درد دل

رمانہ تبسم،پٹنہ سیٹی۔انڈیا
’’کبھی کسی کو مکمل جہاں نہیں ملتا․․․․․‘‘
اس لئے خدا کے لئے مجھے بھول جاؤ ․․․․․پرانی باتوں کو یاد کرکے اب کیا فائدہ ۔‘‘افزا اشکبار آنکھوں سے اسلان کی طرف دیکھ کر بولی تو وہ تڑپ اٹھا۔
’’کیسے بھول جاؤں ان یادوں کو․․․․․ اور․․․․وہ دل نشاط کہاں سے لاؤں․․․․․کیا تم مجھے بھول سکتی ہو۔‘‘ارسلان نے بے تاب نگاہوں سے افزا کی طرف دیکھ کر کہا تو اس نے لرزتی پلکیں جھکا لیں۔
’’افزا تقدیر بدل جاتی ہے ․․․․․زمانہ بدل جاتا ہے لیکن اس بدلتی ہوئی دنیا میں محبت جس انسان کا دامن تھام لیتی ہے وہ انسان کبھی نہیں بدلتا۔‘‘
حسرت بھری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے نہایت ٹوٹے ہوئے دل گرفتہ لہجہ میں بولا اور اپنے آنسو انگلیوں کے پوروں میں جذب کرتے ہوئے نہایت شکستہ سا قدم اٹھاتا ہوا چلا گیا۔افزا بالکل بے حس و حرکت وہیں بیٹھ گئی اور اس کے قدموں کے نشان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بے تاب نگاہوں سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔اس کی سرخ و سفید رنگت ،خمار بھری آنکھیں،وہ نہایت ذہین طبع اورذکی فہیم تھا۔ اس کی جامہ ذہنی خوشبوؤں سے مہکتے وجود پر خاندان کی سبھی لڑکیاں اس پر فریفتہ تھیں ․․․․․لیکن آج اس کا وجود ان سب چیزوں سے ناآشنا لگ رہا تھا۔اس کی سرخ رنگت پیلی پر گئی تھی جو اس کے دل کی پریشانیوں کی غمازی کر رہے تھے۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر آنسو ؤں کے قطرے جو اس کی آنکھوں سے ٹپک پڑنے کو بے تاب ہو رہے تھے۔انہیں سنبھالنے کی ہزار کوشش کی لیکن ان پر جیسے کوئی اختیار نہ رہا ۔
ارسلان فرازصاحب کے معزز دوست صادق صاحب کا بیٹا تھا۔فراز صاحب اور صادق صاحب ایک قالب دو جان تھے۔دونوں گھروں کی دیوار بھی ایک تھی اور عمر کا طویل وقت ساتھ گزرا تھا لہذا ایک دوسرے کے ہر نشیب و فراز میں بھی ہمیشہ ساتھ دیتے تھے یہی وجہ تھا کہ دونوں دوستوں کے بچوں میں بھی کافی محبت اور خلوص تھا۔ خاص کر ارسلان اور افزا میں ۔وہ دونوں کبھی جھگڑا نہیں کرتے تھے ۔دونوں ساتھ پڑھتے اور ساتھ کھیلتے ․․․․․ دونوں زیادہ تر ایسے کھیل کھیلا کرتے جس میں کسی تیسرے کی ضرورت نہ پڑے۔وہ لان میں رنگ برنگے پھولوں سے سجی کیاری کے بیچ جھولا لگاتے اور ارسلان اپنے ہاتھوں سے افزا کو جھلاتا ․․․․․اور جب وہ روتی تو اس کے پلکوں کی نمی اپنے معصوم انگلیوں کے پوروں میں جذب کر لیتا۔ان کی معصومیت پر فراز صاحب اور صادق صاحب کی آنکھیں خوشی سے جھلملا جاتیں۔
اس طرح وقت کچھ اور آگے سرک آیا بچپن کی سرحدوں سے نکل کر دونوں کے احساسات جب پختگی کو پہنچے تومحبت کی شکل اختیار کر چکا تھا ۔دونوں نے اسکول سے لے کر یونیورسیٹی تک کی پڑھائی ایک ساتھ مکمل کی جو دونوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں بڑی معاون ثابت ہوئی اور دونوں کو وصال کی بھی اب پوری امید تھی ۔