مولانا مودودی مرحوم و مغفور پر
منجملہ دیگر الزامات کے ایک الزام یہ بھی ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم پر درود و سلام کے قائل نہیں ہیں ۔ یہ ایک بے بنیاد اور جھوٹا الزام
ہے جو اس صاحبِ علم پر لگایا جاتا ہے۔ ربیع الاول کی مناسبت سے ہم ان کی
ایک تحریر کے کچھ اقتباسات یہاں پیش کررہے ہیں۔ اس تحریر کو پڑھ کر کوئی
بھی باضمیر اور انصاف پسند فرد مولانا مودودی مرحوم پر ایسا الزام لگانے کا
نہیں سوچ سکتا اور رہے وہ لوگ جنہیں ہر حال میں صرف تنقید ہی کرنی ہے تو ان
کے لئے ہم صرف دعا ہی کرسکتے ہیں۔
اللہ اور اس کے ملائکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں ۔اے
لوگوں! جو ایمان لائے ہو، تم بھی ان پر درود و سلام بھیجو ۔
اللہ کی طرف سے اپنی نبی پر صلوۃ کا مطلب ہے کہ وہ آپﷺ پر بے حد مہربان ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف فرماتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کام
میں برکت دیتا ہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام بلند کرتا ہے اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم پر اپنی رحمت کی بارش فرماتا ہے۔ملائکہ کی طرف سے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا مطلب یہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے
غایت درجے کی محبت رکھتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں اللہ سے
دعا کرتے ہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زیادہ سے زیادہ بلند مرتبے
عطا فرمائے اور آپ کے دین کو سربلند کرے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو
فروغ بخشے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام محمود پر پہنچائے۔سیاق و سباق
پر نگاہ ڈالنے سے صاف محسوس ہوجاتا ہے کہ اس سلسلہ بیان میں یہ بات کس لئے
ارشاد فرمائی گئی ہے۔ وقت وہ تھا کہ جب دشمنانِ اسلام دینِ مبین کے فروغ پر
اپنے دل کی جلن نکالنے کے لئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف الزامات کی
بوچھاڑ کر رہے تھے اور اپنے نزدیک یہ سمجھ رہے تھے کہ اس طرح کیچڑ اچھال
کر(نعوذ باللہ ) وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس اخلاقی اثر کو ختم کردیں
گے جس کی بدولت اسلام اورمسلمانوں کے قدم روز بروز بڑھتے چلے جارہے ہیں۔ ان
حالات میں یہ آیت نازل کر کے اللہ تعالیٰ نے دنیا کو یہ بتایا کہ کفار و
مشرکین اور منافقین میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدنام کرنے اور نیچا
دکھانے کی جتنی چاہیں کوشش کر دیکھیں،آخر کار وہ منہ کی کھائیں گے۔ اس لئے
کہ میں اس پر مہربان ہوں اور ساری کائنات کا نظم و نسق جن فرشتوں کے ذریعے
چل رہا ہے وہ سب اس صلی اللہ علیہ وسلم کے حامی و ثنا خواں ہیں۔ وہ اس کی
مذمت کر کے کیا پاسکتے ہیں جبکہ اُس کا نام بلند کررہا ہوں اور میرے فرشتے
اس کی تعریفوں کے چرچے کر رہے ہیں۔ وہ اپنے اوچھے ہتھیاروں سے اس کا کیا
بگاڑ سکتے ہیں جبکہ میری رحمتیں اور برکتیں اس کے ساتھ ہیں اور میرے فرشتے
