(ممتاز بزنس مین‘ عظیم سماجی رہنما اور ایک فرشتہ صفت
انسان)
حاجی انعام الٰہی اثر کا شمار ایسے سرکردہ کاروباری افراد میں ہوتا ہے
جنہوں نے انتہائی تنگدستی اور نامساعد حالات میں16سال کی عمر میں گھر سے
ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے پر بغیر کسی سہارے کاروبار شروع کیا۔ اﷲ تعالیٰ کے
فضل و کرم‘ ماں کی بے پناہ دعاؤں اور کاروباری دیانت کی وجہ سے آج ان کا
شمار ملک کے مخیر اور کامیاب کاروباری افراد میں ہوتا ہے جو اپنی دولت کو
تجوریوں میں بند کرنے کی بجائے دُکھی انسانوں کی بہبود، غریب بچے بچیوں کی
تعلیم پر خرچ کرنا زیادہ بہتر خیال کرتے ہیں۔ بچپن میں ہی شفقت پدری سے
محروم ہو جانے کے باوجود انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا آپ 1927ء میں چنیوٹ شہر
میں پیدا ہوئے۔ اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے میٹرک کرنے کے بعد آپ نے
کاروبار کیلئے کلکتہ کا رُخ کیا تمام تر کوشش کے باوجود جب وہاں خاطر خواہ
نتائج حاصل نہ ہوئے تو آگرہ کا قصد کیا۔ پھر 1947ء میں جب پاکستان ایک آزاد
اور خودمختار ملک کی حیثیت سے معرض وجود میں آیا تو آپ براستہ بمبئی کراچی
آ گئے جہاں بے سرو سامانی کے عالم میں ہارڈوئیر کا کاروبار شروع کیا امانت
دیانت اور محنت کے بدلے اﷲ تعالیٰ نے اس کاروبار میں بے حد برکت ڈالی۔ پھر
آپ1953ء لاہور منتقل ہو گئے اور آج تک اسی شہر میں آپ کی صبح و شامیں بسر
ہوتی ہیں اَب آپ کا شمار نہ صرف ملک کے قابل ذکر بزنس مینوں میں ہوتا ہے ۔
آپ کے دل میں خدمت انسانی کا جذبہ کُوٹ کُوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ آپ کے بقول
میں ان دنوں بہت تنگ دست تھا جب زکوٰۃ نہیں دیتا تھا۔ بینکوں سے سود پر قرض
لے کر کاروبار کو وسعت دینے کی جستجو کرتا تھا۔ لیکن جب سے سچے دل سے توبہ
کی ہے کاروبار دن دوگنی رات چوگنی ترقی کرنے لگا۔ جب روپے پیسے کی ریل پیل
ہوئی تو آپ نے قرآن پاک کی ان آیات پر عمل شروع کر دیا جس کا ترجمہ ہے:
’’جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دو۔ ضرورت
مندوں کو لوٹا دو۔
دنیا کی دولت نا پائیدار کھیل تماشہ، فریب، متاع قلیل ہے دنیا کے طلبگار کا
آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔
مال میں بُخل کرنے والا دوزخی ہے۔ مال اور اولاد تم کو اﷲ کی یاد سے غافل
نہ کر دے‘‘۔
آپ کے بقول زندگی میں یہ انقلاب ماں کی بے حد حساب دعاؤں اور محبت بھری
نصیحتوں کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی کتاب تفہیم القرآن پڑھ کے آیاآج
جبکہ آپ78سال کے ہو چکے ہیں اپنے اسی نظریے پر سختی سے قائم اور دائم ہیں
آپ نہ صرف حجاز ہسپتال کے بانی صدر ہیں۔ بلکہ فونٹین ہاؤس، انجمن حمایت
اسلام ‘پاکستان سوسائٹی برائے بحالی معذوراں ، اسحاق ہارون ہسپتال، انجمن
بہبود مریضاں، پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی، شالا مار ہسپتال، لاہور بزنس
مین ایسوسی ایشن برائے بحالی معذوراں، چودھری رحمت علی میموریل ٹرسٹ ہسپتال،
پاکستان ایجوکیشنل سوسائٹی برائے نادار طلبا، گورنمنٹ ڈاکٹر مقبول احمد
میموریل ہسپتال، گلاب دیوی چیسٹ ہسپتال، ٹرسٹ سکول ٹھوکر نیاز بیگ اور
انجمن چنیوٹ بیت المال کے حوالے سے آپ کی خدمات قابلِ قدر ہیں۔ سخاوت کا یہ
عالم ہے کہ اپنی تمام منقولہ جائیداد حجاز ہسپتال کیلئے وقف کر رکھی ہے
بلکہ ڈیفنس لاہور کے جس گھر میں آپ اپنی اہلیہ کے ہمراہ ان دِنوں رہائش
پذیر ہیں وہ بھی حجاز ہسپتال کیلئے وقف ہے۔ آپ کے بقول وہ مخیر اور دولت
مند حضرات جو ہر سال حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل کرنے کی غرض سے ارض مقدس جانے
کا قصد کرتے ہیں۔ انہیں چاہیے کہ وہ اپنی دولت کو بنیادی ضرورتوں سے محروم
انسانی کفالت، غربت کی چکی میں پسنے والوں کی مالی سرپرستی پر خرچ کریں اﷲ
کے ہاں ان کا یہ عمل حج سے زیادہ افضل ہو گا۔ دولت و ثروت میں کھیلنے والے
بزنس مین لاکھوں مل جائیں گے لیکن دُکھی انسانیت کیلئے حاجی انعام الٰہی
اثر کے دل میں جتنا درد ہے وہ شاید کسی اور کے حصے میں نہیں آیا۔ انہیں
خوبیوں کی بدولت شہید پاکستان اور مجدد طب حکیم محمد سعید نے آپ کو دورِ
حاضر کے ابو ذر غفاری کا خطاب عطا فرمایا۔ آئیے جدوجہد سے لبریز‘ کامیاب
زندگی کی کہانی ان کی اپنی زبانی پڑھتے ہیں۔
میں1927ء کو چنیوٹ شہر میں پیدا ہوا۔حالانکہ کے میرے آباؤ اجداد چنیوٹ شہر
