تحریر: ام محمد عبداﷲ، جہانگیرہ
کھڑکی کے پردے ہٹا کر میں نے اس کے پٹ کھولتے ہوئے باہر جھانکا۔ آج صبح بہت
روشن اور سہانی تھی۔ موتیے کی خوشبو کھڑکی کے راستے چمن سے آتی کمرے کی فضا
کو معطر کرنے لگی تھی۔ ’’ہماری عالیہ کا اخلاق بہت اچھا ہے۔ ہر دم ہنستی
مسکراتی رہتی ہے‘‘۔ کل شام کی تقریب میں میرے متعلق بولے جانے والے جملے کی
باز گشت نے مجھے اور بھی سرشار کر دیا تھا۔ میں پلٹ کر شوہر نامدار اور
بچوں کو جگانے لگی۔ دن بھر کے کام نمٹانے کے لیے میں تازہ دم تھی۔
خوشگوار موڈ میں گھر والوں کو ناشتہ کروانے کے بعد میں اپنی ملازمہ سے گھر
کی صفائی کروانے لگی۔ آج ہفتہ بھر کے کپڑے بھی دھلنے تھے۔ کاموں میں مصروف
مجھے ایک اور مصروفیت کا سامنا مہمانوں کی صورت میں کرنا پڑا۔ مہمان خواتین
کے ساتھ شرارتی اور کسی حد تک بدتمیز بچے۔ مجھے کچھ کوفت سی ہونے لگی۔
’’نہیں عالیہ! تم تو بہت با اخلاق ہو، مسکراو‘‘۔ میں نے گویا خود کو یاد
دہانی کروائی۔ دن کا کھانا بنانے تک میں بہت تھک چکی تھی مگر ابھی کہاں؟
ابھی تو آدھا دن باقی تھا۔ بچوں کی اسکول سے واپسی پر ایک نئی پریڈ شروع ہو
چکی تھی۔ خدا خدا کر کے شام ہوئی۔ شام کی چائے کے بعد مہمان خواتین رخصت ہو
چکی تھیں اور شاید ان کے ساتھ میں اپنی مسکراہٹ بھی رخصت کر چکی تھی۔
رات ہنگامہ لیے نمودار ہوئی۔ عالیہ جلدی سے اسٹرانگ سی چائے بنا لاو۔ میرے
سر میں درد ہے۔ میں بچوں کو ہوم ورک کروانے کے لیے بٹھا ہی رہی تھی کہ بچوں
کے ابا کی آواز پر میں نے باورچی خانے کی راہ لی۔ عالیہ بیٹی میری دوا کا
وقت ہو رہا ہے۔ میرا پرہیزی کھانا لے آو۔ یہ میری ساس کی آواز تھی۔ میں نے
نگاہ اٹھا کر دیوار گیر گھڑی دیکھی۔ واقعی رات کے کھانے کا وقت ہو چلا تھا
اور ساسو ماں کا کھانا تو میں نے ابھی تیار ہی نہیں کیا تھا۔ بچوں کے ابا
کو خاموشی سے چائے تھما کر میں جلدی جلدی ساسو ماں کے لیے کھانا بنانے میں
مصروف ہوگئی۔ بچوں کے کھیلنے اور ہنسنے کی آوازیں اب لڑائی میں تبدیل ہونے
لگی تھیں۔ شاید کھیل کھیل کر وہ بھی اکتا چکے تھے۔ میں نے سلیقے سے ساسو
ماں کا کھانا ٹرے میں سجایا ہی تھا کہ دھڑام سے باورچی خانے کا دروازہ کھلا۔
بلال اور رابعہ لڑتے ہوئے باورچی خانے میں داخل ہوئے تھے۔ ’’امی جان دیکھیے
یہ مجھے تنگ کر رہا ہے‘‘، رابعہ نے دھائی دی۔ ’’امی یہ میری واٹر گن نہیں
دے رہی‘‘؟، بلال نے شکایت لگائی۔ ’’عالیہ! میرا کھانا‘‘، یہ ساسو ماں کی
آواز تھی۔ بلال اور رابعہ میں واٹر گن کے لیے چھینا جھپٹی ہونے لگی تھی۔
