میرے ہاتھ میں اس وقت پنجاب کریکولم اینڈ ٹیکسٹ بک بو
رڈ لاہور کی آٹھویں اردو کی کتاب ہے ‘ 2018 میں شائع ہونے والی یہ کتاب
پنجاب کے تمام سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں لازمی پڑھائی جارہی ہے
۔اس کتاب کے مصنفین میں پروفیسر ڈاکٹر عبدالعزیز ساحر ‘پروفیسر ڈاکٹر ضیاء
الحسن ‘ پروفیسر اسد ایوب نیازی ‘ مسزشگفتہ حسنین ترمذی ‘ سید صغیر الحسنین
ترمذی ‘ مدیر کی حیثیت سے ڈاکٹر محمد صالح طاہر ‘پروفیسر شبانہ کنول ‘
پروفیسر محمد نعیم بزمی اور پروفیسر اسد ایوب نیازی کے نام شامل ہیں جبکہ
ریویو کمیٹی میں پروفیسر طارق حبیب ‘ محمد زبیر منگلوری ‘ پروفیسر ظفرالحق
چشتی ‘ پروفیسر ڈاکٹر عبدالخالق تنویر ‘ محمد زبیر ساہی ‘ محمد عبداﷲ ‘
پروفیسر سید وافصح عابد ‘ عبدالمعبو دعابد اﷲ ‘سرفراز احمد فتیانہ اور
ڈاکٹر محمد سہیل سرورکے نام پرنٹ ہیں ۔
اس کتاب کے صفحہ نمبر 55 پر پاک فوج کے ایک شہید کی کہانی شائع کی گئی ہے
جس کانام کتاب میں" لانس نائیک لال حسین شہید" لکھاہے۔اس کہانی کو لکھنے
والے مصنف کو اس بات کا بھی علم نہیں کہ اس نام کے کسی بھی افسر یا جوان کو
حکومت پاکستان کی جانب سے بہادری کے صلے میں نشان حیدر نہیں ملا ۔ یادرہے
کہ اب تک پاک فوج کے جن افسروں اور جوانوں کو بعد از شہادت نشان حیدر ملے ‘
ان کے اسمائے گرامی یہ ہیں ۔کیپٹن راجہ محمدسرور شہید ‘ میجر چوہدری طفیل
محمد شہید ‘ میجر راجہ عزیز بھٹی شہید ‘ پائلٹ آفیسر راشد منہاس شہید ‘
میجر شبیر شریف شہید ‘ سوار محمد حسین شہید ‘ میجر محمداکرم شہید ‘ لانس
نائیک محمد محفوظ شہید ‘ کیپٹن (کرنل) شیر خان شہید ‘ حوالدار لالک جان
شہید ۔ نائیک سیف علی جنجوعہ کو ہلال کشمیر عطا کیا گیا جو نشان حیدر کے
برابر تصور کیاجاتاہے۔ ان ناموں کو اگر ہم غور سے دیکھیں تو کہیں بھی ہمیں
لانس نائیک لا ل حسین شہید کانام دکھائی نہیں دیتا ۔
سب سے افسوس ناک بات یہ ہے کہ مضمون نگارکسی ہیرو کی کہانی لکھنے سے کلی
طور پر معذور ہے ۔ملاحظہ کیجیئے وہ کہانی جو پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈ کی آٹھویں
جماعت کی اردو کتاب کے صفحہ نمبر 55پر موجودہے ۔مضمون نگار لکھتے ہیں۔ "
ستمبر 1965ء میں دشمن نے رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے حملہ کرکے
ہمارے ملک پر حملہ کردیا اور ایک سرحدی چوکیوں پر قبضہ کرلیا ۔اس صورت میں
پلاٹون کمانڈر نے چند جوانوں کو بلاکر کہا کہ تم جنگ کے حالات سے آگاہ ہو ‘
دشمن نے ہماری اگلی چوکیوں پر قبضہ کرلیا ہے ۔دشمن کی فوج مسلسل گولہ باری
کررہی ہے اس لیے ہمیں یہ چوکی بھی خالی کرنی پڑے ۔ان جوانوں میں سے ایک آگے
بڑھا اور فوجی سلام کرنے کے بعد بولا ۔ جناب ۔دشمن کو روکنے کے لیے کوئی
تدبیر ہوسکتی ہے ؟ کمانڈر نے کہا ہاں ۔اگر ہم میں سے کوئی آگے بڑھے اور
جرات و بہادری کامظاہرہ کرے ۔وہ جوان ایک قدم اور آگے بڑھا اور کہا جناب
میں ایسا کرنے کے لیے تیار ہوں ۔