کے رہنے والے تھے جہاں ان کی زرعی اراضی تھی لیکن کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ
میرے دادا اور پڑدادا لاہور میں کچے چمڑے کا کاروبار بھی کرتے تھے۔یہ
اٹھارہویں صدی عیسوی کی بات تھی۔ کچے چمڑے کے کاروبار میں ہمارے آباؤ اجداد
کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ عام مسلمان بدبو کی وجہ سے اس کاروبار کی طرف
راغب نہیں تھے جبکہ ہندو گاؤ ماتا کی و جہ سے اس کاروبار کے قریب نہ پھٹکتے
۔ چنیوٹ برادری کے زیادہ تر لوگ چونکہ کاروبار سے ہی وابستہ تھے۔ اس لیے
میرے دادا اور پڑدادا ابتدا میں پرانے شہر کی فصیل کے اندر بعد ازاں فصیل
کے باہر محلہ شاہ محمد غوث میں کاروبار کرنے لگے۔ دیہاتوں سے جانوروں کی جو
کھالیں خرید کر لائی جاتیں انہیں نمک لگا کر دوسرے ممالک کو ایکسپورٹ کر
دیا جاتا۔ دراصل انگریز حکمرانوں کا مطمع نظر تھا کہ خام چمڑا حاصل کر کے
اسے مہنگے داموں ہمیں ہی فروخت کر دیں۔ انگریز نہیں چاہتے تھے کہ یہاں لیدر
کی صنعتیں قائم ہوں۔ حسن اتفاق سے میرے نانا حاجی کرم الٰہی اور پڑدادا
حاجی عبد الرحیم سگے بھائی تھے اور کاروبار میں شراکت دار بھی۔ بے شک ان کا
کاروبار لاہور میں تھالیکن فیملی چنیوٹ میں ہی تھی۔
میرے پڑدادا انگریز دور میں آنریری مجسٹریٹ کے عہدے پر فائز تھے ۔ جبکہ
شاہی مسجد جو( شہنشاہ ہند کے وزیر اسد اﷲ نے چنیوٹ میں بنوائی تھی) کے
متولی بھی تھے۔ عمر کے آخری حصے میں اُنہوں نے حج بیت اﷲ کی سعادت حاصل
کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس زمانے میں ذرائع آمد و رفت انتہائی سست اور راستے نہ
ہونے کے برابر تھے۔ وہ اپنے منجلے بیٹے حافظ اﷲ بخش کو اپنی دیکھ بھال
کیلئے ساتھ لے گئے۔ کراچی سے جدہ تک کا طویل ترین سفر کئی ہفتوں میں طے ہوا۔
لیکن یہ سفر پڑ دادا کی طبیعت پر بہت گراں گزرا۔ پھر جب آپ جدہ پہنچے تو
ناسازی طبع کی وجہ سے قافلے کے ساتھ سفر کرنا آپ کیلئے محال ہو گیا اس نازک
وقت میں ان کے بیٹے حافظ اﷲ بخش نے اولاد ہونے کا حق ادا کر دیا۔ حج بیت اﷲ
کی سعادت حاصل کرنے کے بعد جب پڑدادا واپس پاکستان آ رہے تھے تو بحری جہاز
میں ہی علالت کے باعث ان کا انتقال ہو گیا۔ سفر چونکہ طویل تھا اس لیے ان
کی میت کو کراچی تک لانا ممکن نہ تھا اس لیے حسب دستور انہیں لکڑی کے تختے
پر لیٹا کر سمندر کی تہہ میں پہنچا دیا گیا جبکہ میرے دادا بھی1908ء کو فوت
ہو گئے۔ والد میاں محبوب الٰہی جو زیادہ تعلیم یافتہ نہ تھے اُنہوں نے
عزیزوں کی ترغیب پر انارکلی لاہور میں جوتوں کی دوکان ’’کلکتہ بوٹ ہاؤس
‘‘کے نام سے کھو ل لی۔ دادا کا میرے والد کی پیدائش سے چھ ماہ قبل ہی
انتقال ہو گیا۔
میں نے ابتدائی تعلیم کا آغاز اسلامیہ ہائی سکول چنیوٹ سے کیا اور میٹرک کے
بعد تعلیم اس لیے حاصل نہ کر سکا کہ اِن دِنوں چنیوٹ میں کالج موجود نہیں
تھا۔ چونکہ برادری کے بیشتر لوگ چنیوٹ سے باہر دور دراز علاقوں میں کاروبار
کرنے میں اپنی الگ شناخت رکھتے تھے۔ اس لیے جب میری عمر 16سال ہوئی تو دور
کے ایک رشتے دار کی ترغیب پر مجھے چنیوٹ چھوڑ کر کلکتہ جانا پڑا۔ وہاں
چونکہ میرا کوئی بھی جان پہچان والا نہ تھا اس لیے کسی سہارے کے بغیر ہی
عملی زندگی کا آغاز کیا ابتداء میں فٹ پاتھ پر رکھ کرلیدر فروخت کیا کرتا
تھا۔ جس سے بمشکل سو روپے ماہانہ کی آمدن ہو جاتی چونکہ لیدر منڈی‘ نماز
عصر کے بعد بند ہوجاتی تھی۔ اس لیے باقی وقت کو کاروبار میں صرف کرنے کیلئے
میں نے دِہلی سے ’’گولڈن چمڑا ‘‘منگوانا شروع کر دیا ’’گولڈن چمڑا‘‘ عورتوں
کے سینڈل بنانے کے کام آتا تھا۔ پہلے فیکٹریوں اور کارخانوں سے آرڈر وصول
کرتا پھر انہیں فراہم کرتا ۔ایک کمرے میں تین چار افراد اکٹھے رہائش پذیر
تھے، جن میں سے ایک میں بھی تھا۔ چونکہ قیام گاہ سے دکان چار میل کے فاصلے
پر تھی اس لیے صبح سویرے ٹرام پر وہاں جانا پڑتا۔ پیسے بچانے کیلئے کبھی
کبھار یہ سفر پیدل بھی طے کر لیتا۔ ان دِنوں وہاں ناریل کی شراب اور پان
بیڑی کے استعمال کا رواج عام تھا۔ لیکن ماں کی اس نصیحت اور تربیت نے پردیس
میں بھی برائی سے بچائے رکھا ـ’’بے شک برائی سے بچنا ہی انسانی عظمت کی
دلیل ہے۔ برائی سے بچنے والوں کو اﷲ بھی پسند فرماتا ہے‘‘۔ ماں کی نصیحتوں
کو پلّے باندھ کر میں زندگی کے سفر میں مشکلات سے لڑتا جھگڑتا آگے بڑھتا
چلا گیا۔ جب کاروباری فضا کلکتہ میں زیادہ فائدہ مند محسوس نہ ہوئی تو آگرہ
