ہم اور آپ روزانہ قتل کرتے ہیں
مگر کوئی مقدمہ نہیں بنتا۔ اور سچ تو یہ ہے کہ آپ ایک قتل کرتے ہیں اور ہم
عامل صحافی روزانہ دوہرے قتل کے مرتکب ہوتے ہیں مگر کسی میں ہمت نہیں کہ ہم
پر کوئی مقدمہ دائر کرسکے۔ ایک یومیہ قتل تو وقت کا ہے۔ اور دوسرا قتل
خبروں کو قتل (kill) کرنے کا ہے!
دنیا کی ہر قوم کو قدرت نے سب کچھ حساب کتاب سے بخشا ہے۔ وقت بھی حساب ہی
سے ملا ہے۔ مگر ہم پر اللہ کا خاص کرم ہے کہ اُس نے ہمیں وقت کی دولت بے
حساب دی ہے۔ ہم خرچ کرتے ہیں اور ختم نہیں ہوتی۔ اور حد یہ ہے کہ ضائع کرنے
پر بھی ختم نہیں ہوتی! کبھی کبھی تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ وقت کوئی طلسماتی
مخلوق ہے یعنی جس قدر قتل کیجیے اُسی قدر پنپتی جاتی ہے! اہل وطن کا آدھا
وقت تو اس اُدھیڑ بُن میں ضائع ہوتا ہے کہ وقت کو قتل کیسے کیا جائے! دنیا
بھر میں ایسے کھیل پسند کئے جاتے ہیں جن کے مقابلوں کا دورانیہ گھنٹے ڈیڑھ
گھنٹے کا ہو۔ ہم نے کرکٹ کو اپنا رکھا ہے جس میں کم ترین دورانیے کا مقابلہ
بھی تین چار گھنٹے سے کم کا نہیں! ٹوئنٹی ٹوئنٹی یا ون ڈے کرکٹ پر کیا
موقوف ہے، پانچ روزہ ٹیسٹ کرکٹ بھی ہمارے مزاج کا حصہ ہے! اِس کے بعد
موبائل پر گھنٹوں باتیں، ایس ایم ایس، موبائل فون ہی پر ایف ایم کی نشریات،
ایم پی تھری کے ذریعے موسیقی سے محظوظ ہونا، ہینڈ سیٹ ہی پر گانے اور فلمیں
دیکھنا۔ کون سی مصروفیت ہے جو ہم نے نہیں اپنا رکھی؟ مگر کیا کیجیے، ظالم
وقت ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ جب دیکھیے تب کانوں میں ایک آواز
سی آتی ہوئی محسوس ہوتی ہے۔۔۔ ”آپ کا سمےَ شروع ہوتا ہے اب!“ کسی امیتابھ
بچن میں اِتنی ہمت نہیں کہ عملی زندگی کے ”کون بڑے گا کروڑ پتی؟“ پروگرام
میں ہمارے روبرو کہہ سکے ”اوہ! سمَے سماپتی کی گھوشنا!“
جہاں جائیے، جس محفل میں بیٹھیے یہ احساس ستانے لگتا ہے کہ لوگ وقت کو کسی
نہ کسی طرح ٹھکانے پر تُلے ہوئے ہیں۔ اور وقت ہے کہ رقیب رُو سیاہ کی طرح
جان چھوڑنے کو تیار نہیں! سرکاری دفاتر کا حال یہ ہے کہ لوگ ڈیوٹی پر
پہنچنے میں ایک آدھ گھنٹے کی تاخیر پہلے ہی کردیتے ہیں تاکہ دفتر میں بیٹھ
کر وقت ضائع کرنے کے الزام سے بچا جاسکے! سلام دعا کے بعد دفتر کے ساتھیوں
سے گپ شپ میں دس بج جاتے ہیں اور چائے آ جاتی ہے! چائے کی آمد دراصل وقت کی
سزائے موت کا اعلان ہے! لوگ گزشتہ رات کو دیکھے ہوئے ٹی وی ڈراموں اور ٹاک
شوز کی باتیں کرتے ہیں۔ کچھ حالات پر بحث ہوتی ہے۔ حکومت کے بارے میں قیاس
آرائیوں کا بازار گرم ہوتا ہے۔ تھوڑی سی رائے زنی اِس امر پر ہوتی ہے کہ
کابینہ میں کون رہے گا اور کون کھڈے لین لگا دیا جائے گا۔ ان تمام معاملات
کو نمٹانے کے بعد آخر میں گھریلو دُکھڑے روئے جاتے ہیں۔ یعنی
کام اچھا ہے وہی جس کا مآل اچھا ہے!
اِتنے میں زوال کا وقت شروع ہو جاتا ہے اور آپ جانتے ہی ہیں کہ زوال کی
گھڑیوں میں جب عبادت کی اجازت نہیں تو خالص دُنیوی کام کرنے پر بھلا کون
راضی ہوگا؟ ویسے سرکاری دفاتر میں زوال کا ذرا جلدی آ جاتا ہے! کچھ دیر میں
ظہر کی اذان ہوتی ہے اور بس، لنچ ٹائم شروع ہوتا ہے۔ یعنی دیکھتے ہی دیکھتے
سرکاری دن ڈھل جاتا ہے! وقت کو ”عمدگی“ سے ”صرف“ کرنے کا اِس سے موؤثر
طریقہ شاید کوئی اور نہیں ہوسکتا!
