خ ۔ت۔م۔۔۔ــ’’ختم‘‘

اردوزبان میں خ ت م تین لفظ زندگی کے بہت سے پہلوؤں کا احاطہ کرتے ہیں کیونکہ اگر ان لفظوں کو اکٹھا کر لیا جائے تو ختم کا لفظ بن کر سامنے آتا ہے اس لفظ کی اہمیت امیروں کی زندگی میں ’’دود ھ سے مکھی نکالناــ‘‘جبکہ غریب کی زندگی میں’’دیکھی مکھی نگلنا‘‘ہوتاہے۔ جی ہاں جب غربت انسان کا مقدر ہو تو اُسے ہر چیز ختم ہوتی نظر آتی ہے اول تو غریب کی زندگی میں سب کچھ ختم ہوتا ہے لیکن جب وہ بازار سے کچھ خریدنے کا سوچتا ہے تو ــجیب میں پیسے ’’ختم‘‘۔۔۔۔گھرمیں سکون کیلئے آئے چائے پینے کا دل کرے تو چائے ختم،پتی ختم،چینی ختم۔۔۔۔۔کچھ جمع پونجی اگر ہو تو سوچ سوچ کر غریب کی سوچ’’ ختم‘‘۔۔۔۔بجلی کا بل آجائے تو پیسے جمع جمع کرتے کرتے بل کی آخری ڈیٹ ’’ختم‘‘۔۔۔۔۔بچے اگرسکول داخل کرابھی دیئے ہوں تو داخلہ جمع کرانے کی آخری ڈیٹ ’’ختم‘‘۔۔۔۔۔

غریب قرضہ لینے کیلئے کسی سود خور کے ہتھے چڑھ جائے تو قسطیں بھرتے بھرتے زندگی بھر کا سکون ’’ختم‘‘۔۔۔۔۔امیروں میں کوئی بیمار ہوجائے تو ہسپتال میں افسروں کے ساتھ جان پہچان اور پیسے کی چمک سے ہر قسم کی دوائی دستیاب ہوجاتی ہے غریب کی اولاد بیمار ہو تو ہسپتال میں 5روپے والی سرنج ’’ختم‘‘ ۔۔۔۔سردرد کی گولی ’’ختم‘‘۔۔۔۔زخم پر لگانے کیلئے پاؤڈین ’’ختم‘‘ ۔۔۔۔۔غریب کی زمین پر قبضہ ہوجائے ،غریب کی بیٹی کی عزت تار تار ہوجائے FIRلکھنے کیلئے پین کی سیاہی ’’ختم‘‘،ہمت و حوصلے کے الفاظ ’’ختم‘‘ ۔۔۔۔مخصوص طبقہ کے لوگوں کے کارخانوں ،فیکٹریوں ،مارکیٹوں میں چاہے لاکھوں روپے کا غیر معیاری سامان تیار ہوتا ہو غریب کی فروٹ کی ریڑھی نشانہ ہوتی ہے کہ اس نے صحت کے اصولوں کے مطابق سامان رکھا ہوا ہے یا نہیں ،صحت کے اصول کے سارے قوانین غریب کی ریڑھی پر ہی لاگو ہوتے ہیں؟قانون جب لاگو ہو تو بلاامتیاز سب پر لاگو ہو ایسا نہ ہو کہ امیر کی بات ’’ختم‘‘ تو غریب کی ذات ’’ختم‘‘۔۔۔ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں جہاں امیر کے جسم سے میل اور غریب کے خون کے سیل ’’ختم‘‘ ہوتے ہی چلے جارہے ہیں ہوتے ہی چلے جارہے ہیں۔۔۔۔

’’ختم‘‘ کس وجہ سے پیدا ہوئی اس ختم کا ذمہ دار کون ہے اس’’ختم‘‘ کو ختم کرنے کا کسی نے سوچا بھی ہے کہ نہیں ،ختم والی زندگی کی منزل کیا ہے؟’’ختم‘‘ لفظ غریب کا پیچھا نہیں چھوڑتے حتیٰ کے غریب غربت کی سانسیں ،ہچکیاں ،سسکیاں لے لے کر اس دنیا سے رخصت ہوجاتا ہے مرنے کے بعد بھی ’’ختم‘‘غریب کے کاندھے پر ہی رہتی ہے کفن دفن کیلئے پیسے ’’ختم‘‘ مہمانوں کے کھانے کیلئے خوراک ’’ختم‘‘ ۔۔۔۔ختم آنکھوں میں بھرے ارمانوں کا خون کرتی چلی جارہی ہے امیر صبح گھر سے بے خوف وخطر نکلتا ہے اور رات کو بے خوف و خطر گھر آکر سوجاتا ہے غریب صبح گھر سے نکلتے وقت بجلی کا میٹر اور گیس کے میٹر کی ریڈنگ آنکھوں میں سجائے اور بچوں کو روز کی طرح نئے کپڑے لانے کا دلاسہ دے کر مزدوری کرنے نکل پڑتا ہے سارا دن مزدوری ، ’’ختم‘‘ کو ’’ختم‘‘ کرنے کی کوشش کر کر کے تھکا ہار ا رات کے اس پہر گھر لوٹتا ہے جب بچے نئے کپڑوں کی امید لیے کچے مکان کے لکڑی کے ٹوٹے ہوئے دروازے سے باپ کے آنے کا انتظا ر کرتے کرتے سوجاتے ہیں ۔زندگی کی ایک اور شام ختم ہوجاتی ہے لیکن ’’ختم‘‘ ذرہ برابر بھی ’’ختم‘‘ نہیں ہوتی ۔

ختم کی بھول بھلیوں میں غریب اس قدر گم ہوچکا ہے کہ اس کے پاس اپنے حق کی خاطر آواز اُٹھانے کا بھی ٹائم نہیں ۔آس کی لے اور اُمید کا چراغ دوسروں کے لئے روشنی کا باعث تو بنتے ہیں لیکن خود اندر ہی اندرجل کر راکھ ہوجاتے ہیں ہم سب کو اس ختم کو ختم کرنے بارے سوچنا ہوگا کہیں کسی جگہ ختم کے ختم ہوجانے کے ذمہ دار ہم تو نہیں۔۔۔۔؟؟؟اگر ایسا ہے تو ہمیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا، غریب کی ختم کو ختم کرنے کیلئے کچھ کرنا ہوگا، باطل کی بغاوت کو کچلنا ہوگا۔اصل تبدیلی اسی وقت آئے گی جب غریب بدلے گا،غریب کو انصاف ملے گا ،غریب کے بچے تعلیم حاصل کرسکیں گے ۔اﷲ ہمیں مثبت سوچ اور دین پر چلنے کی صحیح سمجھ عطا فرمائے ۔۔۔۔آمین ثمآمین
 

Salman Ahmed
About the Author: Salman Ahmed Read More Articles by Salman Ahmed: 23 Articles with 20422 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.