جانے کا فیصلہ کر لیا اس لمحے اُدھار میں پھنسی ہوئی بیشتر رقم واپس نہ مل
سکی آگرہ میں بھی لیدر کا کاروبار شروع کیا۔ ابھی یہاں قیام کو صرف ڈیڑھ
سال کا عرصہ گزرا تھا کہ حصول پاکستان کی تحریک عروج پر پہنچ گئی۔ پھر جب
قائد اعظمؒ کی قیادت میں پاکستان ایک آزاد اور خودمختار ملک کی حیثیت سے
دنیا کے نقشے پر اُبھرآیا تو حالات کی نزاکت کو بھاپنتے ہوئے آگرہ میں
موجود چنیوٹ برادری کے سرکردہ افراد نے ہندوستان کو خیر باد کہہ کر بمبئی
کے راستے کراچی جانے کا فیصلہ کر لیا۔ اور اس مقصد کیلئے بمبئی میں ہی
مہاجرین کا ایک کیمپ قائم کیا گیا۔ جہاں میں والدہ اور بہنوں سمیت دو دن
قیام پذیر رہا۔ چونکہ سارے پیسے کاروبار میں پھنسے ہوئے تھے اور کہیں سے
پیسوں کی واپسی کی فوری اُمید نہ تھی۔ اس لیے بمبئی سے کراچی بذریعہ بحری
جہاز رخصت ہوتے ہوئے میری جیب خالی تھی۔ دانش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے میں
نے بمبئی سے چلتے وقت لائف بوائے صابن کی ایک پیٹی150روپے میں خرید کر ساتھ
رکھ لی جو کراچی پہنچ کر500روپے میں فروخت ہو گئی یہی پانچ سو روپے اس وقت
میرا قیمتی اثاثہ تھے۔ چند دن کراچی میں ایک عزیز کے ہاں گزارے پھر ہوٹل کا
ایک کمرہ جس کا روزانہ کرایہ پانچ روپے تھا میں رہائش اختیار کر لی۔ والدہ
اور بہنوں کو چنیوٹ واپس بھیج دیا۔ کراچی میں ہی دوسرے ملکوں سے کپڑا
منگوانے والے کئی افراد سے ملاقات ہوئی۔ ان سے کپڑااُدھار لے کر دوکانوں پر
سپلائی کر دیتا۔ اس سے جو منافع ملتا اس کو جمع کرتا رہا پھر وہ وقت بھی آ
پہنچا جب میں نے ایوان صنعت و تجارت کے دفتر میں ایک کمرہ الاٹ کروا کے
وہاں ہارڈوئیر کے کاروبار کا باقاعدہ آغاز کر دیا۔
انہی دِنوں ایک عجیب واقعہ پیش آیا جس نے میری زندگی میں بہت دور رس اثرات
مرتب کیے۔ ایک ہندو تیرتھ رام سخت مشکلات کا شکار تھا۔ ایک عظیم الشان
عمارت کی بالائی منزل پر اس کی فیملی رہائش پذیر تھی جبکہ سامان سے بھری
بہت بڑی دوکان بھی اس کی ملکیت تھی۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے وہ
ہندو بالائی منزل سے نیچے نہیں اُترتا تھا۔ اس نے اشارے سے مجھے کہا کہ اسے
کھانا پکانے کیلئے کوئلہ چاہیے۔ مجھے اس پر ترس آ گیا میں نے کوئلے کا
اہتمام کر کے اسے پہنچا دیا۔ میری اس خدمت پر وہ بہت خوش ہوا ۔ اس نے معقول
کمیشن پر دوکان کا سارا سامان بھارت کے شہر امرتسر پہنچانے کی ذمہ داری بھی
مجھے سونپ دی اور خود فیملی کو بحفاظت لے کر بھارت چلا گیا۔ اس لمحے جبکہ
تیرتھ رام وہاں موجود نہیں تھا۔ کئی جاننے والوں نے مجھے یہ سامان ہڑپ کرنے
کی ترغیب دلائی۔ کیونکہ یہ وہ دن تھے جب بھارت سے ہجرت کرنے والے مسلمان
اور پاکستان سے نقل مکانی کرنے والے ہندو سکھ اپنی جانیں بچا کر لے جانا ہی
غنیمت خیال کرتے تھے۔ خالی ہونے والے مکانات اور سامان پر یا تو مقامی لوگ
قبضہ کر لیتے یا وہ ہجرت کر کے آنے والوں کے سپرد کر دیا جاتا۔ اس سامان پر
قبضہ کرنا میرے لیے نہایت آسان تھا اور میں ان دِنوں تنگ دست بھی تھا۔ لیکن
ضمیر نے اس لیے ایسا نہ کرنے دیا کہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے بھی ہجرت کے وقت
کافروں کی امانتیں واپس کرنے کی ذمہ داری اِنتہائی خطرناک حالات میں بھی
نبھائی تھی۔ میں نے چند دنوں بعدد وکان میں رکھا ہوا سارا مال پیک کروا کے
امرتسر کیلئے بُک کروا دیا۔ ابھی وہ مال واہگہ سرحد کراس نہ کر پایا تھا کہ
سرحد بند ہو گئی۔ میں نے پھر وہ مال واپس منگوا کر بمبئی کے راستے امرتسر
بذریعہ بحری جہاز پہنچا دیا۔ جس پر تیرتھ رام نے حسب وعدہ مجھے معقول رقم
بطور کمیشن ادا کر دی۔ اﷲ تعالیٰ نے اس ایمان داری کا صلہ مجھے اس طرح دیا
کہ آگرہ کی نیوی شو کمپنی کا مینجر مجھے اچانک ملا جو اپنا مال فروخت کرنے
کیلئے کراچی آیا تھا۔ جن دنوں میں آگرہ میں لیدر کا کاروبار کرتا تھا اس
فرم کے ذمے میری بہت بڑی رقم واجب الادا تھی جو ہجرت کے وقت نہ مل سکی
چنانچہ جب یہ رقم مجھے واپس مل گئی تو میں ہزار پتی ہو گیا۔ اس وقت میرا
ایمان مزید پختہ ہو گیا کہ خیانت کرنے والا بدحال اور مضطرب ہی رہتا ہے۔
جبکہ ہلال روزی کمانے والا کامیاب و کامران ہوتا ہے۔
میں ایوان صنعت وتجارت کے دفتر میں میرا کاروبار خوب چمکنے لگا ۔ اس کے
ساتھ ہم نے ایک اقتصادی جریدہ ’’پاکستان مارکیٹ‘‘ نکالنا شروع کر دیا۔ مجھے
اس رسالے کا سب ایڈیٹر بنادیا گیا۔ ہارڈوئیر ایسوسی ایشن کا بانی ‘ جبکہ
