ہمارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی
اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے اور برحق نبی ہیں۔ یہ بات بطور مسلم تو ہم لوگ
جانتے ہیں اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر ایمان لائے
بغیر کوئی فرد مسلمان نہیں ہوسکتا لیکن عزیز دوستوں اگر ہم غیر مسلم لوگوں
تک یہ بات پہنچائیں تو شائد وہ اس طرح یہ بات نہ سمجھیں اور نہ ہی اس پر
ایمان لائیں جس طرح کہ بطور مسلم ہم بی بی آمنہ کے لال حضرت محمد مصطفیٰ
صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ بہت مہربان ہے اور وہ
ہماری مشکلوں کو جانتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبروں کو معجزات
عطا کئے تاکہ لوگ ان معجزوں کو دیکھ کر ایمان لے آئیں۔ اللہ تعالیٰ نے
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کئی معجزات
عطا کئے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم لوگوں کے سامنے ان معجزات کو بیان
کریں اور دین اسلام کی حقانیت لوگوں تک پہنچائیں اس کے بعد جو اپنی اصلاح
کرنا چاہے،جو ایمان لانا چاہے،جس کو اللہ ہدایت دینا چاہیں اس کے لئے ان
معجزات کے بیان کافی ہونگے۔ نبی اکرم صلی کو اللہ نے کئی معجزات عطا کئے
تھے۔ ایسے ہی ایک معجزے کا ذکر سیرت ابن ہشام،البدایہ و النہایہ ،طبقات ابن
سعد جلد 14اور دیگر کتب میں ملتا ہے
طفیل بن عمرو قبیلہ دوس کے ایک معزز سردار اور معروف شاعر تھے۔ زمانہ
جاہلیت میں جب وہ مکہ میں داخل ہوئے تو قریش کے نامور سرداروں نے ان کا
استقبال کیا اور کہا کہ ’’اے طفیل تم ہمارے شہر میں آئے ہو ہم تمہیں خوش
آمدید کہتے ہیں اور تمہاری خیر خواہی کے لئے مشورہ دیتے ہیں کہ ہمارے ایک
نوجوان سے بہت محتاط ہوکر رہنا ۔اس کا معاملہ اب خطرناک ہوگیا ہے۔ اس نے
ہماری قوم ٹکڑے کردیئے ہیں اور ہمارا شیرازہ منتشر کردیا ہے ۔ اس کا کلام
جادو کی مانند ہے جس سے باپ بیٹے،بھائی بھائی اور میاں بیوی کے درمیان پھوٹ
پڑ جاتی ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ جو مصیبت ہمارے اوپر نازل ہوچکی ہے کہیں تم اور
تمہاری قوم بھی اس کا شکار نہ ہوجاؤ پس آپ نہ تو اس سے کوئی کلام کریں اور
نہ ہی اس کی بات سنیں۔
سرداران قریش نے ان کے اس قدر کان بھرے کہ میں انہوں نے سرداروں کی بات کو
سچ جان لیا اور فیصلہ کرلیا کہ وہ نہ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی
کوئی بات سنوں گا اور نہ ہی ان سے کوئی کلام کرونگا،یہ فیصلہ کرنے کے بعد
انہوں نے کانوں میں روئی ٹھونس کر حرم میں جانا شروع کیا کہ کہیں محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کا جادو ان پر نہ اثر کر جائے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ایک صبح میں مسجد میں آیا تو کعبہ شریف کے نزدیک رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز میں کھڑے دیکھا ،میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے
نزدیک کھڑا ہوگیا۔ خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان
سے کچھ کلام میں نے سن لیا۔ یہ بہت اچھا کلام تھا میں نے اپنے آپ سے کہا ’’
میری ماں مجھے روئے میں نے یہ کیا طرز عمل اختیار کر رکھا ہے۔ بخدا میں
عقلمند بھی ہوں،اور شاعر بھی اچھے بھلے کی خوب تمیز کرسکتا ہوں،پھر اس شخص
کا کلام سننے میں کی چیز مانع ہے؟ مجھے اس کا کلام سننا چاہیے۔ اگر اچھی
بات ہوئی تو قبول کرلوں گا اور اگر بری بات ہوئی تو رد کردونگا۔
طفیل مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے تھوڑی دیر انتظار کیا رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہوکر گھر کی جانب چلے گئے ۔میں بھی آپ ﷺ کے
پیچھے پیچھے ہولیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں داخل ہوگئے میں نے
دستک دی اور میں بھی اندر چلا گیا۔ میں نے ’’اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)
آپ کی قوم نے آپ کے بارے میں بہت کچھ کہا۔ انہوں نے اتنا پروپیگنڈا کیا کہ
میں اس سے متاثر ہوگیا۔ اس خوف سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز میرے
کانوں میں نہ پڑ جائے میں نے کانوں میں روئی ٹھونس لی۔مگر اللہ کو منظور
تھا کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام سن لوں چنانچہ میں نے آپ کا کلام
سنا اور اسے اچھا پایا ۔پس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعوت کا تعارف
کرائیں۔ چنانچہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی
اور قرآن حکیم کی تلاوت فرمائی ،خدا کی قسم میں نے زندگی بھر اس سے بہتر
بات نہ سنی تھی اور نہ اس سے زیادہ انصاف و عدل سے بھر پور کلام مجھ تک
پہنچا تھا۔
طفیل کہتے ہیں کہ میں نے اسلام قبول کرلیا اور کلمہ شہادت پڑھ کر آئندہ کے
لئے شہادت حق کا فریضہ سر انجام دینے کا عہد کرلیا میں نے عرض کیا کہ ’’اے
اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں اپنی قوم میں محترم و معزز ہوں اور
میر بات بات بھی سبھی مانتے ہیں۔ اب میں اپنی قوم کے پاس واپس جارہا ہوں تو
انہیں اسلام کی دعوت کیسے دونگا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے لئے دعا کریں
اللہ مجھے کوئی ایسی نشانی عطا فرما دے جو دعوت حق کے کام میں میری معاون
ثابت ہو۔آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ’’اے اللہ اسے کوئی کرامت
نشانی (کرامت )عطا فرما‘‘
میں اپنی قوم کی جانب واپس لوٹا۔ ایک پہاڑی کی چوٹی پر پہنچا جہاں قبیلے کے
گھر اور آبادی نظر آتی تھی اچانک میری پیشانی پر دونوں آنکھوں کے درمیان
مشعل کی طرح روشنی چمکنے لگی۔ میں نے دعا کی ’’اے اللہ یہ روشنی میرے چہرے
کے علاوہ کسی اور چیز میں پیدا کردی جائے کیونکہ میری قوم کے جاہل اسے مرض
قرار دے کر کہیں گے کہ باپ دادا کے دین کو چھوڑ دینے کی وجہ سے یہ لاحق
ہوگیا ہے‘‘ پس وہ روشنی میرے چہرے سے میری چھڑی کے سرے پر آگئی۔ قوم نے دور
سے دیکھا جیسے قندیل روشن ہو، میں بلندی سے ان کی جانب اترتا آرہا تھا اور
سب لوگ دیکھ رہے تھے یہاں تک کہ اندھیری رات میں مَیں نے سفر طے کیا اور
قبیلے کے درمیان اپنے گھر پہنچ گیا۔
(سیرت ابن ہشام قسم اول صفحہ 382۔الاصابہ جلد دوم۔ صفحہ 217 ۔اسد الغابہ
جلد سوم صفحہ 54 ۔طبقات ابن سعد جلد 14قسم اول صفحہ 175 بحوالہ معجزاتِ
سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم از ولید الاعظمی عراق) |