافت تین دن ہے اور تیسرا مرتبہ تین دن کے بعد کی
میزبانی صدقہ ہے۔
یہاں پر ایک اہم بات یہ بھی جان لی جائے کہ حدیث میں موجود ضیف(مہمان) سے
مراد سفر سے آنے والا کوئی مسافر ہے خواہ رشتہ دارہو یاغیررشتہ دار اجنبی
ہی کیوں نہ ہو۔ جو قریب سے زیارت کرنے آئے یا یونہی ملنے جلنےوالے لوگوں کے
لئے میزبان پر ضیافت کرنا واجب نہیں ہے ۔ رشتہ داروں کی ضیافت صلہ رحمی اور
دیگر لوگوں کی دعوت احسان وسلوک کے درجے میں ہے ۔
میزبان ضیافت کے چند آداب :
(1)گھر آنے والامہمان پہلے اجازت طلب کرے اور میزبان خندہ پیشانی سے ان کا
استقبال کرے، علیک سلیک کے بعد حالات دریافت کرے ۔
(2) مہمان کے رہنے کے لئے مناسب انتظام کرے جہاں آرام حاصل کرنے میں نہ
مہمان کو دقت ہو اور نہ ہی گھر والوں کو۔
(3) ضیافت میں عجلت سے کام لے کیونکہ سفر کا تھکا مارا کھاپی کر آرام کی
خواہش کرے گا،انتظام میں تاخیر ہونے پر عذر پیش کردے ۔
(4)پہلے دن کی ضیافت حیثیت کے مطابق پرتکلف یعنی دستور کے مطابق ہوپھر
دوسرے اور تیسرے دن کی ضیافت روز مرہ کی طرح ہونا کافی ہے۔
(5) مہمان کو میزبان خود سے کھانا کھلائے یعنی ساتھ کھانا کھائے ،اس میں نہ
صرف برکت ہےبلکہ یہ سراپا خلوص وپیار ہے جسے مہمان کبھی بھول نہ پائے گا۔
کھانے میں آخر تک ساتھ دینا چاہئے۔
(6)ہرممکن کوشش ہوکہ مہمان کو زبان یا ہاتھ وپیر سے کسی قسم کی کوئی
ایذارسانی نہ ہو۔
(7) جب مہمان رخصت ہونے لگے تو گھر سے باہر نکل کر کچھ دور رخصت کرنے جایا
جائے ۔
مہمان کے لئے چند آداب:
(1)کسی کے گھر مناسب وقت میں جانے کی کوشش کرے تاکہ میزان پر گراں نہ گزرے
۔
(2) رہائش یا کھانے میں فرمائش نہ کرے جونصیب سے مل جائے اس پہ خوش ہوجائے
۔
(3) کھانا کھاتے وقت یابعد میں عیب نہ نکالے اور پوچھا جائے تو ماشاء اللہ
کہہ دے ۔
(4)کھانے کے بعد اللہ کا شکر بجالائے جس نے اسے ضیافت کی توفیق دی اور پھر
گھروالوں کا شکریہ ادا کرے جنہوں نے خاطر ومدارات کیں ۔
(5)تین دن سے زیادہ کسی کے یہاں نہ رکے ،نبی ﷺ نے فرمایاہے کہ :
الضيافة ثلاثة ايام وجائزته يوم وليلة، ولا يحل لرجل مسلم ان يقيم
عند اخيه حتى يؤثمه، قالوا: يا رسول الله وكيف يؤثمه؟،
قال: يقيم عنده ولا شيء له يقريه به(صحيح مسلم:4514)
ترجمہ:ضیافت تین دن تک ہے اور اس کا تکلف ایک دن رات تک چاہیے اور کسی
مسلمان کو درست نہیں کہ اپنے بھائی کے پاس ٹھہرا رہے یہاں تک کہ اس کو گناہ
میں ڈالے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کس طرح اس کو گناہ
میں ڈالے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس کے پاس ٹھہرا رہے اور اس
کے پاس کچھ نہ ہو کھلانے کے لیے۔
تین دن سے زیادہ ٹھہرنے میں گھروالوں کے لئے دقت ہے اور اس سے خودکی شخصیت
بھی مجروح ہوتی ہے اس لئے کسی کو مشقت میں ڈال کر گنہگار نہیں بننا چاہئے ۔
(6) مہمان کو چاہئے کہ میزبان اور پورے اہل خانہ کی زندگی اور مال میں برکت
کے لئےکثرت سے دعائیں کرے ،یہ دعائیں بھی دے سکتے ہیں ۔
اللهمَّ ! بارِكْ لهم في ما رزقتَهم . واغفرْ لهم وارحمْهم(صحيح مسلم:2042)
ترجمہ:اللہ برکت دے ان کی روزی میں اور بخش دے ان کو اور رحم کر ان پر۔
اللهمَّ ! أطعِمْ مَن أطعَمني . وأسْقِ من أسقاني(صحيح مسلم:2055)
ترجمہ: اسے اللہ ! جس نے مجھے کھلایا تو اس کوبھی پلا اور جس نے مجھے پلایا
اس کو بھی پلا۔
(7) جانے لگیں تو گھر والوں سے اجازت طلب کریں پھر جائیں ، بغیر گھر والوں
کی اطلاع کے نہ جائیں ۔
آخری بات یہ ہے کہ صرف مسافر کو کھلانا ہی اجر کا باعث نہیں ہے بلکہ ایک
دوسرے کو دعوت دینا اور کھانا مسنون عمل ہے ، اس سے محبت میں زیادتی پیدا
ہوتی ہے ۔ جو کوئی ہمارے گھرزیارت کو آئے بغیر تکلف کے جو بن سکے پیش کرنا
چاہئے خواہ ایک گلاس پانی ہی سہی ۔ غریب ومسکین ، نادار ویتیم ،قلاش ومفلس
اور فقیر وحاجتمند کو کھلانا اجر وثواب کا کام ہے ۔ اللہ ہم سب کو دین کی
سمجھ دےاور اس کے مطابق عمل کرنے کی توفیق دے ۔
|