پانچ مرتبہ جنرل سیکرٹری کے عہدے پر فائز رہا۔ مطالعے کا چونکہ مجھے بچپن
سے ہی شوق تھا بلکہ سکول سے ہی جاری ہونے والے رسالے کا میں نہ صرف ایڈیٹر
رہا بلکہ مضامین لکھنے کے ساتھ ساتھ کتابت کا فریضہ بھی میرے ہی سپرد تھا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ میں دوسروں کی نسبت بہت خوشخط لکھتا تھا۔ ذوق مطالعہ
کی تسکین کیلئے دیگر اسلامی کتب و رسائل کے ساتھ ساتھ مولانا مودودی کی
کتاب تفہیم القرآن بہت اہتمام سے پڑھتا۔ اس کتاب نے میرے ذہن و دل میں
اِنقلاب برپا کر دیا۔ میں نے ناپ تول میں کمی جعلی مارکوں اور غلط بیانی سے
ہمیشہ کیلئے توبہ کر لی۔ پہلے زکوٰۃ نہیں دیتا تھا‘ وہ دینا شروع کر دی۔
بینکوں سے سود پر قرض لینا بند کر دیا اﷲ نے اس وجہ سے بے پناہ برکت سے
نوازا۔ لاہور سے شائع ہونے والا میگزین’’ نقوش‘ ‘ ادب لطیف‘ مولوی عبد الحق
کا رسالہ’’ قومی زبان‘‘ اکثر میرے زیر مطالعہ رہتا۔ راجندر سنگھ بیدی، کرشن
چندر اور احمد ندیم قاسمی کے مضامین مجھے بے حد پسند تھے۔ جبکہ سعادت حسن
منٹو اور عصمت چغتائی کی تحریروں کو میں اس لیے ناپسند کرتا تھا کہ ان میں
بے حیائی اور لچر پن کا عنصر غالب تھا۔ سکول کے زمانے میں عطا ء اﷲ شاہ
بخاری کی تقریر سننے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ تقریر نماز عشاء کے بعد
شروع ہوتی اور نماز فجر تک تمام رات جاری رہتی ان کی تقریر اتنی دلنشین اور
پر تاثیر ہوتی کہ رات کے کسی پہر شاید ہی کوئی اُٹھ کر محفل سے گیا ہو۔
دنیا میں کوئی انسان ایسا نہیں جو مصیبت و آلام اور تفکرات سے مبرا ہواور
نہ ہی احساس غم سے کوئی ذی روح پاک ہے البتہ شاذ و نادر ہی کوئی خوش بخت
ایسا نظر آئے گا۔ جو شکرانے کی نعمتوں سے مالا مال ہو اور جسے احساس غم نہ
ہو میں سمجھتاہوں یہ ماں کی دعاؤں کا اثر ہے کہ اس بندہ ناچیز کو قدرت نے
غیر مترقبہ نعمتوں سے مالا مال کیا۔
انسانی زندگی چونکہ ماں جیسے عظیم رشتے کے ارد گرد ہی گھومتی ہے اور جتنی
قربت بچے کو ماں سے حاصل ہوتی ہے اتنی کسی اور رشتے سے نہیں ہوتی۔ یہی وجہ
ہے کہ ماں کی باتیں اور تربیت ساری زندگی انسان کا احاطہ کیے رکھتی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ لڑکپن کے زمانے میں صبح نیند بہت مزے کی آتی دوپہر کو جب
سکول سے گھر واپس آتا تو چارپائی پر لیٹتے ہی سو جاتا۔ اس سستی کی وجہ سے
بچپن میں کئی بار نماز ظہر اور فجر ادا ہونے سے رہ جاتیں۔ بے شک ماں مجھے
بہت پیار کرتی تھی لیکن وہ یہ گوارہ نہ کرتی کہ میں چارپائی پر سکون سے
لیٹا رہوں اور نماز کا وقت نکل جائے۔ چنانچہ غنودگی کو دور کرنے کیلئے ماں
اکثر پانی کے چھینٹے اِس وقت میرے چہرے پر مارتیں جب میں گہری نیند سو رہا
ہوتا وقتی طور پر تو ماں کا یہ عمل مجھے ناگوار گزرتا لیکن پابندی نماز کی
عادت اب اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ گزشتہ 60سال سے شاید ہی کوئی نماز قضا ہوئی
ہو یا آداب سحر گاہی سے محروم رہا ہوں۔ قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ تہجد
گزاری کی عادت اب اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ کبھی رات دیر سے سونے کی وجہ سے
غفلت ہو بھی جائے تو نہایت محبت سے مجھے کوئی بیدار کر دیتا ہے۔ اس لمحے
مجھے ایسے محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کوئی لوری سنا رہا ہو یا کوئی محبت بھرا
نغمہ الاپ رہا ہو یہی وجہ ہے کہ اس لمحے بستر چھوڑنے میں مجھے کوئی دقت
محسوس نہیں ہوتی۔ کردار سازی کے حوالے سے میری زندگی میں کچھ ایسے پر کشش
لمحات بھی آئے جب بحیثیت انسان میں شرافت، پاکیزگی اور طہارت کی حدیں عبور
کر سکتا تھا ۔ لیکن ماں کی دعاؤں اور اس کی بہترین تربیت کی بدولت زندگی
بھر ایسی خرافات سے محفوظ رہا۔ یہاں دو واقعات کا ذکر ضروری سمجھتا ہوں جو
نوجوان نسل کیلئے بھی قابل تقلید ہیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب عنفوان شباب کے دوران 1965ء میں کاروباری سلسلہ
میں مجھے دو ماہ انگلینڈ میں گزارنے پڑے وہاں میں جس کرائے کے مکان میں
قیام پذیر تھا وہاں ایک نوجوان، حسین اور دلکشی کا جادو اپنے دامن میں لیے
ایک نرس بھی رہائش پذیر تھی۔ اس نے میری ذات میں دلچسپی لینی شروع کر دی۔
اس کی خواہش تھی کہ وہ میری قربت حاصل کرے لیکن آزمائش کے ان لمحات میں
والدہ کی تربیت آڑے آئی بقول علامہ اِقبال:
نہ چُھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر گاہی
