وفاقی وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علی امین خان گنڈا
پورنے اس وزارت کے ہر نئے آنے والے وزیر کی طرح پاکستان میں واقع کشمیر
سٹیٹ پراپرٹی کے معاملات میں اصلاح کرنے کی بات کی ہے۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی
کے معاملات میں بہتری تو کیا ہوتی،ہر آنے والے وزیر امور کشمیر نے اس عنوان
میں اپنے حلقے کے ووٹروں کو نوکریوں کے حوالے سے مستفید ضرور کیا۔
ایڈمنسٹریٹر کشمیر سٹیٹ پراپرٹی آفس لاہور کی 2004-5 کے مالی سال میں آمدن
تقریبا 6 کروڑ روپے تھی جس میں سے 3 کروڑ روپے اخراجات ظاہر کئے گئے تھے۔
کشمیر سٹیٹ پراپرٹی سے متعلق یہ جائیدادیں برائے نام کرایہ پر دی گئی
ہیں۔کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے حوالے سے یہ بھی حیران کن امر ہے کہ اس کی آمدن
آزادکشمیر یا پاکستان کے خزانے میں نہیں جاتی بلکہ صرف وزارت امور کشمیر کی
صوابدید پر ہے۔ اس بارے وزارت امور کشمیر کا کہنا ہے کہ اس آمدن سے کشمیرکے
طلبہ و طالبات کو وظائف دیئے جاتے ہیں۔اب یہ وفاقی وزارت آزاد کشمیر حکومت
کو کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے امور و صورتحال کی تفصیل سے آگاہ کرے تو معلوم ہو
کہ کشمیر کی اس ریاستی جائیداد کا کیا حال ہے۔
1947 میں آزادی کے بعد ریاست جموں وکشمیر کی جائیدادیں یا مہاراجہ آف
جموںکشمیر یا مہاراجہ پونچھ،جو ریاست جموںوکشمیر کی علاقائی حدود سے باہر
واقع تھیں ، ان کا انتظام آزادحکومت ریاست جموں وکشمیر نے لے لیا اوراس
سٹیٹ پراپرٹی کے قیام کیلئے منیجرقائم کیا۔ پنجاب حکومت نے اس کشمیر
پراپرٹی کو متروکہ جائیدادتصورکیا۔ ایڈمنسٹریٹر آفس کے مطابق قانونی و
انتظامی مشکلات کی وجہ سے آزادکشمیر حکومت نے جون 1955 میں حکومت پاکستان
سے درخواست کی کہ وہ کشمیر پراپرٹی کا انتظام سنبھال لے۔ حکومت پاکستان
ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961 کے تحت کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا
انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ یوں 15 اگست 1947 سے ریاست جموںوکشمیر ، مہاراجہ
کشمیر و مہاراجہ پونچھ کی پاکستان میں واقع جائیدادیں حکومت پاکستان کے زیر
انتظام قرار پائیں۔ ایڈمنسٹریٹنگ آف کشمیر پراپرٹی آرڈیننس 1961 کے تحت
متنازعہ ریاست جموں وکشمیر کی سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام و انصرام آزادکشمیر
حکومت سے لیکر وفاقی وزارت امور کشمیر کو دیا گیا۔ وزارت امورکشمیر
لاہورمیں قائم ایڈمنسٹریٹر جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کے دفتر کے ذریعے اس
سٹیٹ پراپرٹی کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ وزارت امورکشمیر نے کشمیر سٹیٹ
پراپرٹی کے انتظام کیلئے لاہور میں ایڈمنسٹریٹر آفس ، معہ ضروری سٹاف ،
ایکوپمنٹ ، ٹرانسپورٹ متعین کیا اور کوالیفائیڈ پروفیشنل منیجر کی خدمات
حاصل کرتے ہوئے ایڈمنسٹریٹرآفس کو مزید مضبوط کیا گیا۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی
کا زیادہ حصہ پنجاب اور کچھ خیبر پختونخواہ میں واقع ہے۔ ایڈمنسٹریٹرآفس
جموں کشمیر سٹیٹ پراپرٹی لاہورکے ریکارڈ کے مطابق پاکستان میں ریاست جموں
وکشمیر کی کل شہری سٹیٹ پراپرٹی 1048 کنال تھی جس میں سے 468 کنال فروخت
کردی گئی ہے۔ جبکہ اب 580 کنال پرمبنی جائیداد باقی بچی ہے۔ اسی طرح کشمیر
سٹیٹ پراپرٹی کی کل زرعی اراضی تقریبا 2426 ایکڑ تھی جس میں سے 462 ایکڑ
فروخت کردی گئی اور اب 1974 ایکڑ باقی بچی ہے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی ان 35
جائیدادوں میں سے 14 جائیدادیں وزارت امورکشمیر کے خطوط پر مبنی اجازت کے
ذریعے سیاسی طور پر نوازنے کے لئے منظور نظر افراد کو فروخت کی جاتی رہی
ہیں۔ کشمیرسٹیٹ پراپرٹی کی فروخت کردہ جائیدادوں کی مالیت کیا ہے ؟کس کس کو
کتنے کتنے میں فروخت کی گئیں؟ اس بارے میں کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔ تعجب
انگیز بات یہ ہے کہ آزادکشمیر حکومت کے پاس پاکستان میں واقع کشمیر سٹیٹ
پراپرٹی کی کوئی تفصیل موجود نہیں ہے۔
یہ بڑا سوال ہے کہ پنجاب اور صوبہ پختون خواہ میں واقع کشمیر سٹیٹ پراپرٹی
کا یہ بڑا حصہ کس کس کو کس مالیت پر فروخت کیا گیا ، فروخت سے حاصل ہونے
والی رقوم کہاں گئیں؟ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی بدانتظامی اور فروخت کے
معاملات میں کرپشن ، اقربا پروری اور اختیارات سے تجاوز کی صورتحال نیب کی
تفتیش کیلئے ایک بڑا موضوع ہے۔ مناسب یہی ہے کہ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کا
انتظام واپس آزاد کشمیر حکومت کو دیا جائے اور اس کی آمدن بھی آزاد کشمیر
حکومت کو دی جائے۔ایڈمنسٹریٹر آفس میں ملازمت کا سب سے پہلا حق بھی
کشمیریوں کو ہی حاصل ہونا چاہئے۔ کشمیر سٹیٹ پراپرٹی کی اس طرح کی صورتحال
کشمیریوں کے پاکستان پر اعتماد کو نقصان پہنچانے کا باعث بھی ہے۔ |