اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس کے
فطرت کے اصولوں کے عین مطابق احکامات نہ صِرف مسلمانوں کی جسمانی ،نفسیاتی
اور روحانی تربیت کرتے ہیں بلکہ اِن پر عملدرآمد سے اُنہیں دنیا و آخرت میں
سُرخروئی بھی حاصِل ہوتی ہے لیکن دورِحاضِر کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اُمتِ
مسلمہ کی اکثریت جہاں عارضی دنیا آرائش و زیبائش میں کھو کر قُرآن و حدیث
کے واضح احکامات سے رُو گردانی کی مرتکِب ہو رہی ہے وہیں غیروں کی اندھی
تقلید و پیروی سے وہ اُن اعلیٰ اقدار سے بھی محروم ہوتی جا رہی ہے پر عمل
کر کے مٹھی بھر صحرا نشینوں نے دُنیا کا وارِث بنا ڈالا۔
حضرت اِمام غزالی ؒ نے کیا خوب فرمایا کہ ''اللہ پاک ہے اور پاکیزہ چیز ہی
کو پسند کرتا ہے ،اپنے دلوں کو پاک کرو تاکہ اللہ تمھارے دلوں میں بسیرا
کرے اور یاد رکھو کہ اگر تُم اپنے دلوں میں گناہوں کی غلاظت کو جمع رکھو گے
تو ایسے دِل میں اللہ کبھی نہیں آئے گا'' آج ہمارے اِخلاقی اِنحطاط کا یہ
عالم ہے کہ ہم نے یہودونصاریٰ کے رسُوم و رواج اور غلیظ روایات کو خدائے
پاک کے پاکیزہ احکامات پر ترجیح دے رکھی ہے جن میں بسنت، نیو ائر نائٹ اور
ویلنٹائن ڈے جیسی قبیح اور غیر اسلامی رسومات نے اسلامی معاشرے سے اخلاقیات
کا جنازہ نکال دیا ہے فی الحال ہم یہاں صرف ویلنٹائن ڈے پر بات کریں گے۔
ویلنٹائن ڈے دوسری صدی کے ایک رومی باشندے کے نام سے منسوب ہے اور ہر سال
اسکی یاد میں منایا جاتا ہے۔ یہ اُن دنوں کی بات ہے جب روم پر ایک ظالِم و
جابر حُکمران کلاڈیس دوم کی حکومت تھی جو ہر وقت پوری دُنیا کو اپنے
زیرِنگیں دیکھنے کے خواب دیکھتا رہتا تھا اور اپنے اس ارادے کی تکمیل کیلئے
وہ وقتاََ فوقتاََ اپنی ہمسایہ ریاستوں سے چھیڑخانی بھی کرتا رہتا تھا اسکی
اس جنگجویانہ روِش کا نتیجہ خاطِر خواہ کامیابی کی صورت میں تو نہ نِکل سکا
البتہ اسکی فوج کا ایک بڑا حِصہ اِن جنگوں کی نظر ضرور ہو گیا اور رہے سہے
فوجی بھگوڑے ہونے لگے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روم کے نوجوانوں کیلئے فوج
میں بھرتی ایک ڈراﺅنا خواب بن کر رہ گیا نتیجتاََ رُوم کی فوج میں بتدریج
کمی ہونے لگی جِس نے کلاڈیس دوم کو نہایت متفکر کر دیا آخرِکار اِس آمرِ
مطلِق نے اپنے ایک''وزیر باتدبیر''کے مشورہ پر ایک عجیب و غریب اعلان کیا
جو کچھ یوں تھا'' آج سے روم کا کوئی نوجوان اُس وقت تک شادی نہیں کرے گا جب
تک وہ کسی جنگ میں شِرکت کا ثبوت پیش نہیں کرے گا،اس حکم کی تعمیل کی صورت
میں حکومت نوجوان کو انعام و اکرام دینے کے ساتھ ساتھ اسکی شادی کا تمام
خرچہ بھی برداشت کرے گی جب کہ خلاف ورزی کی صورت میں اسکی شادی ایک بڑا
جُرم تصور ہو گی جس کی ''مجرم''کو سخت سزا بھگتنا پڑے گی۔یہ بلاشبہ ایک
احمقانہ اور نا انصافی پر مبنی حکم تھا جس پر رومی عوام سراپا احتجاج بن
گئی اس احتجاج میں سب سے بُلند آوازایک پادری سینٹ ویلنٹائن کی تھی جس نے
