ہم اس لیے تلاوت کرتے ہیں

میں اور میرا وہی دوست جس نے مجھے" ہم تلاوت کیوں کریں"لکھنے پہ اکسایا تھا،دونوں ایک مشترکہ دوست کی عیادت کو پہنچے تو وہ دوست بستر پہ دراز کراہ رہا تھا۔ہم نے اس سے تھوڑی سی گپ شپ کے بعد اجازت چاہی تو اس نے تھوڑی دیر اور رکنے کی درخواست کی۔اب چونکہ وہ بیمار تھا ،ناچار رکنا پڑا۔بات چیت دوبارہ شروع ہوئی تو اس کالم کا بھی ذکر آیا اور اس پہ آنے والے قارئین کے جذبات و تاثرات کا بھی۔بیمار دوست نے رائے دی کہ ہمارے ملک میں عدم برداشت کا یہ حال ہے کہ ہم بات نہ تو سنتے ہیں اور نہ سمجھتے اس پہ اپنی ناراضگی کا اظہار پہلے کر دیتے ہیں۔اسلام ایک زندہ دین ہے جو ہر ایک چیز میں تفکر اور تدبر کی دعوت دیتا ہے۔اقبال نے جواب شکوہ میں یہی تو بتایا تھا کہ
کوئی قابل ہو تو ہم شان ِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں

آج امت مسلمہ میں جمود کا یہ عالم ہے کہ اگر کوئی ہم سے ایسا سوال پوچھ لے جس کا جواب ہمارے پاس نہ ہو تو ہم تحقیق کرنے کی بجائے پستول نکال لیتے ہیں۔اکساؤ دوست بڑے معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا۔بھائی! بحمداللہ میں مسلمان ہوں اور میں نے تو اس غرض سے یہ سوال کیا تھا کہ اس کا کوئی نہ کوئی جواب کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی کے پاس تو ہوگا۔میں یہ بات تو بخوبی جانتا ہوں اور میرا اس مکمل اور کامل ایمان ہے کہ حضور ختمی مرتبت ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ تم میں بہترین وہ ہے جو خود قرآن پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے۔آپ ﷺ ہی کے فرمان کے مطابق ایک حرف پڑھنے والے کو دس نیکیاں عطا ہوتی ہیں۔ قرآن پاک کلام الہی ہے اور انسانوں کے لئے ضابطہ حیات۔ اس سے مجھے کب انکار ہے؟ لیکن میرا سوال تو یہ تھا کہ اللہ کریم کے اس کلام کو بغیر سمجھے پڑھے جانا۔ کیا کتاب نازل کرتے وقت ہمارے رب کی منشاء یہی تھی؟کیا وہ صرف ہم سے یہ چاہتا تھا کہ ہم اسے بغیر سوچے سمجھے بس دھراتے جائیں۔ یا وہ چاہتا تھا کہ اس کے نبی کی امت اس سے ہمکلامی کا شرف حاصل کرے؟

اس گفتگو کے دوران میں تو بس ایک قاری کا تجویز کردہ ورد "اھدنا الصراط المستقیم "ہی کرتا رہا۔یہ باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک اور صاحب بھی اس بیمار دوست کی عیادت کو آپہنچے ۔ باشرع داڑھی اور ہاتھ میں تسبیح،آئے ,سلام کیا اور ایک طرف بیٹھ گئے۔ہماری گفتگو میں ان کے آنے سے ہلکا سا وقفہ تو آیا لیکن بات دوبارہ وہیں سے شروع ہوئی جہاں سے سلسلہ ان کے آنے سے ٹوٹ گیا تھا۔ انہوں نے جب ہماری گفتگو سنی تو فرمانے لگے کہ اللہ کا کلام سمجھ کے پڑھا جائے تو انسان کی زندگی بدل دیتا ہے کہ اس میں تو ہے ہی حکمت و دانائی۔ کیا ہے جو اس میں موجود نہیں۔اپنے پڑھنے اور سمجھنے والوں کو وہ نہ صرف زمینی بلکہ آفاقی سوالوں سے بھی آگاہی دیتا ہے۔ قرآن تو اللہ کے بندوں کو اللہ سے ملا دیتا ہے۔دنیا کا کونسا ایسا علم ہے جو قرآن میں موجود نہیں۔میرے دوست کا کہنا تھا کہ میرا بھی یہی ماننا ہے کہ قرآن خود مکالمہ کرتا ہے لیکن اس کے ساتھ جو اسے سمجھ کے پڑھے۔اب ایک آدمی جسے ترکی زبان نہ آتی ہو اسے ترکی کی سب سے جامع کتاب دے دیں۔ وہ اسے یاد بھی کر لے اور صبح وشام اسے دھراتا بھی رہے۔ کیا اسے وہ بہت علمی کتاب کچھ فائدہ دے گی؟اس کتاب سے فائدہ اٹھانے کے لئے ترکی زبان کا آنا میرے خیال میں بہت ضروری ہے۔