کمانڈر نے جوان کو شاباش دی اور کہا تمہیں اس چوکی تک جانا ہوگا جو دشمن نے
آج صبح ہم سے چھینی ہے اور پھر اس کے بعد ہمیں بڑے دستے سے ملنا ہوگا تاکہ
دشمن کی پیش قدمی کو روک سکیں ۔ جوان نے کہا مجھے منظور ہے ۔ میں دشمن سے
اپنی چوکی خالی کراکے دم لوں گا ۔ یہ کہہ کر اس جوان نے اپنی سٹین گن
اٹھائی ‘کمر کی پٹی سے دستی بم باندھے اور اپنی پلاٹون کے ساتھ فوجی سلام
کرتا ہوا نکل گیا ۔ یہ جوان لانس نائیک لال حسین تھے ۔ چاروں طرف گولیوں کی
بوچھاڑ ہورہی تھی ۔دشمن کے جہاز سر پر منڈ لارہے تھے مگر اس جوان کے دل میں
ذرا بھی خوف نہ تھا ۔ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ نہایت بہادری اور دلیری سے
آگے بڑھ رہے تھے ۔ دو گھنٹے مسلسل رینگ رینگ کر بالاخر وہ اس چوکی کے قریب
پہنچ گئے ۔ جس پر دشمن نے صبح سویرے قبضہ کیاتھا ۔اب دشمن نے اسے اپنی پہرہ
چوکی بنا رکھا تھا اور اس کے قریب ہی ان کاایک بڑا مورچا بھی تھا ۔جہاں سے
مسلسل فائرنگ ہورہی تھی ۔لانس نائیک لال حسین اپنی چوکی پر دشمنوں کو دیکھ
کر غصے میں آگئے اور فورا کمر کی پٹی سے دستی بم نکالا اور پہرے پر موجود
دشمن کے سپاہیوں پر پھینک دیا ۔ سپاہی وہیں ڈھیر ہوگئے ۔لال حسین چوکی میں
داخل ہوگئے اور پھر رینگتے رینگتے دشمن کے خندقی مورچے پر دستی بم پھینکنے
شروع کردیئے ۔ دشمن اس اچانک حملے سے گھبرا گیا ۔لا ل حسین اور اس کی
ساتھیوں نے تاک تاک کر نشانے پر بم پھینکے اور مورچے میں موجود دشمنوں
کاصفایا کردیا ۔ انہوں نے بہادری اور بے خوفی کامظاہرہ کرکے اپنی چوکی کو
دشمن سے خالی کرالیا ۔ قریب ہی دشمن کی ایک بڑی پلاٹون مسلسل فائرنگ کررہی
تھی ۔دشمن کی پلاٹون کے قریب پہنچے اور دستی بم پھینک کر دشمن کی صفوں میں
کھلبلی مچادی ۔ دشمن نے فائرنگ تیز کردی ۔ لال حسین اپنے ساتھیوں کے ساتھ
جواں مردی سے دشمن کا مقابلہ کررہے تھے کہ ایک سنسناتی ہوئی گولی ان کے جسم
میں پیوست ہوگئی ۔وہ بری طرح زخمی ہوئے مگر انہوں نے ہمت نہ ہاری ۔ ان کے
زخموں سے خون فوارے کی طرح نکل رہا تھا ۔مگر وہ مسلسل آگے بڑھ رہے تھے ان
کی اور ان کے ساتھیوں کی جرات کے نتیجے میں دشمن کے قدم اکھڑ گئے اور وہ
بھاگ کھڑا ہوا۔ لال حسین کے ساتھیوں نے ان کی آواز سنی ‘ دشمن ختم ہوگیا
۔خون بہ جانے سے لال حسین کی حالت بگڑ چکی تھی ۔ بالاخر زخموں کی تاب نہ
لاتے ہوئے وہ گرپڑے ۔ ان کے ساتھیوں نے انہیں فورا اٹھایا اور مرہم پٹی کے
لیے واپس لانے لگے مگر زخم اپنا کام کرچکے تھے ۔ لانس نائیک لال حسین شہید
کی روح ‘ جسم خاکی سے پرواز کر گئی ۔ موت کے وقت اس کے آخری الفاظ یہ تھے
۔"اے اﷲ تیرا شکر ہے میں نے اپنا فرض پورا کردیا ۔"لانس نائیک لال حسین
شہید نے فرض شناسی اور جرات و بہادری کی جو مثال پیش کی ‘قوم اسے کبھی
فراموش نہیں کرسکے گی ۔جرات کے اس اعلی کارنامے پر حکومت نے اسے تمغائے
جرات دیا ۔ اﷲ ایسی نیک روحوں کے درجات بلند فرمائے ۔
......................