بادشاہ کے خلاف کھُلم کھُلا بغاوت کا اعلان کردیا وہ دِن کو روم کے عوام کو
اس حُکم کی نافرمانی پر اُکساتا اور رات کو بعض نوجوانوں کی شادیاں بھی
کروا ڈالتا۔ شروع شروع میں تو بادشاہ اس کے اثرو رسوخ کی وجہ سے چُپ رہا
لیکن آخرکار اس نے ویلنٹائن کو گرفتار کر کے اُس پر بغاوت کا مقدمہ درج کر
دیا ویلنٹائن نے عدالت میں ''اعترافِ جُرم ''کر لیا یوں اسے 206ءمیں پھانسی
دے دی گئی۔یہاں یہ بات بھی مشہور ہے کہ دورانِ قید ویلنٹائن کو جیلر کی
اندھی بیٹی سے عشق ہو گیا اور سزائے موت سے ایک دِن قبل اُس نے اپنی محبوبہ
کو ایک محبت نامہ بھیجا جس کے ساتھ ایک سُرخ گلاب بھی تھا یوں یہ دُنیا کا
سب سے پہلا ویلنٹائن کارڈ''تھا۔ بہرحال اس واقع کے ایک برس بعد روم کے کچھ
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ٹھیک ویلنٹائن کے جائے پھانسی پر جمع ہوئے جہاں
انہوں نے ایک دوسرے سے ''اِظہارِ محبت'' کیا اور پھول پیش کئے یہ دنیا کا
سب سے پہلا ویلنٹائن ڈے تھا۔ یہ رسم ایک طویل عرصہ تک منائی جاتی رہی لیکن
اسکی شہرت روم سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن پھر ملکہ وکٹوریا کی خصوصی دلچسپی نے
اسے پورے یورپ میں متعارف کروا دیا جو ہر سال اپنے 100عزیز و اقارب کو
انتہائی قیمتی ویلنٹائن کارڈ ارسال کرتی تھی ملکہ کی دیکھا دیکھی ارد گِرد
کے ممالک بھی اس گناہِ بے لذت میں مبتلا ہوتے گئے اور آخرکار ملٹی نیشنل
کمپنیوں یہودی منصوبہ سازوں نے ایک سازش کے تحت نہ صرف پوری دنیا میں پھیلا
دیا بلکہ اس میں کئی دوسرے ''لوازمات''بھی شامل کردئیے یوں آج 14فروری پوری
دنیا میں ''عالمی یومِ محبت ''کے طور پر منایا جاتا ہے ۔اس دن کیلئے ایک
نظم بھی مخصوص ہے جسے ڈیوک آف آرینز نے تحریر کیا ہے اور اس کی موسیقی
برطانیہ کے مشہور بادشاہ ایڈورڈ ہفتم نے مایہ ناز موسیقار جان لیڈ سے تیار
کروائی ۔بعض مورخین ویلنٹائن ڈے کو کئی اور طرح سے بھی روائت کرتے ہیں لیکن
ایک بات مصمم ہے کہ ویلنٹائن ڈے فحاشی و عریانی کو ترویج دینے والی ایک
انتہائی قبیح رسم ہے جس کا مقصد اسلامی معاشروں کو مادر پِدر آزاد بنانا ہے۔
پاکستان میں بھی اگرچہ اس رسم کا آغاز 90ء کی دہائی میں ہوا لیکن پرویز
مشرف کے دورِ حکومت میں جب ہر داڑھی اور پگڑی والے کو ''انتہا پسند''قرار
دیکر اس کے ماتھے پر ''برائے فروخت''کا بورڈ آویزاں کر دیا گیا جبکہ بسنت،
ہولی اور نیو ائر نائٹ جیسے حیا باختہ تہواروں کو سرکاری سرپرستی میں منایا
جانے لگا وہیں قوم ویلنٹائن ڈے کی برکات سے بھی محروم نہ رہ سکی آج تقریباََ
ہر پاکستانی اس رسمِ بد سے واقِف ہے اور کئی شہروں میں ''باقاعدگی''سے
منایا بھی جاتا ہے۔ یہاں پر میری اہلِ دانش سے بھرپور اپیل ہے کہ وہ ایسی
حیا سوز رسومات کی بھرپور حوصلہ شکنی کریں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں
ایسی خرافات کی قطعاََ گنجائش نہیں۔ |