بات دوبارہ اسی نہج پہ جارہی تھی۔اب کی بار میں سوچ رہا تھا کہ جس طرح میں نے سیاسی کالمز لکھنے سے توبہ کی ہے ۔مذہبی اور سماجی کالمز سے بھی توبہ کرتا ہوں کہ یہ تو اس سے بھی مشکل کام ہے۔ سیاست میں لوگ کم از کم وارننگ تو دیتے ہیں یہاں تو بغیر وارننگ ہی بندہ کھڑک جاتا ہے۔ یعنی
جس کو ہو جان و دل عزیز
ان کی گلی میں جائے کیوں

میں چپ تھا۔ میرا بیمار دوست اور وہ اپنا سا اجنبی ایک طرف اور میرا یہ مشکل پسند دوست دوسری طرف۔ معاملہ بڑھتا ہی جا رہا تھا۔ مشکل پسند سارے حوالے مانتا تھا۔ قرآن کے فضائل پہ اپنے ایمان کو بھی بار بار دھراتا تھا ۔ اس کا مگر کہنا تھا کہ بغیر سمجھے تلاوت انسان کو جنت میں تو لے جائیگی کہ یہ میرے آقاﷺ کا فرمان ہے لیکن اس دنیا میں بغیر سمجھے تلاوت سے انسان کی زندگی میں کوئی بدلاؤ نہیں آسکتا۔اب یہاں ایک ایسی بات ہو گئی جس کا مجھے شروع ہی سے ڈر تھا۔ وہ اجنبی اچانک ساری متانت ایک طرف رکھ کے میرے دوست سے کہنے لگا کہ آپ کا تعلق مجھے کسی نیچ خاندان سے لگتا ہے اس لئے آپ عقل کی بات سمجھ ہی نہیں رہے۔ یہ سننا تھا کہ میرے دوست نے اس اجنبی کا گریبان پکڑ لیا۔ اس کے منہ سے کف بہنے لگا۔ اس کی آنکھیں لال ہو گئیں۔ ہم دونوں نے بھی اجنبی کی اس بات کا برا منایا لیکن یہ کیا وہ تو فوراَ ہی مسکرانے لگے۔ پہلے تو انہوں نے میرے مشکل پسند دوست سے معافی مانگی اور پھر کہنے لگے کہ میں نے یہ فقرہ غصے میں نہیں آپ کو سمجھانے کے لئے کہا تھا۔ پھر وہ بڑی محبت اور رسان سے بولے۔ بھائی یہ میرا کلام تھا جسے سن کے آپ کا خون کھول گیا ۔آپ کا بلڈ پریشر بڑھ گیا اور آپ مرنے مارنے پہ تل گئے۔ اس کلام میں سچائی بھی نہیں تھی۔ میں جانتا ہوں کہ آپ کا تعلق ایک معزز خاندان سے ہے۔اب آپ ہی بتائیں کہ اللہ کا سچا کلام اگر کسی جگہ پڑھا جائے گا تو وہ کیا اپنے ماحول پہ اثر پذیر نہیں ہو گا۔اور جہاں تک اس کو سمجھ کے پڑھنے اور نہ سمجھ کے پڑھنے کا تعلق ہے تو اس بات پہ میں آپ سے اس حد تک متفق ہوں کہ مسلمان کے لئے یہ کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ اس کے پاس اس کے محبوب کا خط ہو۔ وہ اسے بار بار پڑھ تو رہا ہو لیکن سمجھ نہ سکے تو جانو کہ اس کی محبت خام ہے۔ لیکن کلام الہی کا کمال یہ ہے کہ اسے سمجھ کے پڑھو تو یہ آپ کو انسانیت کی معراج پہ لے جاتا ہے۔ لیکن جو اسے بغیر سمجھے بس پڑھے جاتے ہیں ان کی بھی یہ اندر کی میل تو اصاف کر ہی دیتا ہے۔ اس کے لئے انہوں نے وہی قصہ بیان کیا جو میرے ایک قاری نے بھی اپنے تاثرات میں لکھا ہے۔ آپ کہیں گے تو وہ قصہ بھی میں لکھ ہی دونگا ۔ اس سے قبل مجھے یہ مشورہ ضرور دیجیئے کہ کیا اس دور میں ہم تفہیم دین کے لئے مکالمہ کر سکتے ہیں؟ کیا وہ سوال جو ہمیں اندر ہی اندر پریشان کرتے ہیں پوچھنے چاہئیں یا ہمیں خاموش رہ کر اپنی جان بچا لینی چاہیے۔ آپ کی آراء ہی مجھے صحیح راہ کی طرف راہنمائی کر سکیں گی۔
Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 268266 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More