بھارتیہ جنتا پارٹی ایک کیڈر والی سیاسی تنظیم ہے۔ قومی
انتخاب سے قبل اس کی مجلس عاملہ کا ایک قومی کنونشن اندرا گاندھی انڈور
اسٹیڈیم میں منعقد ہونے والا تھا لیکن تین صوبوں میں شکست کے بعد اسے رام
لیلا میدان پر منتقل کردیا گیا۔ رام نام جپنے کے لیے رام لیلا میدان سے
اچھی جگہ اور کون سی ہوسکتی تھی۔ پانچ سال قبل مودی جی جب’ سب کا ساتھ سب
کا وکاس‘ کرنے کے لیے نکلے تو انہیں رام للا کی یاد نہیں آئی لیکن اب جبکہ
وکاس پاگل ہوگیا ہے اور سب نے ساتھ چھوڑ دیا ہے تو رامائن کا پاٹھ شروع
ہوگیا۔ اس قومی کنونشن کا آغاز میں شاہ جی نے وہی راگ الاپا اور مودی جی
نے اسی سر ُمیں اس کا اختتام کیا ۔ امتم شاہ نے افتتاحی خطاب میں کہا بی جے
پی چاہتی ہے کہ رام جنم بھومی پرجلد ازجلد ایک شاندارمندربنے۔ سپریم کورٹ
میں مقدمہ چل رہا ہے۔ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ اس کا فیصلہ کوجلد ازجلد ہو،
لیکن کانگریس پارٹی اس میں ایک کے بعد ایک روڑے ڈالنے کا کام کررہی ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ بی جے پی رام مندر کی تعمیر کے لئے پابند عہد ہے۔
مودی جی دنیا کا سب سےمقبول رہنما قرار دیتے ہوئے شاہ جی بھول گئے کہ
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے حال میں وزیراعظم کا کیسے مذاق اڑایا۔ اپنی
حکومت کی کامیابیاں گنانے پر آئے تو سب سے پہلے ۹ کروڑ بیت الخلا کی تعمیر
کے ذریعہ ماوں اوربہنوں کو شرم سے آزاد کرکے عزت کے ساتھ جینے کا حق دینے
کی بات کی ۔ کاش کہ وہ یہ بھی بتاتے کہ بیٹی بچاو بیٹی پڑھاو کا نعرہ لگانے
والوں نے ہندوستان کوخواتین کےلیے سب سے زیادہ غیر محفوظ ملک کیسے بنادیا؟
امیت شاہ نے ۶۰ کروڑ بینک اکاونٹ پر فخر جتایا لیکن یہ بتانا بھول گئے کہ
ان میں کم ازکم رقم نہیں ہونے کے سبب بنک والے بنا مطلب غریب کھاتے داروں
کی جیب کاٹ کر اپنے خزانے بھر رہے ہیں ۔امت شاہ نے کانگریس پرالزام لگایاکہ
اس نے وجے مالیا، نیرومودی اورمیہول چوکسی کوقرض دیااور مودی حکومت کے
اقتدارمیں آنے کے بعد وہ ملک چھوڑکرفرارہوگئے لیکن سوال یہ ہے کہ حکومت ان
پکڑنے کے بجائے ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھی رہی؟ کیا یہ سچ نہیں ہے کہ ان
کو بھگانے اورغیر ملکی شہریت دلانے میں حکومت کا تعاون رہا ہے؟
امیت شاہ پر فی الحال انتخابی بخار چڑھا ہوا ہے اس لیے وہ ہذیان بکنے لگے
ہیں ۔ انہوں اس الیکشن کا پانی پت کی جنگ کے ساتھ موازہ کرتے ہوئے کہا کہ
پانی پت کی جنگ میں شکست کے بعد ملک کو دو سوسال تک انگریزوں کا غلام ہوگیا
تھا ۔ ایسا لگتا ہے کہ سنگھ کی شاکھاوں میں تاریخ بتائی ہی نہیں جاتی اور
کالجوں سے یہ لوگ جعلی ڈگری حاصل کرلیتے ہیں ۔ پانی پت میں جملہ چار جنگیں
ہوئیں ان میں سے کسی ایک میں بھی انگریزوں کا نام و نشان نہیں تھا۔ پہلی