پھر1969ء اور1970ء میں مجھے جاپان میں بھی طویل قیام کرنا پڑا چونکہ جاپان
میں‘ میں بالکل اجنبی تھا اور مقامی زبان سے بھی آشنائی حاصل نہ تھی۔ اس
لیے ترجمانی کیلئے میں نے یونیورسٹی کی ایک جاپانی طالبہ کو بطور سیکرٹری
رکھ لیا۔ وہ صبح سے شام تک میرے ہمراہ رہتی۔ قدرت نے اسے دلکشی اور
خوبصورتی خوب عطا کر رکھی تھی بارہا مرتبہ اس نے مجھے اپنی طرف راغب کرنے
کی جستجو کی۔ بسیار کوششوں کے باوجود جب وہ اپنی جنسی خواہشات میں ناکام
رہی تو اس نے مجھے بے ذوق کے لقب سے پکارا۔ حالانکہ میں اس کی طرف سے ہمیشہ
بے اعتنائی برتتا لیکن ایک جمعہ کے دن یوں محسوس ہوا کہ وہ مجھے اپنی طرف
مائل کرنے میں کامیاب ہو ہی جائے گی۔ عین اُسی وقت مولانا مقیت احمد (جو
مشرقی پاکستان میں تبلیغی جماعت کے امیر تھے) کا فون آ گیا اُنہوں نے مجھے
کہاکہ نماز جمعہ میں ان کے ساتھ ادا کروں سو اس طرح اس خوبصورت اور پرکشش
جاپانی سیکرٹری کے جنسی چنگل سے رہائی پا کر میں نے خدا کا لاکھ لاکھ شکر
ادا کیا۔ زندگی بھر شراب اور جوئے سمیت گناہ کبیرہ سے رب العالمین نے ماں
کی دعاؤں سے ہمیشہ محفوظ رکھا۔
بہر کیف جوں جوں ہارڈوئیر کے کاروبار میں میرے قدم پختہ ہوتے گئے میں نے
کراچی سے نکل کر دوسرے شہروں میں بھی کاروبار پھیلانے کا اِرادہ کر لیا۔ اس
مقصد کیلئے میں نے پاکستان کے تقریباً تمام بڑے شہروں کا تفصیلی دورہ کیا
اور وہاں باقاعدہ اپنی دوکانیں قائم کر کے ملازمین بٹھادئیے۔ حالانکہ کراچی
میں کاروبار کامیابی سے چل رہا تھا لیکن طبیعت کے میلان نے لاہور کا رُخ
کیا یہاں آنے کی ایک وجہ اچھا موسم اور خوشگوار ماحول تھا جبکہ دوسری وجہ
لاہور کا چنیوٹ سے نزدیک ہونا بھی تھا چنانچہ1953ء میں سرکلر روڈ اڈہ کراؤن
بس کے نزدیک دوکان پر ہارڈوئیر کا کاروبار شروع کر دیا۔ دوسری جانب بہنوں
کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی شادیوں کے فریضے بھی احسن خوبی انجام دئیے۔
ماں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ کاروبار کو میری ذاتی توجہ کی زیادہ
ضرورت ہے اس لیے ماں نے مجھے گھریلو ذمہ داریوں سے ہمیشہ دور ہی رکھا۔
1959ء کو جب میرے کاروبار کے حالات اچھے نہ تھے۔ ماں نے حج کی خواہش کا
اظہار کیا۔ حالانکہ مالی طور پر میں اس قابل نہیں تھا لیکن ماں کی آرزو کو
ٹھکرا نہ سکا اور کاروبار بند کر کے خود بھی ماں کے ساتھ حج پر روانہ
ہوگیا۔ حج سے واپسی پر ماں نے نصیحت فرمائی کہ’’ کاروبار میں کامیابی کے
لیے دین کا شیدائی بن جا اﷲ تعالیٰ بہت برکت دے گا‘‘۔
یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ چنیوٹ میں پیدا ہونے والا ہر بچہ پیدائشی تاجر
ہوتا ہے یہ خوبی اس کے خو ن میں رچی بسی ہوتی ہے۔ چنیوٹ سے ہی تعلق رکھنے
والے کئی نوجوان انجینئر، ڈاکٹر، چارٹر اکاؤنٹنٹ بنے لیکن چند سال ملازمت
کے بعد ہی انہیں ایک بار پھر کاروبار کی طرف لوٹنا پڑا۔ شاید قدرت نے چنیوٹ
کے ہر بچے کے خون میں کاروباری سمجھ بوجھ پیدا کر رکھی ہے۔ میں یہ بات دعوی
سے کہتا ہوں کہ اس وقت بھی پورے ملک کو برآمدات سے جتنا زر مبادلہ حاصل
ہوتا ہے اس کا 15فیصد صرف چنیوٹ کے لوگ اپنی کاوشوں سے فراہم کرتے ہیں جو
ایک اعزا ز سے کم نہیں ہے۔
1949ء میں ہی میری شادی ہو گئی۔ اﷲ تعالیٰ نے مجھے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں
سے نوازا۔ بیٹوں میں اکرام الٰہی، انجم نعیم، فرخ ندیم شامل ہیں۔ اکرام
الٰہی نے تعلیم مکمل کرنے کے بعد لاہور ، انجم نعیم کراچی اور فرخ ندیم نے
راولپنڈی میں کاروبار سنبھال رکھا ہے۔ اپنی محنت اور جانفشانی سے لاکھوں
روپے ماہانہ کما رہے ہیں اب تو خدا کے فضل سے میرے بیٹوں کے گھر میں بھی
اولاد کھیل رہی ہے۔ اور میں پوتے پوتیوں اور نواسے‘ نواسیوں والا ہوں۔ پھر
بھی ماں بہت یاد آتی ہے۔اس کی نصیحتیں اور محبت بھری باتیں ہر وقت دامن گیر
رہتی ہیں۔
بچپن کا ایک واقعہ مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب میرے نانا سخت بیمار تھے بلکہ
نیم بے ہوش تھے اس حالت میں گفتگو کرتے ہوئے اُنہوں نے فرمایا کہ میں نے
انعام الٰہی کو ایک بہت بڑے باغ میں دیکھا ہے اﷲ تعالیٰ نے اسے بہت عزت اور
دولت دی ہے۔ حقیقی زندگی میں نانا کی وہ دعا حرف بہ حرف سچ ثابت ہوئی۔
1968ء میں میری زندگی نے ایک اور کروٹ لی۔ ذہنی میلان خدمت انسانی کی طرف
راغب ہوا میں نے ہمت کر کے3600گز زمین گلبرگ میں خریدی‘ گھر اور مسجد کی