شب و روز دعا کر رہے ہیں کہ رب العالمین ،محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ
اور زیادہ اونچا کر اور اس کے دین کو اور زیادہ فروغ دے۔
دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ ’’ اے لوگوں جن کو محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی بدولت راہِ راست نصیب ہوئی ہے تم ان کی قدر پہچانو اور
ان کے احسانِ عظیم کا حق ادا کرو۔تم جہالت کی تاریکیوں میں بھٹک رہے تھے۔
اس شخص نے تمہیں علم کی روشنی دی۔ اخلاق کی پستیوں میں گرے ہوئے تھے اس شخص
نے تمہیں اٹھایا اور قابل بنایا کہ آج محسودِ خلائق بنے ہوئے ہو۔تم وحشت
اور حیوانیت میں مبتلا تھے۔ اس شخص نے تم کو بہترین انسانی تہذیب سے آراستہ
کیا،کفر کی دنیا اسی لئے اس شخص پر خار کھا رہی ہے کہ اس نے یہ احسانات تم
پر کئے ،ورنہ اس نے کسی کے ساتھ ذاتی طور پر کوئی برائی نہ کی تھی۔ اس لئے
اب تمہاری احسان شناسی کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ جتنا بغض وہ اس خیر مجسم
صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف رکھتے ہیں اسی قدر بلکہ اس سے زیادہ تم اس کے
گرویدہ ہوجائے،جتنی وہ اس کی مذمت کرتے ہیں اتنی ہی بلکہ اس سے زیادہ تم اس
کی تعریف،جتنے وہ بدخواہ ان کے بدخواہ ہیں اتنے ہی بلکہ اس سے زیادہ تم ان
کے خیر خواہ بنو اور ان کے حق میں وہ دعا کرو جو اللہ کے فرشتے شب و روز اس
کے لئے کر رہے ہیں کہ ’’ اے ربِّ دو جہاں،جس طرح تیرے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم نے ہم پر بے پایاں احسانات فرمائے ہیں، تو بھی ان پر بے حدوحساب رحمت
فرما ۔ان کا مرتبہ دنیا میں بھی سب سے زیادہ بلند کر اور آخرت میں بھی
انہیں تمام مقربین سے بڑھ کر تقرب عطا فرما۔
سلام کا لفظ بھی دو معنیٰ رکھتا ہے ایک ہر طرح کی آفات اور نقائص سے محفوظ
رہنا جس کے لئے ہم اردو میں سلامتی کا لفظ بولتے ہیں۔دوسرے صلح و اور عدم
مخالفت۔پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں سَلِّمُو تَسلِیماً کہنے کا
ایک مطلب یہ ہے کہ تم ان کے حق میں کام سلامتی کی دعا کرو اور دوسرا مطلب
یہ ہے کہ تم پوری طرح دل و جان سے ان کا ساتھ دو،ان کی مخالفت سے پرہیز کرو
اور ان کے سچے فرمانبردار بن کر رہو۔۔۔۔۔باقی رہی درود کی فضلیت اور اس کا
موجب اجرو ثواب ہونا اور اس کا ایک بڑی نیکی ہونا تو اس پر ساری امت متفق
ہے۔ اس میں کسی ایسے شخص کو کلام نہیں ہوسکتا جو ایمان سے کچھ بھی بہرہ
رکھتا ہوں۔درود تو فطری طور پر ہر اُس مسلمان کے دل سے نکلے گا جسے یہ
احساس ہو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے بعد ہمارے سب سے بڑے
محسن ہیں۔ اسلام اور ایمان کی جتنی قدر انسان کے دل میں ہوگی،اتنی ہی زیادہ
قدر اس کے دل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کی بھی ہوگی اور جتنا
زیادہ آدمی ان احسانات کا قدر شناس ہوگا،اتنا ہی وہ حضور صلی اللہ علیہ
وسلم درود بھیجے گا۔ پس درحقیقت کثرتِ درود ایک پیمانہ ہے جو ناپ کر بتا
دیتا ہے کہ دینِ محمد سے ایک آدمی کتنا گہرا تعلق رکھتا ہے اور نعمتِ ایمان
کی کتنی قدر اس کے دل میں ہے ۔ اسی بنا پر نبی صلی اللہ علیہ نے فرمایا ہے
