کرائمز کا خاتمہ ۔۔۔ اسلامی سزاؤں کا نفاذ ہے

موٹر سائیکل سوار مسلح افراد کارسوار کے پاس آئے اور اسے اسلحہ کے زور پر یرغمال بنا کر باآسانی فرار ہونے میں کامیاب ،لاہور کے پر رونق علاقے انارکلی میں موٹرسائیکل سوارملزمان پلک جھپکتے میں شاپنگ کیلئے آنے والی ایک خاتون سے اس کا پرس چھین کر فرار ہوگئے،شہری نقدی اور قیمتی موبائل فون سے محروم ہوگیا۔

ایسی خبروں سے روزانہ اخبارات بھرے ہوئے ہوتے ہیں لیکن سوال یہاں یہ اٹھتا ہے کہ آخر سیکورٹی اور شہروں کے جان و مال کی حفاظت کے لئے بنائی گئی فورسسز کا کیا کام ہے؟۔عوام کے پیسوں سے انہیں جدید تربیت سے آراستہ کرنے کے با وجود عوام ہی سرعام لٹ رہی ہے۔حالانکہ شہروں میں جگہ جگہ پویس ناکے لگے ہوئے ہو تے ہیں۔لیکن یہ ناکے بھی شریف شہریوں کو تنگ کرنے کے لئے ہیں بے چارے موٹر سائیکل سواروں کو ہر ناکے پر خواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو دوسری جانب اصل مجرم قانون کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے دنداناتے ہوئے گزر جاتے ہیں۔سابق وزیر اعلی ٰپنجاب شہباز شریف نے کروڑوں روپے لاگت سے لاہور میں سیف سٹی پروجیکٹ کا آغاز کیا تھا ۔جس کے نتیجے میں دہشت گردی کی کاروائیوں میں کمی واقع ہو گئی لیکن دوسری جانب لاہور سمیت بڑے شہروں میں سٹریٹ کرائمز کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا۔گلیوں،محلوں میں بڑھتی واردوتوں کے سدباب کے لئے ڈولفن و دیگر اسپیشل فورسسز کا قیام عمل میں لایا گیا مگر بے سود۔وہ بھی ان جرائم کو روکنے میں ناکا م دکھائی دیتی ہیں۔ جرائم پیشہ افراد نے شہریوں کا جینا دوبھر کردیا ہے، شہر کی گلیوں اور سڑکوں پر مسلح افراد کھلے عام شہریوں کو اسلحہ کے زور پر لوٹ لیتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارکردگی پریس کانفرنسوں تک محدود ہے۔صورت حال کے مطابق ہر تین گھنٹے کے بعد ایک واردات ہو جاتی ہے،راہزنی اور چوری کی ہزار وارداتوں کی رجسٹریشن ہوئی اور جن وارداتوں کی ایف آئی آر ہی نہیں کٹی ان کی تعداد بھی سینکڑوں میں ہے۔ صرف کراچی میں سال 2018ء کے دوران امن و امان کی مجموعی صورت حال میں بہتری کے باوجود اسٹریٹ کرائم کی وارداتوں میں خطرناک حد اضافہ ہوگیا ہے۔شہرمیں 2017ء میں اسٹریٹ کرائم ریٹ 156تھا جو 2018ء میں بڑھ کر 171سے تجاوز کر گیا تھا۔اسٹریٹ کرائم میں کار، موٹر سائیکلیں اور موبائل فون چوری اور چھیننے کی وارداتیں شامل ہیں۔ دکانوں کے تالے توڑ کر لوٹ مار کی جارہی ہے پولیس میں موجود کالی بھیڑیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھورہی ہیں۔ لیکن پولیس کی ساری توجہ ون وے کی خلاف ورزی ہیلمٹ نہ پہننے پر کارروائی اور موٹرسائیکلوں کی ہیڈلائٹس کو چیک کرنے پر ہی مرکوز ہے ۔ دن کا اجالا ہو یا رات کا اندھیرا جرائم پیشہ افراد سے کسی وقت بھی کوئی شخص محفوظ نہیں ہے۔ سر عام لوٹ مار کی مسلسل ہونے والی وارداتیں انتظامیہ کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ سال لاہور میں جرائم کی شرح میں بد ترین اضافہ ہوا۔ شہر میں بچوں کے اغواء کے واقعات سے لیکرقتل کی وارداتوں نے شہریوں کو خوف وہراس میں مبتلا کر رکھا ہے ۔ ایک علاقے میں ڈکیتی مزاحمت پر باپ بیٹے سمیت چار افراد قتل ہوگئے ایک اور واردات میں کپڑے کی دکان میں ڈاکوؤں نے گھس کر ڈھائی لاکھ روپے اورخواتین کازیور چھین لیا۔ ٹریفک سگنل پر مسلح افراد نے کار سوار خاندان کو یرغمال بنا کر لوٹ لیا۔ جبکہ اسٹریٹ کرائمز کی وارداتوں تک پولیس اب تک کسی بھی جرائم پیشہ گروہ کر پکڑنے میں ناکام رہی ۔جبکہ سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کی بھرمار کے باعث صوبہ بھر کے عوام عدم تحفظ کا شکار ہیں اور حکام بالا زبانی جمع خرچ کے سوا کچھ کرنے میں ناکام ہیں۔ملک کی نصف سے زائد آبادی والے صوبہ پنجاب میں عوام سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں کے باعث شدید خوف کا شکار ہیں۔