تعمیر شروع کر دی۔ پھر یہیں پر ڈسپنسری کا آغاز کیا۔ اﷲ تعالیٰ وسیلہ پیدا
کرتا رہااور مخیر دوستوں کے ہاتھ بٹانے سے یہ ڈسپنسری حجاز ہسپتال کا روپ
دھار تی چلی گئی۔ آج جہاں ہر ماہ ہزاروں مریض شفاء یاب ہوتے ہیں۔
یہ واحد ہسپتال ہے جہاں کثیر تعداد میں بوجہ اعتماد ہر شعبے کے نامور
معالجین بلا معاوضہ مریضوں کا علاج کرتے ہیں: اِن میں پروفیسر ڈاکٹر خواجہ
صادق حسین (فزیشن سابق پرنسپل کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج) ڈاکٹر محمد احسان
(ماہر امراض سینہ ۔ گلاب دیوی ہسپتال والے)، پروفیسر ڈاکٹر محمود علی ملک
(ذیابیطس)۔پروفیسر ڈاکٹر عاطف حسنین کاظمی (ایم۔ ڈی امریکہ)، ماہر امراض
جِلد شامل ہیں۔
جب خدمت انسانی کا میرا پیغام عام ہوا تو اس شعبے میں میری خدمات کو دیکھتے
ہوئے بہت سی انجمنوں، این جی اوز اور امدادی اِداروں نے حتی المقدور کوشش
کر کے مجھے اپنا اعزازی رکن یا عہدیدار منتخب کر لیا ۔ جن میں فونٹین ہاؤس
انجمن حمایت اسلام، پاکستان سوسائٹی برائے بحالی معذوراں ‘ اسحاق ہارون
ہسپتال‘ انجمن بہبود مریضاں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی شالا مار ہسپتال
‘ لاہور بزنس مین ایسوسی ایشن برائے بحالی معذوراں‘ چودھری رحمت علی
میموریل ٹرسٹ ہسپتال‘ پاکستان ایجوکیشنل سوسائٹی برائے نادار طلباء‘
گورنمنٹ ڈاکٹر مقبول احمد میموریل ہسپتال‘ گلاب دیوی چیسٹ ہسپتال‘ ٹرسٹ
سکول ٹھوکر نیاز بیگ‘ انجمن چنیوٹ بیت المال شامل ہیں۔ اِسی طرح ڈیفنس
ویلفیئر سوسائٹی کا بانی و سرپرست بنا دیا گیا ہوں۔
میرا یہ ایمان ہے کہ میرا مشن اور مقصد عہدے یا اداروں کی صدارت حاصل کرنا
ہر گز نہیں ہے بلکہ جو لطف عہدوں کے بغیر خلق خدا کی خدمت کاہے اس کا نشہ
ہی کچھ اور ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کوئی مجھے ادارے یا انجمن کا صدر بنانے کی
جستجو کرتا ہے تو ایسی خواہش رکھنے والے احباب کو میں برملا کہتا ہوں کہ
میں سرپرست یا صدر کے عہدے کی بجائے نائب قاصد کا عہدہ اپنے لیے زیادہ بہتر
خیال کر تا ہوں کیونکہ اﷲ تعالیٰ روز محشر عہدے نہیں خلق خدا کی بہتری کے
حوالے سے خدمات دیکھے گا۔ حالانکہ اپنے حوالے سے میں یہ لکھنا مناسب نہیں
سمجھتا کہ میں کتنے اداروں اور انجمنوں کا سرپرست اور صدرہوں لیکن صرف اس
نقطہ نظر سے لکھ رہا ہوں تاکہ مزید لوگوں کو خدمت انسانی کے حوالے سے ترغیب
دی جا سکے۔ وہ یہ دیکھ کر اس اہم شعبے کی طرف راغب ہو جائیں کہ ایک شخص جو
بہت دولت مند بھی نہیں ہے۔ فیکٹریاں اور کارخانے بھی اس کی ملکیت نہیں ہیں
وہ عمر کے اس حصے میں بھی اپنے اور اپنے خاندان کے بارے میں سوچنے کی بجائے
ممکن حد تک اپنا سب کچھ ان غریب بے بس اور بے سہارا لوگوں پر نچھاور کر رہا
ہے جو حاصل ہونے والی آمدنی سے دو وقت کی روٹی بھی نہیں کھا سکتے۔ علاج و
معالجہ تو دور کی بات ہے۔ یہاں میں یہ بتاتا چلوں کہ حجاز ہسپتال کے مین
دروازے کی سیڑھیوں پر جب میں قدم رکھتا ہوں تو ہسپتال کا وہ بر آمدہ جو
مریضوں کی انتظار گاہ ہے۔ علاج معالجے کیلئے آنے والے بوڑھے مرد، غریب
عورتیں اور بیمار بچے بڑی تعداد میں محبت سے مجھے گھیر لیتے ہیں اور ڈھیروں
دعائیں دیتے ہیں جن کے چہروں پر اطمینان اور خوشیاں دیکھ کر مجھے اپنے دُکھ
بھول جاتے ہیں۔ اس لمحے میں خدائے بزرگ و برتر کا بے حد شکرادا کرتا ہوں کہ
جس نے مجھے یہ ہسپتال بنانے اور اس میں مزید سہولتیں فراہم کرنے کے حوالے
سے دوستوں کا تعاون حاصل کرنے میں کامیابی عطا فرمائی اس وقت خدمت انسانی
کی سعادت کے ساتھ ساتھ اطمینان قلب اور ذہنی سکون بھی میسر آتا ہے۔ اور میں
غریب اور بیمار لوگوں کی دعاؤں سے بغیر دوا کے شفا یاب ہو جاتا ہوں۔
یہاں میں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میری زندگی کے وہ دن بھی بہت کٹھن تھے۔ جب
معالجین نے یہ انکشاف کیا کہ میری خوراک کی نالی اور معدہ کے درمیان موجود
ریٹرن وال شکستہ ہو چکا ہے۔ سجدہ ریزی سے خوراک کی نالی معدے سے الگ ہونے
کا خدشہ ہے میری اس اندرونی کیفیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹروں نے سجدہ
کرنے کی ممانعت کر دی۔ ڈاکٹروں کی نصیحت پر عمل کرتے ہوئے میں نے ایک سال
سجدہ نہیں کیا پھر دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ اگر سجدے کی حالت میں موت آ
جائے تو اس سے بڑی سعادت اور کیا ہو سکتی ہے چنانچہ ڈاکٹروں کی نصیحت کے بر
عکس میں دوران نماز خدائے بزرگ کے سامنے سجدہ ریز ہونے لگا۔ اور دل سے یہ