ترجمہ ’’جو شخص مجھ پر درود بھیجتا ہے ملائکہ اس پر درود بھیجتے رہتے ہیں
جب تک وہ مجھ پر درود بھیجتا رہے۔(احمد و ابن ماجہ ) ۔
جو شخص مجھ پر ایک بار درود بھیجتا ہے اللہ اس پر دس بار درود بھیجتا
ہے۔(مسلم) ۔
قیامت کے روز میرے ساتھ رہنے کا سب سے زیادہ مستحق وہ ہوگا جو مجھ پر سب سے
زیادہ درود بھیجے گا۔(ترمذی)
بخیل ہے وہ شخص جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ مجھ پر درود نہ
بھیجے۔(ترمذی )
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں سے فرمایا ہے کہ مجھ پر درود بھیجنے کا
بہترین طریقہ یہ ہے کہ تم اللہ تعالیٰ سے دعا کرو کہ ’’اے اللہ ،تو محمد
صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیج۔‘‘ نادان لوگ جنہیں شعور نہیں ہے اس پر
فوراً اعتراض جڑ دیتے ہیں کہ یہ تو عجیب بات ہوئی،اللہ تعالیٰ تو ہم سے
فرما رہا ہے کہ تم میرے نبی پر درود بھیجو مگر ہم الٹا اللہ سے کہتے ہیں کہ
تو درود بھیج۔ حالانکہ دراصل اس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو یہ
بتایا ہے کہ تم مجھ پر ’’صلوٰۃ ‘‘ کا حق ادا کرنا بھی چاہو تو نہیں کرسکتے
اس لئے اللہ ہی سے دعا کرو کہ وہ مجھ پر ’’صلوٰۃ‘‘ فرمائے۔ظاہر سی بات ہے
کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مراتب بلند نہیں کرسکتے، اللہ ہی بلند
کرسکتا ہے۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کا بدلہ نہیں دے
سکتے،اللہ ہی ان کا اجر دے سکتا ہے۔ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے رفع ذکر
کے لئے اور آپ کے دین کو فروغ دینے کے لئے خواہ کتنی ہی کوشش کریں ۔اللہ کے
فضل اور اس کی توفیق و تائید کے بغیر اس میں کامیابی نہیں ہوسکتی حتیٰ کہ
حضور کی محبت و عیقدت بھی ہمارے دل میں اللہ ہی کی مدد سے جاگزیں ہوسکتی
ہے۔ ورنہ شیطان نہ معلوم کتنے وساوس دل میں ڈال کر ہمیں آپ صلی اللہ علیہ
وسلم سے منحرف کرسکتا ہے۔اعاذ نا للہِ من ذالک۔ لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ
وسلم پر صلوٰۃ کا حق ادا کرنے کی کوئی بھی صورت اس کے سوا نہیں ہے کہ اللہ
سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پر صلوٰۃ کی دعا کی جائے۔ جو شخص اللھم صلی
علیٰ محمد کہتا ہے وہ گویا اللہ کے حضور اپنے عجز کا اعتراف کرتے ہوئے عرض
کرتا ہے کہ ’’خدایا، تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ کا جو حق ہے اسے
ادا کرنا میرے بس میں نہیں ہے ،تُو ہی میری طرف سے اس کو ادا کر اور مجھ سے
اس کے ادا کرنے میں جو خدمت چاہے لے لے۔
قارئین کرام یہ تحریر اس بات کی گواہ ہے کہ مولانا مودودی مرحوم ومغفور اور
ان کی جماعت کے کارکنان نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کے
خلاف نہیں ہیں اور نہ ہی درود سلام کے منکر ہیں لیکن تفرقہ پھیلانے کے لئے
عام مسلمانوں میں ایسی باتیں پھیلائی جاتی ہیں تاکہ لوگ آپس میں باہم دست و
گریبان رہیں اور ان کے درمیان غلط فہمیاں رہیں تاکہ سیکولر اور لادین عناصر
اپنا کام کرتے رہیں اور ان کی طرف کسی کا دھیان نہ جائے۔ سوچیں اور غور
کریں۔ |