لاہور‘ راولپنڈی‘ فیصل آباد‘ ملتان‘ گوجرانوالہ‘ سیالکوٹ‘ ساہیوال‘ سرگودھا سمیت صوبہ بھر میں گزشتہ کچھ عرصہ کے دوران سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں میں اس قدر اضافہ ہوا ہے کہ کئی ریکارڈ ٹوٹنے لگے ہیں مگر اس کے باوجود پنجاب پولیس سب اچھا ہے کی رپورٹ کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ پنجاب پولیس کے کرائمز ڈیٹا‘ مقدمات کے اندراج اور خود پولیس کے ہی ون فائیو و سپیشل برانچ کی رپورٹوں میں ہی بہت زیادہ تضاد پایا جا تا ہے۔پنجاب کے عوام ایک طرف تو سٹریٹ کرائمز کے ہاتھوں تنگ ہیں تو دوسری جانب عوام کو یہ مشکل بھی درپیش ہے کہ ان کے مقدمات ہی درج نہیں کئے جاتے۔ون فائیو اور دیگر ایمرجنسی پوائنٹس پر اطلاع کے باوجود پولیس سٹریٹ کرائمز کی وارداتوں پر اندراج مقدمہ سے گریزاں رہتی ہے۔ سٹریٹ کرائمز کی صرف 25سے 30فیصد وارداتوں کے مقدمات ہی درج ہو پاتے ہیں جبکہ دیگر کے متاثرین کو پولیس خوار ہی کرتی رہتی ہے اس صورتحال کے باعث شہری اپنی نقل و حرکت محدود کرنے پر مجبور ہیں۔ایک خفیہ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں جرائم کی شرح میں 110 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ سیاسی پشت پناہی رکھنے والے بعض پولیس افسران اور اہلکار بھی اشتہاریوں کو تحفظ دے رہے ہیں۔ کئی خطرناک مجرموں کو بھی ملی بھگت کرکے چھوڑ دیا گیا ہے۔ جرائم کی شرح کے حوالے سے لاہور سرفہرست ہے جبکہ فیصل آباد دوسرے، ملتان تیسرے، راولپنڈی چوتھے، ڈیرہ غازی خان پانچویں، اوکاڑہ چھٹے اور گجرات ساتویں نمبر پر ہے۔ پنجاب میں روازانہ 150 سے 200 گاڑیاں، 500 سے 600 موٹر سائیکل اور 3 ہزار سے زائد موبائل فونز چھینے جا رہے ہیں۔ 2017ء کے مقابلے میں 2018ء میں پنجاب میں کرائم کی شرح میں مجموعی طور پر 7 فیصد اضافہ ہوا ۔ صوبائی دارالحکومت میں کرائم کی شرح میں 8 فیصد تک اضافہ ہوا ہے جس سے محکمہ پولیس کی کارکردگی بہتر ہونے کے دعووں کا پول بھی کھل گیا ہے پولیس اور سیاست دانوں کے کارندوں نے اپنے اپنے گروہ بنائے ہوئے ہیں۔ایک خبر کے مطابق پولیس افسروں کے بعض نورچشم بھی جرائم میں ملوث ہیں۔ وہ نہ صرف ڈکیتی کی وارداتیں کرتے رہے بلکہ قتل کی وارداتوں میں ملوث پائے گئے ہیں۔ یہ وباء کراچی تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بعض حلقوں کے پنجاب میں بھی ایسے جرائم کے گروہ موجود ہیں۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزردار جہاں اور امور کی طرف بھرپور توجہ دے رہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اب پولیس کا کردار ماضی کے مقابلہ میں مختلف عوام کے سامنے آئے گا وہ بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائم پر بھی توجہ دیں تاکہ معاشرہ کا ناسور جرائم پیشہ گروہوں کی شکل میں مافیا کا کردار ادا کر رہے ہیں اس مافیا سے نجات دلا ئیں تاکہ عوام سکھ کا سانس لے سکے۔یہ بھی دیکھنے میں آرہا ہے کہ پولیس والے اپنی کارکردگی بہتر ظاہر کرنے کیلئے ان وارداتوں کے مقدموں کا اندراج ہی نہیں کرتے تاکہ اعلی افسران کو بھیجوائی جانیوالی رپورٹس میں پولیس کی کارکردگی بہتر دیکھائی دے ۔شہریوں کو تھانوں میں خوار کیا جارہا ہے اور تھانوں کے ایس ایچ اوز کی جانب سے مقدمات کے اندارج کے حوالے ٹال مٹول کا سلسلہ جاری ہے کرنی چاہیے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ اعلی پولیس افسران کو کھلی کچہریوں کا انعقاد کرنا چاہیے تاکہ سائلین کے مسائل حل ہو سکے۔ ماضی میں ہونیوالی کھلی کچہریوں کے انعقاد سے ماتحت پولیس اہلکاروں کی کارکردگی میں بہتر آئی تھی اور شہریوں کے مسائل میں کسی حد تک کمی واقع ہوئی تھی۔لیکن صورتحال یہ ہے کہ اگر آپ اپنی رپورٹ درج کروانے تھانے جاتے ہیں تو تھانے میں داخل ہوتے ہی آپکو پولیس اہلکاروں کے نامناسب روئیے کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ شہروں میں بڑھتے ہوئے سٹریٹ کرائمز اور جرم کی وارداتوں کی روک تھام کے لئے لازمی ہو گیا ہے کہ سخت سے سخت سزاؤں کا نفاذعمل میں لایا جائے اور جرم کو روکنے کی لئے اسلامی سزا وقت کا تقاضاہے کہ چوری کرنے والے کا ہاتھ کاٹ دیا جائے اور مجرموں کو سر عام سزا دی جائے جو دوسروں کے لئے باعث عبرت ہو۔

Haji Muhammad Latif Khokhar
About the Author: Haji Muhammad Latif Khokhar Read More Articles by Haji Muhammad Latif Khokhar: 141 Articles with 97598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.