سب سے پہلے بات تو یہ ہے کہ یہ کہانی لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی ہے جن
کا نام کتاب میں غلط لکھاگیا ‘ مضمون نگار سے دوسری غلطی یہ ہوئی کہ یہ
واقعہ 1965ء کی بجائے 1971ء کی جنگ میں پیش آیا تھا ۔ یہ کہانی پڑھنے سے
معلوم ہوتا ہے کہ مضمون نگار عسکری مضامین لکھنے کی اہلیت سے مکمل عاری
ہیں۔ لانس نائیک‘ محمد محفوظ کس جنگ میں شہید ہوئے اس کا بھی مصنف کو علم
نہیں ۔ان باتوں کے باوجود یہ مضمون نہ جانے کب سے اردو کی لازمی کتاب میں
پڑھااور پڑھایا جارہاہے ۔واقعات کی تصحیح کے لیے حقیقی واقعہ یہاں بیان
کیاجاتاہے-: 16" دسمبر 1971ء کو سقوط ڈھاکہ کا سانحہ رونما ہوا۔ 17 دسمبر
1971ء کو مغربی محاذ پر شام ساڑھے سات بجے جنگ بندی پر عمل شروع ہونا تھا ۔
مگر مکار دشمن اپنی روایتی مکاری کا سہارا لے کر زیادہ سے زیادہ علاقہ
ہتھیانے کے چکر میں تھا ۔ اس نے دن کے دو بجے پاکستانی علاقوں تھٹہ قلاراں
اور تھٹی کوڈا میں موجود پاکستانی فوجی دستوں پر گولہ باری شروع کردی ۔ شام
ساڑھے پانچ گولہ باری کا دائرہ پل کنجری گاؤں تک بڑھادیا ۔پونے چھ بجے یونٹ
کمانڈر کو اطلاع ملی کہ دشمن نے بستی کے شمال مشرق میں سموک سکرین بنالیا
ہے اور جنوب مشرق کی جانب سے پانچ سو گز فاصلے پر واقع بند سے دشمن نے ‘
گاؤں میں موجود پاکستانی فوجیوں کو مصروف جنگ کرلیا ہے ۔مسلسل گولہ باری کی
زد میں آکر گاؤں میں موجود پاک فوج کے جوان باری باری شہید ہوگئے اور دشمن
بل راجباہ کے راستے بستی میں داخل ہونے اور قبضہ کرنے میں کامیاب ہوگیا ۔
چنانچہ بستی پل کنجر ی کو بھاری قبضے سے آزادکروانا پاک فوج کے لیے ایک
چیلنج بن گیا ۔ چونکہ اس علاقے کے دفاع کی ذمہ داری 43پنجاب کے سپرد تھی اس
لیے بٹالین کمانڈر لیفٹیننٹ کرنل محمد اقبال سے کہاگیا کہ وہ بستی اور پل
کنجری گاؤں پر دوبارہ قبضے کے لیے جستجو کریں ۔اس مقصد کے لیے تین ٹاسک
فورس تشکیل دی گئیں ۔ جس میں 43پنجاب کی برایؤ بی کمپنی ‘ 15 پنجاب کی الفا
کمپنی اور ڈیلٹا کمپنیاں شامل تھیں ۔15 پنجاب کے ایک سنیئر افسر میجر نعمت
اﷲ کو ٹاسک فورس کاکمانڈ ر مقرر کیاگیا جبکہ 15 پنجاب کی الفا کمپنی کی
قیادت کیپٹن فضل معید کے ہاتھ میں تھی ۔ڈیلٹا کمپنی کو یہ فریضہ سونپا
گیاکہ وہ نالے کے ساتھ ساتھ ایڈوانس کرے گی اور گاؤں کے شامل مغرب میں واقع
خشک تالاب کے قریب جمع ہوکر حملہ آور ہوگی ‘ مشکل یہ تھی کہ 15 پنجاب کی
دونوں کمپنیوں کے لیے یہ علاقہ اجنبی تھا ۔
43 پنجاب کی دونوں پلاٹونوں نے شمال اور جنوب کی جانب سے پل کنجری کو گھیرے
میں لے کر ٹھیک ساڑھے چار بجے حملے کا آغاز کردیا تاکہ دشمن کے ردعمل سے اس
کی تعداد ‘ اسلحے کی نوعیت اور گاؤں میں موجودگی کے بارے میں معلوم