خوف دور کر دیا کہ سجدہ ریزی سے خوراک کی نالی معدے سے الگ بھی ہو سکتی ہے
اس واقعے کو دس سال ہو چکے ہیں۔ خدا کے فضل سے نہ صرف زندہ ہوں بلکہ دن میں
پانچ سے بھی زائد مرتبہ پروردگار کے سامنے اہتمام سے جھکتا ہوں۔ نماز پڑھنے
اور نیکی کی یہ عادت مجھے میرے والدین سے ورثے میں ملی جس پر میں آج تک
الحمد اﷲ قائم ہوں اور خدا نے چاہا تو زندگی کی آخری سانس تک قائم رہوں گا۔
اِسی طرح ایک مرتبہ میں کچھ رقم لے کر ہسپتال میں جمع کروانے کیلئے آیا
میری آمد میں تاخیر ہوئی تو نماز مغرب کے بعد ہسپتال میں موجود دفتر بند ہو
گیا۔ چنانچہ مجھے اسی طرح اپنے گھر واپس لوٹنا پڑا۔ جونہی میری گاڑی اپنے
گھر سے کچھ فاصلے پر پہنچی تاریکی میں چھپے ہوئے دو ڈاکو اچانک میری گاڑی
کے سامنے آ گئے۔ پھر جونہی گاڑی رُکی تو ڈاکوؤں نے دروازے کھول کر مجھ تک
پہنچنے کی حتی المقدور کوشش کی حسن اتفاق سے گاڑی کے دونوں دروازے لاک تھے۔
جس کی وجہ سے وہ کھل نہ سکے۔ ناکامی کے بعد انہوں نے شیشے کا نشانہ لے کر
مجھ پر فائرکر دیا۔ جس سے گاڑی کا شیشہ کرچی کرچی ہو کر میرے دامن میں
پیوست ہو گیا۔ اس لمحے موت چند لمحوں کے فاصلے پر تھی۔ ڈاکوؤں نے چند اور
فائر بھی مجھ پر کیے لیکن میں اس وقت حیران رہ گیا جب ڈاکوؤں اور میرے
درمیان سٹیل کی پلیٹ خود بخود حائل ہو گئی۔ جس نے گولیوں کو مجھ تک پہنچنے
سے روک لیا۔ اس لمحے جب میں نہ تو ڈاکوؤں سے لڑ کر جیت سکتا تھا اور نہ ہی
بھاگ کر جان بچا سکتا تھا۔ ان غریبوں اور بے سہارا لوگوں کی دعائیں ڈاکوؤں
کے عزائم میں دیوار بن گئیں۔
میرے تمام اثاثے (رہائش گاہ اور پراپرٹی جہاں سے حاصل ہونے والی آمدنی سے
میں گزر اوقات کر رہا ہوں) یہ تمام میری موت کے بعد حجاز ہسپتال کی ملکیت
میں چلے جائیں گے۔ ایسا میں نے اپنی زندگی میں اس لیے کیا کہ میرے بعد
جائیداد پر مقدمات اور تنازعات کی نوبت نہ آئے۔ ویسے بھی میری اولاد کو اﷲ
تعالیٰ نے ہر قسم کی نعمت سے مالا مال کر رکھا ہے۔ اس لیے انہیں میرے ورثے
کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ پاکستان میں بے شمار لوگ ایسے بھی ہیں جن کو اﷲ
تعالیٰ نے مجھ سے زیادہ دولت اور عزت عطا کی ہے لیکن ترغیب کے باوجود بہت
کم لوگ سماجی اور فلاحی شعبے کی طرف آتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ
نے ماں کی دعاؤں سے یہ نعمت بطور خاص مجھے عطا کر رکھی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ
دکھی انسانیت کی خدمت کرتے ہوئے مجھے دلی تسکین محسوس ہوتی ہے کئی لوگ بار
بار حج اور عمرہ کرنے کو اپنے لیے بڑی سعادت تصور کرتے ہیں۔ سعادت تو یہ
واقعی ہے لیکن میرے نقطہ نظر سے اگر یہی رقم کسی غریب اور مستحق بیمار
انسان پر خرچ کر دی جائے تو روزِ قیامت اﷲ تعالیٰ کے ہاں ان کا یہ عمل
زیادہ مقبول ہو گا۔ بے شمار بچیاں غربت کی وجہ سے والدین کی دہلیز پر بوڑھی
ہو جاتی ہیں۔ اگر ایسی بچیوں کے سر پر دست شفقت رکھ دیا جائے تو کتنا ثواب
حاصل ہو۔ اﷲ تعالیٰ اپنے حقوق تو معاف کر سکتا ہے۔ اپنی مخلوق کے حقوق معاف
نہیں کرتا یہی روحِ اِسلام ہے۔ میری آئیڈیل شخصیات میں حکیم محمد سعید
(جنہیں ملک و قوم کیلئے ان کی خدمات کے عوض شہید ِ پاکستان کا لقب مل چکا
ہے) بھی شامل ہیں۔ کم سونا، خلق خدا کی خدمت کرنا نہایت سادہ خوراک اور
لباس پہننا یہ حکیم محمد سعید کی وہ عادتیں ہیں۔ جو مجھے بے حد پسند ہیں
اور میں ممکن حد تک ان پر عمل بھی کرتا ہوں۔ ایک مرتبہ وہ لاہور تشریف لائے
شیڈول بہت مصروف ہونے کے باوجود انہوں نے کمال مہربانی سے میرے عشائیے میں
شرکت کی دعوت قبول کی۔ وہ حقیقت میں مجھے بہت بڑے انسان نظر آئے۔ کراچی
واپسی پر اُنہوں نے مجھے ایک خط لکھا جس میں اُنہوں نے مجھے ابو ذر غفاریؒ
سے مماثلت دی ۔میں سمجھتا ہوں یہ لقب واقعی میرے لیے بہت بڑا اعزاز ہے۔
اب میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ زندگی کی ساعتیں سمٹتی ہوئی محسوس ہو رہی
ہیں۔ اس لمحے میری ایک ہی آرزو ہے کہ جن افراد کو اﷲ تعالیٰ نے مال و دولت
سے خوب نوازا ہے ان کو اپنی تجوریوں کے منہ غریبوں کی مالی سرپرستی کیلئے
کھول دینے چاہیئں۔ میں چاہتا ہوں کہ جو بچے وسائل کی عدم دستیابی کی وجہ سے
سکول نہیں جا سکے وہ زیور تعلیم سے آراستہ ہو کر ملک کے باوقار شہری بن
جائیں۔ اور جو لوگ غربت کی وجہ سے علاج معالجہ کی سہولتوں کی عدم دستیابی