’’جاہلوں، بدتمیزوں، بے ادبوں ہٹو سامنے سے دادی کو کھانا دینے دو‘‘۔ میں
نے بچوں کو دروازے کے بیچ سے قریبا دھکا دے کر ہٹایا اور جھنجھلاتی ہوئی
ٹرے اٹھائے ساسو ماں کی خدمت میں لے آئی۔ جہاں میرے شوہر بھی بیٹھے ہوئے
تھے۔ انہیں دیکھتے ہی میرے چہرے کے سارے زاویے درست ہو گئے۔ مسکراتے ہوئے
ساسو ماں کے سامنے کھانا رکھتے میں باورچی خانے میں پلٹ آئی۔ آخر کو اخلاق
بھی تو برقرار رکھنا تھا۔
باورچی خانے کے منظر نے تو گویا میرے تھکے ہوئے اعصاب پر بجلی ہی گرا دی۔
بچے لڑتے ہوئے سبزی کی ٹوکری سے ٹکرائے تھے۔ سارے فرش پر آلو، پیاز اور
ٹماٹر بکھرے پڑے تھے۔ میرا غم و غصہ ساتویں آسمان کو چھونے لگا۔ جاہلوں
کوئی ادب تمیز ہے تم میں۔ میں غصے میں نجانے بچوں کو کیسے کیسے القابات سے
نوازنے لگی تھی۔ رابعہ نے آگے بڑھ کر سبزی اٹھانے کی کوشش کی۔ ’’رہنے دیجیے
مہارانی صاحبہ! مجھ پر احسان کریں کمرے میں تشریف لے جائیں۔ میں ہوں نہ مفت
کی نوکرانی اس گھر میں اٹھا لوں گی سب کچھ‘‘۔ بچے کمرے میں چلے گئے۔ میں
آنسو بہاتے کام سمیٹنے لگی۔ سب کام نمٹا کر میں جب کمرے میں داخل ہوئی۔ بچے
سو چکے تھے۔ ’’اف ان کی پڑھائی اور رات کی دیگر سرگرمیاں سب رہ گئیں‘‘۔ میں
نے تاسف سے سوچا۔
جسمانی طور پر تومیں پہلے ہی تھکی ہوئی تھی۔ بچوں کے ساتھ بدمزگی اور چیخ و
پکار نے مجھے ذہنی اور جزباتی طور پر بھی تھکن سے نڈھال کر دیا تھا۔ بستر
میں لیٹنے (جس کی خواہش میں سر شام سے ہی کر رہی تھی) سے بھی کوئی آرام
محسوس نہیں ہوا۔ دل و ذہن نے دن بھر کا احتساب شروع کر دیا تھا۔ نیند کوسوں
دور ہو چکی تھی۔ ’’آج کے سارے دن میں میرے ہاتھ کیا آیا؟ میں نے کیا کھویا
کیا پایا‘‘؟ ’’میں نے سارا دن بہت محنت کی ہے۔ گھر کے سب کام احسن طریقے سے
نمٹائے ہیں۔ کام کی زیادتی کے باوجود کوئی نماز نہیں چھوڑی، ذکر اذکار
تلاوت بھی کی ہے‘‘۔ میرا عبادت کا کالم اوکے ہے۔ میں نے خود کو تسلی دی۔
گھر کی ذمہ داریاں درست تھیں۔ مہمانداری بہترین تھی۔
پھر کہاں کمی رہ گئی؟ میں بے چین اور مضطرب کیوں تھی۔ میں نے نگاہ اٹھا کر
اپنے سوئے معصوم بچوں کی جانب دیکھا۔ رابعہ کی پلکوں کے کنارے مجھے لگا
جیسا کوئی آنسو جما ہوا تھا۔ بلال نیند میں گہری گہری سانسیں لے رہا تھا۔
کمبل اس کے سینے پر ٹھیک کرتے مجھے وہ سب الفاظ یاد آنے جو میں نے ان دونوں
کو کہے تھے۔جاہلوں، بے ادبوں، بد تہزیبوں، گنواروں اور نجانے کیا کیا؟ ان
سب کے تو معنی بھی انہیں معلوم نہ ہوں گے۔ کیا یہ اس طرح کے لہجے اور الفاظ