کیاجاسکے ۔ مگر دشمن اپنی مکاری سے دھوکہ دینے میں کامیاب ہوگیا اور اس
فائرنگ کا کوئی جواب نہ دیاالبتہ 500 گز شمال مشرق کی جانب سے توپ خانے اور
خودکار ہتھیاروں سے فائر شروع کردیا ۔اس سے اس خیال کو تقویت ملی کہ اول تو
گاؤں میں دشمن نہیں ہے اگر ہے بھی تو وہ مقابلے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے
43 پنجاب کی برایؤکمپنی کی دونوں پلاٹونیں پیچھے ہٹ گئیں ۔ الفا کمپنی بل
کنجری گاؤں کے بالکل متوازی سمت اپنی صف بند ی میں مصروف تھی ۔
دائیں جانب سے حملہ آور ہونے کی ذمہ داری نائب صوبیدار محمد ریاض کی کمان
میں پلاٹون نمبر 1کی تھی ‘ پلاٹون نمبر 2جس کی قیادت حوالدار محمد شریف
کررہے تھے‘ کو درمیان میں رکھا گیا جبکہ پلاٹون نمبر 3کو حوالدار اصغر علی
کی قیادت میں بائیں جانب حملہ آور ہونے کا ٹاسک سونپا گیا۔ اسی پلاٹون میں
نشان حید ر حاصل کرنے والا پاک فوج کا عظیم سرفروش لانس نائیک محمد محفوظ
شامل تھا۔
ٹھیک صبح ساڑھے چھ بجے حملہ کا دوبارہ آغاز ہونا تھا ۔لیکن گاؤں سے 70گز
پہلے ایک خشک نالہ تھاجس کی چوڑائی آٹھ فٹ اور گہرائی بھی چھ فٹ تھی‘ کنارے
پر بے شمار جھاڑیاں اور سرکنڈے اگے ہوئے تھے‘ جس کی وجہ سے وہ نالہ آنکھوں
سے اوجھل تھا ۔اندھیر ا ابھی چھٹا نہیں تھا‘ریکی نہ ہونے کی بنا پر یہ نالہ
پاک فوج کے جوانوں کے لیے بڑی رکاوٹ بن گیا الفا کمپنی کے بیشتر جوان بے
دھیانی میں پیش قدمی کرتے ہوئے اس نالے میں جاگرے اور زخمی ہوگئے ۔ چونکہ
مشین گن ‘ رائفلیں ‘ وائر لیس سیٹ اورایمونیشن کا بوجھ ہر جوان کے کندھے پر
موجود تھا۔ جس کی وجہ سے حملہ کی تندہی اور تیزی جاتی رہی ۔ اسی اثنامیں دن
کااجالا پھیل چکا تھا‘دشمن‘ مکانوں کی کھڑکیوں ‘ چھتوں اور دیواروں کی اوٹ
میں چھپا ہوا تھا۔ اسے گاؤں کی جانب بڑھتے ہوئے پاک فوج کے جوان صاف دکھائی
دے رہے تھے‘اس نے مشین گنوں اور خودکار ہتھیاروں سے بے دریغ فائرنگ شروع
کردی یہ فائرنگ اس قدر شدید تھی کہ شاید ہی زمین کا کوئی حصہ محفوظ رہا ہو۔
تینوں پلاٹونوں کے آدھے سے زیادہ جوان ‘دشمن کی مسلسل فائرنگ کی زد میں آکر
جام شہادت نوش کرچکے تھے ‘اس مشکل حالات میں بھی پاک فوج کے تین جوان زمین
پر رینگتے ہوئے کہنیوں کے بل اس مورچے کے بالکل قریب جا رہے تھے جہاں سے
مسلسل سٹین گن کا فائر آرہاتھا ‘ جنگ بندی ہونے کی بنا پر توپ خانے کا فائر
میسر نہ تھا‘ زمین پر رینگنے والے تین میں سے دو جوان بھی فائرنگ کا شکار
ہوگئے ۔لانس نائیک محفوظ ابھی مورچے سے کچھ دور تھا کہ گن کا ایک شل ان کی
ٹانگوں پر لگا ‘ جس سے ٹانگیں شدید زخمی ہوگئیں‘ اس نے پھر بھی ہمت نہ ہاری
اور رینگتا ہوا دشمن کے مورچے تک پہنچ گیا تو گولیوں کی ایک بوچھاڑ لانس
نائیک محفوظ کے سینے کو چھلنی کرگئی ‘ یہی وہ لمحہ تھا جب اس نے نعرہ تکبیر