کی وجہ سے اپنے ہی گھر میں موت کے منتظر ہیں ان کو علاج معالجے کی باوقار
سہولتیں میسر ہوں۔ اس مقصد کیلئے مجھے کسی تنظیم کے سرپرست یا صدر بننے کی
خواہش ہر گز نہیں بلکہ میں تو نائب قاصد بن کے ہر اس دروازے پر دستک دینے
کو تیار ہوں جہاں سے غریبوں کی امداد کیلئے کچھ حاصل ہو سکے۔ انہی مقاصد کی
تکمیل کیلئے ڈیفنس جیسے پوش علاقے میں، میں نے ایک ویلفیئر سوسائٹی بنائی
ہے جس کے پلیٹ فارم پر کوٹھیوں میں مزدوری کرنے والے بچوں کی کفالت۔ ان کے
حقوق کا تحفظ‘ مساجد میں ان کے لیے تعلیم کا اہتمام اور بیمار بچوں کی
بروقت طبی امداد کا اہتمام بھی شامل ہے۔ بے شک اپنے خوبصورت ائیر کنڈیشنڈ
بنگلوں میں رہنے والے امیر زادوں کو خلق خدا کی خدمت میں متحرک کرنا بہت
مشکل کام ہے لیکن اﷲ تعالیٰ نے مجھے یہ قوت عطا کر رکھی ہے۔ اور زندگی کی
آخری سانس تک میں اِسی جستجو میں رہوں گا۔
آخر میں‘ میں کاروبار میں اپنی ترقی کا راز بھی آپ کو بتاتا چلوں جو قرآن
پاک کی مندرجہ ذیل آیات پر عمل پیرا ہونے میں مضمر ہے۔
ترجمہ: جو تمہاری ضرورت سے زائد ہو اﷲ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر دو۔
ضرورت مندوں میں لوٹا دو۔ دنیا کی دولت نا پائیدار، کھیل تماشہ، فریب ،
متاع قلیل ہے ۔ دنیا کے طلب گار کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔ مال میں بخل
کرنے والا دوزخی ہے۔ ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے دونوں
کا حق ہے۔ جو صرف دنیا کی زندگی کا خواہش مند ہے، اس سے تم منہ پھیر لو۔ اﷲ
تعالیٰ کو قرض دینے والوں کو دو چند اور جنت کا صلہ ملے گا۔ تمہارا مال اور
تمہاری اولاد تم کو اﷲ کی یاد سے غافل نہ کر دے۔ جو مال ہم نے تم کو دیا ہے
اس میں اس (وقت) سے پیشتر خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کو موت آ جائے تو اس
وقت کہنے لگو کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھے تھوڑی مہلت اور کیوں نہ دی
تاکہ میں خیرات کر دیتا۔ جو مال ہم نے ان کو دیا ہے اس میں پوشیدہ اور ظاہر
اً خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے برائی کو دور کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جس
کیلئے عاقبت کا گھر ہے۔ جو شخص دنیا (کی آسودگی ) کا خواہشمند ہے تو ہم اس
میں سے جسے چاہتے ہیں جلد دے دیتے ہیں۔ پھر اس کیلئے جہنم کو مقرر کر رکھا
ہے۔ فضول خرچی سے مال نہ اُڑاؤ‘‘۔
میں سمجھتا ہوں اﷲ تعالیٰ نے مجھے اس دنیا میں جتنا نوازا اس سے کئی گنا
زیادہ آخرت میں نوازے گا۔ یہ سب کچھ اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم اور میری ماں
کی بہترین تربیت اور رہنمائی کا نتیجہ ہے۔ جو ہر مشکل میں ہمیں صبر کی
تلقین کرتی رہی۔ اور خود میرے لیے زندگی کی آخری سانس تک دعا گو رہی۔
حاجی انعام الہی اثر ایک عظیم کاروباری شخصیت ہی نہیں تھے بلکہ ان کے دل
میں دکھی انسانیت کی محبت کا اندازہ الفاظ میں نہیں کیا جاسکتا ۔ ان کی
زندگی کی ہر صبح حجاز ہسپتال میں ہوا کرتی تھی ‘ وہ ایسے مریضوں کو خود ملا
کرتے تھے جن کے پاس آپریشن کے پیسے نہیں ہوتے تھے ‘ وہ اپنے قلم سے اخراجات
کو ممکن حد تک معاف کردیتے ۔ وہ اپنے جانثار ساتھیوں کو بھی بے حد عزیز
رکھتے تھے ‘ ہر منگل کی صبح کا ناشتہ وہ اپنے جانثار ساتھیوں کے ہمراہ
کانفرنس ہال میں کرتے ۔ ایک دو بار ناشتے میں شرکت کا مجھے بھی موقعہ میسر
آیا اور میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ ان کی ایک آواز پر ان کے ساتھی کس
طرح اپنی دولت نچھاور کرتے ہیں ۔میں سمجھتا ہوں اگر آج حجاز ہسپتال پورے
گلبرگ میں دکھی انسانیت کی واحد علاج گاہ کا روپ دھار چکا ہے تو اس کا
کریڈٹ حاجی انعام الہی اثر کو بلاشبہ جاتا ہے جو 25 جنوری 2017ء کو اس دنیا
سے رخصت ہوگئے ۔
ان کے بعد سہیل اقبال ‘ عطاالرحمان ‘ محبوب اقبال ٹاٹا ‘ مسرت قیوم اور
سابق چیرمین حجاز ہسپتال میاں عبدالوحید صاحب کی بیگم اور بیٹے بھی انسانیت
کی فلاح و بہبود کے اس پودے کو توانا اور قائم رکھنے کے لیے اپنا گراں قدر
تعاون کررہے ہیں ۔ ان تمام احباب کی بہترین کاوشوں کی بدولت حجاز ہسپتال صف
اول کے ہسپتالوں میں شمار ہوتا ہے ۔اس لمحے جبکہ حاجی انعام الہی اثر ہمارے
درمیان میں نہیں رہے یقینا وہ جنت کے باغات میں اپنے ان نیک اعمالوں کا پھل
کھا رہے ہوں گے جو انہوں نے اپنی زندگی کے ہر قدم پر کیے ۔
بے شک ہم اﷲ کے لیے ہیں اور اسی کی جانب لوٹ کر جانے والے ہیں ۔
|