کے مستحق تھے؟ میرا ضمیر میرے مقابل آن کھڑا ہوا تھا۔ ’’بدتمیزی کر رہے
تھے۔ میں بے حد تھک چکی تھی۔ میں بھی تو انسان ہوں۔ میرا کوئی خیال نہیں
رکھتا‘‘۔ میں اپنے ہی کٹھہرے میں کھڑی اپنی ہی ذات کو صفائیاں دینے لگی
تھی۔
’’پیاری عالیہ، تم یقینا بہت تھک چکی تھیں۔ بچے بھی لڑ جھگڑ رہے تھے لیکن
کیا یہ ہی صورت حال تمہارے صبر کی متقاضی نہ تھی؟ اسی لمحے تمہارے اخلاق کا
اصل امتحان نہ تھا؟ میں تو بہت با اخلاق ہوں۔ سب گواہی دیتے ہیں۔ میں اپنے
ہی سامنے منمنائی۔ کیا میرے بچے بھی؟ ایک اور سوالیہ نشان میری نگاہوں کے
سامنے لہرایا تھا‘‘۔ میں نے زور سے آنکھیں بند کرتے ہوئے ہارے ہوئے انداز
میں تکیے پر سر گرا دیا۔ بچوں کے ساتھ مختلف مواقع پر اپنی بد اخلاقی کا
مظاہرہ گویا فلم کی مانند میرے سامنے چلنے لگا۔ ’’سن کر ہی نہیں دے رہے،
بہرے ہو کیا؟ آئندہ چائے گرائی تو ہاتھ توڑ دوں گی۔ کوڑھ مغز کہیں کا۔
ریاضی کے سوال تو کوئی پروفیسر ہی سمجھائے آکر تمہیں۔ میرے بس کا کام
نہیں‘‘۔ نجانے کتنے ہی الفاظ کے ایسے تیر تھے جو میں بے دریغ ان پر چلا
دیتی ہوں۔ آنسو اب تواتر سے آنکھوں سے بہنے لگے تھے۔ بچوں کے ساتھ بداخلاقی
کا عملی مظاہرہ اور اخلاق پر لمبے لمبے دروس کیا انہیں با اخلاق بنا سکتے
ہیں؟
میں اپنے ہی سامنے ہار گئی۔ میرا اخلاق کیسا اخلاق تھا جو میرے بچوں کے لیے
نہیں تھا۔ مزید برآں ذہن میں در آنے والی حدیث نے اچھائی اور اخلاق کا درست
معیار میرے سامنے رکھ دیا تھا۔ ’’تم میں سے اچھا وہ ہے جو اپنے گھر والوں
کے ساتھ اچھا ہو‘‘۔ اب مجھے اپنے آپ کو اس صفت سے مزین کرنا تھا۔ اپنے ہدف
کو پانے کے لیے میں اپنے لیے لائحہ عمل تیار کرنے لگی۔ مجھے اپنے صبر اور
حوصلے کو بڑھانا ہے۔ اپنے دل کو مضبوط بنانا ہے۔ میں گھر کے کاموں میں خود
کو بھول جاتی ہوں۔ اعلی اخلاق کے مقصد کو حاصل کرنے کے لیے مجھے اپنی ذہنی،
جسمانی روحانی ہر طرح کی صحت کا خیال خود رکھنا ہے۔
اگر میرے بچوں کی جنت میرے قدموں تلے ہے تو ان قدموں کو ان کی تربیت کے لیے
ان تھک بنانا ہے۔ میرا اخلاق اور میری مسکراہٹ وقتی نہیں کل وقتی ہوگی اور
اس کے اصل حقدار میرے بچے ہیں۔
تو بس پھر طے ہوا منفی جملے اور منفی رویے زندگی سے اکھاڑ پھینکنے ہیں اور
بچوں کی تربیت چیختے چلاتے نہیں ہنستے مسکراتے کرنی ہے۔ میرے زہن سے صدا
آئی۔ ’’ مگر اس میں پڑے گی محنت زیادہ‘‘، میں دل سے مسکرا دی۔ بچوں کے ساتھ
ساتھ اپنی تربیت بھی تو جاری تھی۔
|