لگایا اور پوری طاقت سے اچھل کر بھارتی فوج کے گنر کا گلہ دبوچ لیا اور موت
کے گھاٹ اتار دیا ‘ قریب ہی موجود دوسرے بھارتی فوجیوں نے اپنی سنگینیں‘
لانس نائیک محفوظ کے سینے میں پیوست کردیں جس سے پاک فو ج کایہ عظیم مجاہد
جام شہادت نوش کرگیا ۔ 18دسمبر 1971ء کو شام پانچ بجے فلیگ میٹنگ کے دوران
بھارتی کمانڈ ر لیفٹیننٹ کرنل سریش پوری نے لانس نائیک محمد محفوظ شہید کی
نعش کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ اس نوجوان نے جس بہادری کا مظاہرہ کیا
اس سے پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آیا ۔" یاد رہے کہ لانس نائیک محمد محفوظ
شہید 1944ء میں کہوٹہ کے نواحی گاؤں پنڈ ملکاں میں راجہ مہربان خان کے گھر
پیداہوئے ۔فوج میں 1961میں بھرتی ہوئے اور شہادت کے مرتبے پر 17 دسمبر
1971ء کو فائز ہوئے ۔چھ ماہ بعد قبر کشائی کی گئی تاکہ انہیں دوسری جگہ
پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیاجاسکتے ‘ قبر کشائی کے وقت آسمان پر بادل چھاگئے
‘ٹھنڈی ہوا چلنے لگی ‘ قبر کے نزدیک قرآن پاک کی تلاوت جاری تھی ۔شہید کے
زخموں سے تازہ خون بہہ رہا اورچہرے پر داڑھی بھی موجود تھی جبکہ شہادت کے
وقت شہید کلین شیو تھے ۔ قرآن پاک میں لکھا ہے شہید زندہ ہوتے ہیں لیکن
تمہیں ان کی زندگی کا شعور نہیں ۔روزقیامت اسی حالت میں قبر سے نکلیں گے جس
حالت میں وہ شہید ہوئے تھے ۔ لانس نائیک محمد محفوظ شہید کو بہادری کے صلے
میں پاک فوج کا سب سے بڑا اعزاز (نشان حیدر) بعداز شہادت عطا کیاگیا ۔
..................
ہم اپنی نوجوان نسل کو کس قسم کی خود ساختہ اور غیرحقیقی اور غیر دلچسپ
کہانیاں نصاب تعلیم میں شامل کرکے پڑھا رہے ہیں اس کا اندازہ یقینا اردو کی
کتاب میں شامل اس کہانی سے لگایا جاسکتا ہے ۔اصل کہانی کا پنجاب ٹیکسٹ بک
بورڈ کے مصنفین نے نہ صرف حلیہ بگاڑدیا بلکہ شہید کا نام بھی تبدیل کرکے
ایک ایسے جرم کا ارتکاب کیا جو ناقابل معافی ہے ۔ریویو کمیٹی کے اراکین بھی
قابل گرفت ہیں کیا انہیں پاک فوج کے ان جوانوں کے نام بھی یادنہیں جنہوں نے
نشان حیدر حاصل کیا تھا ‘ یہی وہ حقیقی ہیرو ہیں جن کی قربانیوں کی وجہ سے
آج ہم ہندووں کی دستبرد سے محفوظ ایک آزاد وطن میں اپنے مذہبی عقائد کے
مطابق زندگی بسر کررہے ہیں ۔پھر جس تمغے کا ذکر کہانی میں کیاگیا ہے اس
کانام تمغائے جرات ہرگز نہیں ہے ۔
اتنی بڑی غلطی کا ذمہ دار کون ہے؟ ‘ مصنفین اور ریویو کمیٹی کے اراکین سمیت
بورڈ کے کسی بھی عملے نے نشان حیدر حاصل کرنے والے مجاہد کے نام کو غلط
محسوس نہیں کیا بلکہ کسی سکول ٹیچر نے بھی اس کی نشاندھی نہیں کی ۔ اگر
اردو کی کتاب کا یہ حال ہے تو باقی کتابوں کا عالم کیا ہوگا ۔
|