جنگ ۱۵۲۶ میں مغل بادشاہ ظہیر الدین بابر اور سلطان ابراہیم لودھی کے
درمیان ہوئی۔ جس میں بی جے پی کی مانند بڑی فوج(ایک لاکھ) والے سلطان
ابراہیم کوبابر کے ۱۲ ہزار فوجیوں نے ہرا دیا۔ ہمایوں کی وفات کے بعد عادل
شاہ کے وزیرہیموں بقال اوربیرم خان کے بیچ ۱۵۵۶ میں دوسری پانی پت کی جنگ
ہوئی جس میں بیرم خاں کو فتح ہوئی ۔ تیسری جنگ( ۱۷۶۱ )میں افغانستان کے
بادشاہ احمد شاہ ابدالی کے بیٹے تیمور شاہ کومراٹھاسردارسداشو راؤ بھاؤ نے
ہرا دیا ۔ احمد شاہ درانی نے چوتھی مرتبہ ۱۷۶۱ میں ہی پانی پت میں مراٹھوں
کو ہرا کر انتقام لے لیا۔ ان میں انگریز کہاں سے آگئےکون جانے ؟
دوسرے دن کنونشن کی اختتامی تقریر میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کارکنان سے
خطاب کرتے ہوئے کہا چوکیدار کسی کو نہیں چھوڑے گا۔ لفظ چوکیدار سنتے ہی
شرکاء کے ذہن میں ایک بار راہل کا نعرہ ’چوکیدار چور ہے‘ ضرور آیا ہوگا؟
وزیر اعظم نے جب کہا کہ بی جے پی کی حکومت نے یہ ثابت کیا ہے کہ حکومت بغیر
بدعنوانی کے بھی چلائی جا سکتی ہے تو رافیل کے طیاروں کی چنگھاڑ سبھی کے
کانوں میں یقیناً گونجی ہوگی ؟ امیت شاہ کی جیل یاترا اور خود کو ملنے والی
دھمکیوں کا ذکر کرنے کے بعد مودی جی ایودھیا پہنچ گئے۔ انہوں نے کانگریس پر
وکیلوں کے ذریعہ سے عدالتی عمل میں رخنہ ڈال کر فیصلے میں تاخیر کرانے کا
الزام لگایا۔ اپنے کارکنان کو قومی تعمیر و ترقی کی تلقین کرنے کے بجائے
انہوں نے کہا کہ آپ کو کانگریس کا یہ رویہ بھولنا نہیں ہے اور کسی کو
بھولنے بھی نہیں دینا ہے۔ کیا کوئی برسرِ اقتدار جماعت اس طرح کی یاددہانی
سے الیکشن جیت سکتی ہے؟بی جے پی کو اس سوال کا جواب تلاش کرنا ہوگا۔
کاش کہ مودی جی اپنے کارکنان سے اعلیٰ ذات کے لوگوں کو دیئے جانے والے
ریزرویشن کی یاددلاتے لیکن ایسا لگتا ہے پسماندی ذاتوں کے خوف سے بی جے پی
خود اسے بھلا دینا چاہتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مودی سرکار کا یہ آخری تیر
ترکش میں لوٹ آیا ہے ورنہ کنونشن میں اس کا غلغلہ ہوتا۔ یہ اجلاس اخبارات
کی سرخی نہیں بن پارہا ہے اس لیے اس میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اقتدار میں
آنے کے بعدمودی جی دبئی میں جو کچھ کرسکے وہ راہل گاندھی نے اقتدار میں
آنے قبل کردکھایا۔ راہل کے جلسۂ عام میں رام لیلا میدان سے زیادہ لوگ تھے
او ر وہ پر جوش بھی تھے ۔ راہل نے جب کہا میں اپنےمن کی بات کہنے کے لیے
نہیں بلکہ آپ کے من کی بات سننے کے لیے آیا ہوں تو راہل راہل کے نعروں سے
اسٹیڈیم گونج اٹھا ۔ دہلی کے رام لیلا میدان میں اس جوش و خروش کا فقدان
تھا ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آگے چل کر ’ رام اور رافیل‘ کی یہ جنگ کیا گل
کھلاتی ہے؟
|