جنسی زیادتی اور استحصال کرنے والے درندے بچوں سے ان کی
معصومیت ، ان سے ان کا بچپن چھین لیتے ہیں، معصوم چہروں سے ان کی مسکراہٹ
اور معصومانہ شرارتیں چھین کر یہ معاشرے کے بدنما دھبہ کی مانند لوگ بڑے
خوشی سے دھندلاتے پھرتے ہیں۔ آج کے اس نازک دور میں جہاں روز بروز بڑھتے
جنسی واقعات کے پیش ِ نظر پھول جیسے ننے بچوں کی پرورش کرنا ،بچوں کو جنسی
افعال اور خطرات سے آگاہی دینے کے ساتھ ساتھے اپنے دفاع کے لیے خطرناک
صورتحال سے نبٹنے کے لیے ذہنی طور پر تیار کرنا۔ یہ والدین اور تعلیمی
اداروں کی اولین ترجیح بن گئی ہے ۔ تحقیق کے مطابق اب تک ہونے والے واقعات
میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو آپ کے بہت زیادہ قریبی ہوتے ہیں یا آپ کے
جاننے والے ہوتے ہیں۔ میں والدین کی ذمہ داریوں میں سے چند ایک ذمہ داریوں
کو یہاں بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں جن کی بدولت وہ اپنی اولاد کو ان سنگین
نتائج سے بچا سکتے ہیں ان سب ذمہ داریوں میں سے پہلی ذمہ داری ہے کہ آگاہی
اور دوستانہ ماحول ۔۔۔ والدین کی اولین ترجیحات میں آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں
کو اس بات کی تعلیم اور آگاہی دیں کہ اگر کوئی بھی آشنا یا نا آشنا شخص ان
کی خفیہ اعضاء کو چھونے کی کوشش کرے یا چھوئے تو وہ والدین کو با آسانی بتا
سکیں ، کسی بھی شخص کے ساتھ باہر گھومنے کی اجازت نہ دی جائے ، گھر سے باہر
اگر کسی دوست احباب کے جانا بھی پڑ رہا ہے جدھر آپ بچوں کو ساتھ لے کر نہیں
جا سکتے تو لازم ہے کہ بچوں کی ذمہ داری کسی ذمہ دار گھرانے کے حوالے کر کے
جائیں ۔ اور والدین پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ اپنی اولاد کے ساتھ دوستانہ
ماحول کی فضاء برقرار رکھیں جس کے تحت اولاد کو والدین سے کسی بھی قسم کی
کوئی بھی بات کرتے ہوئے ڈر محسوس نہ ہو۔ اور کھلے الفاظ میں اپنے والدین کو
آگا ہ کر سکیں ۔۔۔ والدین کی سب سے بڑی غفلت آج کل کی دوستی اور یارانہ ہے
جو کہ اکثر بچوں کے خون سے نبھانا پڑتا ہے ۔ آج کل کی یاری کا کوئی بھروسہ
نہیں " مطلب کی یا ری ۔۔۔مطلب کا زمانہ باقی سب کا سب ہے ڈرامہ " آج کے
دوست ۔۔۔۔!!! دوستی کے مقدس رشتے پر لعنت بنے ہوئے ہیں ۔۔۔ دوستی تو وہ بھی
تھی کہ صدیق اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے یوم ہجرت نبھا کر دیکھائی اور پھر
اس سانپ کا آنا بار بار ڈھسنا ۔۔۔ مگر دوست نے اس غرض سے پاؤں نہ ہٹھانا کہ
میرے دوست کی نیند میں خلل نہ آئے ۔۔۔ارے دوستی تو وہ مقدس رشتہ ہے جس کی
نایا ب مثالیں تاریخ کی اوراق میں بھری پڑی ہیں مگر بابا بلھے شاہ نے بھی
تو ٹھیک ہی بولا تھا کہ ـ"یا ر ہوئے نسلی " ۔۔۔ دوستی کرنے سے پہلے خود کو
ٹھیک کریں خود اسلام اور اسلامی اقدار پر چلیں اور پھر دوست بھی ایسا تلاش
کریں جو خیر غریب ہو مگر شریف النفس اور اسلام اور اسلامی اقدار پر چلنے
والا ہو۔۔۔ پھر سب سے بڑی بات دوستی اور دشمنی اﷲ کی خوشنودی کے لیے کرو۔
دوستی ایسے شخص کے ساتھ کرو کہ جب تم اس کی خدمت کرو تو وہ تمہارا معافذ بن
جائے۔ دوست کے ساتھ رہنا تمہارے لیے زینت ہو۔ تمارے دوست تمہاری پہچان ہو
تے ہیں۔پھر جب مشکل آجائے تو وہ تمہارا بوجھ ہلکا کرے ۔نیکی کی طرف بڑھو تو
وہ بھی تمہاری حمایت کر کے نیکی کی طرف قدم بڑھاؤ ۔ تیری اچھائی دیکھے تو
تیری رہنمائی کرے اور اگر تم برائی کی طرف جائے تو وہ تم کو منع کرے۔ جب تم
کچھ اس سے مانگو تو وہ تم کو دے ۔پھر جب تم پر کوئی پریشانی آئے تو وہ
تمہاری مدد کرے۔ جب تم کچھ کہے تو وہ اس کی تصدیق کرے ۔ جب کسی کام کا
ارادہ کرے تو تم کو اپنا امیر بنائے ۔۔ اگر کسی بات میں آپس میں لڑائی
جھگڑا ہو جائے تو اس کو اپنا سمجھ کر ان عوامل کو دور کرے ۔
ادھر دوستی کے اصول بیان کرنے کا مقصد یہ ہی نہیں کہ آپ کو ایسا دوست لازما
ملے مگر آپ کو کوئی ملے اس سے پہلے آپ خود کو کسی کے لیے ایسا دوست بنا لو
کہ آپ کے ہاتھ و زبان سے آپ کا دوست اپنے آپ کو محفوظ سمجھے اور آپ پر
اعتماد اور یقین اس قدر کر سکے کہ شک و شبہات کی کوئی گنجائش باقی ہی نہ
رہے ۔ رہی بات اگر آپ خود کو نہیں بدل سکتے تو اس بات کی امید بھی چھوڑ دیں
کہ آپ کو بھی کوئی اچھا دوست ملے گا۔
|