جسٹس ثاقب نثار کیسے یاد رکھے جائیں گے؟

پاکستان کی سپریم کورٹ کے 25 ویں چیف جسٹس ثاقب نثار جمعرات کو اپنے منصب سے سبکدوش ہوگئے ہیں۔

جسٹس ثاقب نثار دو سال 18 دن چیف جسٹس کے منصب پر فائر رہے۔ بطور چیف جسٹس انہوں نے کرپشن، قتل و غارت گری، دہشت گردی، حکومت کی مبینہ نااہلی اور لاقانونیت کے خلاف اہم مقدمات کا فیصلہ سنایا۔

وائس آف امریکہ کے مطابق سابق چیف جسٹس کے فیصلوں نے ملکی سیاست، تاریخ اور حکومت سازی پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ ان کے دور میں کرپشن، دہری شہریت اور عدلیہ مخالف تقاریر کئی سیاست دانوں کو لے ڈوبیں جس سے ایک طبقہ تو بہت خوش ہوا لیکن بعض حلقے چیف جسٹس کو ان کے فیصلوں کی بنیاد پر تنقید کا نشانہ بھی بناتے رہے۔

انسانی حقوق کے مسائل بھی سابق چیف جسٹس کے ایجنڈے پر سرِ فہرست رہے۔ انہوں نے بطور چیف جسٹس قبضہ مافیا کے خلاف گھیرا تنگ کیا اور کرپشن کی طرف بھی حکومت کی توجہ مبذول کرائی۔ لیکن ان کے دور میں ماتحت عدلیہ اور سپریم کورٹ میں زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانے کی جانب کوئی خاصی پیش رفت نہ ہوسکی۔

سابق چیف جسٹس کی جانب سے غیر معمولی تعداد میں از خود نوٹسز لینے پر بھی تنقید ہوتی رہی۔ دو سال کے دوران انہوں نے 29 ازخود نوٹس لیے جن میں سب سے پہلا نوٹس کراچی میں شاہزیب قتل کیس کے ملزم شاہ رخ جتوئی کی رہائی پر تھا۔

اکتیس دسمبر 2016ء کو عدالتِ عظمی کے چیف جسٹس کا عہدہ سنبھالنے کے بعد جسٹس ثاقب نثار نے ملکی تاریخ کے سب سے بڑے سیاسی مقدمے پاناما لیکس پر بینچ تشکیل دیا۔

پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کی تاحیات نااہلی اور انہیں مسلم لیگ (ن) کی صدارت سے ہٹانے کا فیصلہ بھی جسٹس ثاقب نثار نے سنایا جس نے پاکستانی سیاست میں ہلچل مچائی۔

سابق چیف جسٹس نے پاکستان کے موجودہ وزیرِ اعظم عمران خان اور ان کے وزیر شیخ رشید کی اہلیت کے حق میں فیصلہ دیا جب کہ تحریکِ انصاف کے جہانگیر ترین اور ن لیگ کے سینیٹر ہارون اختر اور سینیٹر سعدیہ عباسی کو نااہل قرار دیا۔

وی آئی پی موومنٹ کے دوران صرف دو منٹ کے لیے سڑک بند کرنے، سیاسی شخصیات کی تصویر والے اشتہارات پر پابندی، موبائل کارڈز پر وصول کیے جانے والے ٹیکسوں کی معطلی، توہینِ رسالت کی مبینہ ملزمہ آسیہ بی بی کی بریت، پانچ ہزار سے زائد فیس لینے والے نجی اسکولوں کو فیس میں 20 فی صد کمی کرنے، استحقاق نہ رکھنے والوں سے سرکاری سکیورٹی واپس لینے، ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی کی روک تھام، دہری شہریت رکھنے والوں کو سرکاری عہدوں پر تعینات نہ کرنے، زیرِ زمین پانی کے استعمال پر منرل واٹر کمپنیوں سے فیس کی وصولی اور قبضہ مافیا کے خلاف آپریشن جسٹس ثاقب نثار کے وہ اہم فیصلے ہیں جن کے باعث وہ یاد رکھے جائیں گے۔

لیکن ان کے کئی فیصلوں کو دیگر ریاستی اداروں کے کام میں مداخلت بھی تصور کیا گیا۔

بدھ کو بینچ میں اپنے آخری روز بھی چیف جسٹس ثاقب نثار نے دو اہم فیصلے سنائے۔ انہوں نے گلگت بلتستان کے عوام کو بنیادی آئینی حقوق فراہم کرنے کا حکم دیا۔

ثاقب نثار نے بطور چیف جسٹس اپنا آخری فیصلہ 18 ویں آینی ترمیم سے متعلق سنایا اور کراچی کے تین بڑے اسپتالوں اور قومی عجائب گھر کا انتظام 90 روز میں وفاق کو منتقل کرنے کی ہدایت کی۔

مئی 2018ء تک سپریم کورٹ میں زیر التوا مقدمات کی تعداد 38 ہزار تھی جو دسمبر 2018ء تک 40 ہزار تک جا پہنچی۔ گزشتہ پانچ برسوں میں عدالتِ عظمیٰ میں زیرِ التوا مقدمات میں 100 فی صد اضافہ ہوا۔ اس وقت پاکستان کی مختلف عدالتوں میں 19 لاکھ مقدمات زیرِ التوا ہیں جنہیں سننے کے لیے ملک میں کل تین ہزار جج ہیں۔

حزبِ اختلاف کی جماعتوں اور ناقدین کا مؤقف ہے کہ سبکدوش چیف جسٹس ثاقب نثار کو ہسپتالوں کے دورے کرنے کے بجائے ماتحت عدلیہ میں زیرِ التوا مقدمات کو نمٹانے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے تھی۔

سابق چیف جسٹس نے کئی مقدمات کی سماعت کے دوران سماعت سیاسی رہنماؤں اور وکیلوں کے ساتھ مبینہ طور پر ناروا رویہ بھی اختیار کیا جس پر ان پر تنقید ہوتی رہی۔

YOU MAY ALSO LIKE:

Mian Saqib Nisar, the outgoing chief justice, leaves behind a mixed legacy as his controversial tenure was a blend of high-profile verdicts and judicial activism, which drew criticism from various segments of the society.