معاشرے میں عمومی روش یہ ہے کہ شام کو دفتر یا فیکٹری سے گھر واپسی پر لوگ
فریش ہوکر وقت کو ٹھکانے لگانے کی مہم پر نکل پڑتے ہیں! پان کا کیبن پہلا
پڑاؤ ہوتا ہے جو بالعموم گلی کے کونے پر واقع ہوتا ہے۔ کیبن میں پان کے
پتّوں پر چونا لگایا جاتا ہے اور باہر کھڑے ہوئے تماش بین چالیس پچاس منٹ
تک کھڑے ہوکر اپنے وقت کو چونا لگاتے رہتے ہیں!
پان کے کیبن کی منزل سے آگے ہوٹل پایا جاتا ہے۔ ہوٹل کے باہر دور تک کرسیوں
پر وقت گزاری کی محفل سجتی ہے اور پھر کسے یاد رہتا ہے کہ کتنا وقت ضائع
کرنا ہے! کل تک مسئلہ یہ تھا کہ ہوٹل رات ایک ڈیڑھ بجے بند ہو جایا کرتے
تھے۔ اب یہ الجھن بھی نہیں رہی۔ اب تک چوبیس گھنٹے کے ہوٹل پائے جاتے ہیں
اور بانہیں پسارے کرم فرماؤں کے منتظر رہتے ہیں۔ آپ کے پاس وقت اور پیسے
ہونے چاہئیں، ہوٹل میں چائے، پراٹھا اور بیٹھنے کی جگہ۔۔۔ سبھی کچھ حاضر ہے!
ہمیں اب تک معلوم نہیں ہوسکا اور کوئی اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکا کہ قدرت
نے ہمیں دراصل کتنا وقت ودیعت کیا ہے۔ ہم ڈیوٹی کے دوران بھی وقت کو ٹھکانے
لگاتے رہتے ہیں مگر وہ ٹھکانے نہیں لگتا۔ ذرا سا کام اور پھر باتیں، ذرا سا
کام اور پھر باتیں۔۔۔ یہ معمول ہماری زندگی کا جُز ہے مگر وقت ہے کہ ختم
ہونے کا نام نہیں لیتا!
مرزا تنقید بیگ کہتے ہیں کہ روشنی غیر معمولی یعنی زیادہ ہو تو آنکھیں
چندھیا جاتی ہیں، کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ اگر مارکیٹ میں غیر معمولی ورائٹی
ہو تو خریدار کا ذہن کام کرنے سے انکار کردیتا ہے! انسان کے پاس بے حساب
دولت ہو تو کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ اِس دولت کو کس مصرف میں لایا جائے۔
وقت کے معاملے میں ہمارا تقریباً یہی حال ہے۔ قدرت نے ہمیں وقت کُچھ ایسی
فراوانی سے عطا کیا ہے کہ اب تک ہماری سمجھ میں یہی نہیں آرہا کہ اِسے صرف
کیسے کریں! یہی سبب ہے کہ صرف کرنے کے نام پر ہم اِسے صرف ضائع کر پارہے
ہیں! وقت کے ضیاع کے معاملے میں قوم کو معذور قرار دیتے ہوئے مرزا یہ بھی
کہتے ہیں کہ ہم سے وقت کا حساب لیا جائے گا مگر، گستاخی معاف، قدرت کو
ہماری مجبوری بھی تو دیکھنی چاہیے کہ بے حساب وقت پاکر ہمارے ذہن کی حالت
کیا ہوئی! ہم تو سوچنے سمجھنے کے قابل بھی نہ رہے!
مرزا نے تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان کو اپنی برآمدات پر نظر ثانی کرنی
چاہیے۔ دنیا بھر میں وہی چیز زیادہ فروخت ہوتی ہے جس کی کمی محسوس کی جاتی
ہے۔ وقت کی کمی کہاں محسوس نہیں کی جاتی؟ بس، اِسی نکتے کو بنیاد بناکر
ہمیں وقت برآمد کرنے پر توجہ دینی چاہیے! دنیا بھر کے لوگ وقت کو ترسے ہوئے
ہیں۔ لوگوں کے پاس فراغت کے چند لمحات نہیں۔ ترقی کے راستوں پر دوڑتے دوڑتے
تھکن سے چُور ہو جانے والی دنیا کو آرام کے چند لمحات درکار ہیں۔ کیوں نہ
بریک ہم دیں؟ وقت کی برآمدات میں بھی صراحت کی جاسکتی ہے کہ چبوتروں پر
بیٹھ کر گپ شپ لگانے کا وقت الگ ہے، ٹی وی پر کرنٹ افیئرز کے پروگرام
دیکھتے ہوئے دانشوری جھاڑنے کا پیکیج الگ ہے، شادی بیاہ کی تقریبات میں خوش
گپیوں کے لئے استعمال کیا جانے والا وقت الگ ہے! سب سے مہنگا پیکیج سرکاری
دفاتر میں بیٹھ کر ”صرف“ کئے جانے والے وقت کا ہوسکتا ہے۔ دنیا جب ہم سے
وقت خریدے گی تب اُسے اندازہ ہوگا کہ وقت کی کمی کو ہم نے کس قدر عمدگی سے
پورا کیا ہے! وقت کو برآمد کرکے ہم دنیا میں ایک انوکھا انقلاب برپا کرسکتے
ہیں۔
مرزا کا ہمدردانہ نظریہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ دنیا بہت کھیل چکی، اب اُسے
آرام کی ضرورت ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنے بے پناہ ”سکون“ سے پوری دنیا کو
مستفید کریں۔ اِس صورت میں دُنیا بھر کے لوگ جان سکیں گے کہ ہزاروں سال قبل
جب کچھ نہیں تھا تب کس قدر سکون تھا! |