افزا ایم․اے کرنے کے بعد گھر کی چھوٹی بڑی ذمہ داریوں کو سنبھالنے لگی ادھر اسلان تعلیمی مراحل اس نے بہت جلد نہایت شاندار کامیابی کے ساتھ طے کرنے کے بعد اس کے دل میں ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹر یشن کرکے بیرون ملک جانے کی تمنا تھی اور اپنے خواب کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے ہر وقت اپنی پڑھائی میں مگن رہتا اس کی یہی عادت افزا کو کافی پسند تھی اور اس کی کامیابی وکامرانی کے لئے خدا کی باگاہ میں دعا کرتی ،آخر اس کی دعا قبول ہوئی ماسٹر آف بزنس ایڈمنسٹریشن مکمل کرتے ہی اسے بیرون ملک جانے کا موقع میسرآگیا اس کی انتھک محنت جدوجہد سے بالآخر اس کو اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی وہ کافی خوش تھا اور یہ خوشخبری سب سے پہلے افزا کو سنانے کے لئے اسے تلاش کرتا ہوا لان میں آگیا ۔افزا نے جب یہ خوشخبری سنی تو وہ بھی خوشی سے سرشار ہو گئی۔ ََ اسے بیرون ملک جانے کا موقع میسر آگیا اس کی انتھک محنت جدوجہدسے بالآخراس کو اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی وہ کافی خوش تھا اور یہ خوشخبری سب سے پہلے افزا کو سنانے کے لئے اس کو تلاش کرتا ہوا لان میں آگیا۔افزا نے جب یہ خوشخبری سنی تو وہ بھی خوشی سے سرشار ہو گئی۔
’’یہ سب میری دعاؤں کا اثر ہے ۔‘‘ افزا نے اپنی مرمری انگلی سے اس کی پیشانی پربے ترتیب سے بکھرے ہوئے بالوں کو ہٹاتے ہوئے کہاتو ارسلان کی آنکھ بھی خوشی سے چمک اٹھی اور اپنی نشیلی آنکھیں اس کی آنکھوں میں ڈالتے ہوئے کہا۔
’’ہاں افزا !میری کامیابی کا سہرا تمہیں جاتا ہے ․․․․․ایک تم ہی تو تھی جو میرے الفاظ سے زیادہ میری خاموشی کو سمجھتی تھی اور قدم قدم پر میرا حوصلہ بڑھاتی ، اور کہا کرتی تھی کہ ہر مشکل ٹارگیٹ کو حل کرنے کے لئے محنت+ قسمت کے ذریعہ شہرت کا چاند بن کر آسمان پر چھا جائیں ۔‘‘
لیکن افزا کو اس سے جدا ہونے کا خیال آتے ہی اس کے چہرے کا رنگ خزاں رسیدہ پتے کی مانند زرد پر گیا اور لرزتی ہوئی آواز میں بولی ۔
’’ارسلان !بیرون ملک جاکر․․․․․ وہاں کی رنگین وادیوں میں ․․․․․مجھے بھلا تو نہ دوگے ۔‘‘
’’میں آئینہ کی ہرجائی نہیں ہوں ․․․․․جو نئی نئی صورتوں کا متلاشی رہوں ․․․․․افزا پلیز انہیں چھلکنا نہیں چائے کیونکہ اس وقت میرے پیمانے بھی لبریز ہیں․․․․․پھر ․․․․․ انہیں سنبھالنا مشکل ہو جائے گا ۔ ‘‘آنسوؤں سے تر افزا کا چہرہ اوپر اٹھاتے ہوئے کہا اور انتہائی رقت انگیز میں ارسلان اپنے بچپن کی ساتھی سے جدا ہو رہا تھا۔لیکن نئے ملک میں نئے عزم کے ساتھ جدوجہد کے جذبے سے بھی سرشار تھااور افزا کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے کہا۔
’’افزا! اس بارمیں اکیلا جا رہا ہوں․․․․․ پانچ سال کے بعد آؤں گا تو تمہیں اپنی لائف پاٹنر بنا کر ساتھ لے جاؤں گا۔‘‘زیر لب کہا توافزا کا چہرہ گلنار ہو گیا اور اپنی دراز پلکیں جھکا کر آنسوؤں سے بھیگی ہوئی آواز میں بولی۔
’’ارسلان !میں بھی تمہارا انتظار کروں گی۔‘‘اور وہ چلا گیا اپنے مادروطن اور عزیزوں سے دور اس کے پیار بھرے خطوط ملتے رہے۔اس کے محبت بھرے خطوط پڑھ کراب ہر وقت اس کے دل و دماغ پر ارسلان کے محبت کی رفاقت چھا جاتی اور رومانی پرورجذبات اور رنگین خیالات میں ڈوب جاتی۔اس طرح وقت زقند لگا کر اڑتا گیا پانچ سال کے طویل عرصہ کے بعد ارسلان اپنے ماعروطن واپس آرہا تھا نا جانے کتنی تمناؤں اور آرزؤں کو اپنے دل میں لئے کہ اس کے بچپن کی ساتھی اس کی لائف پاٹنر بنے گی اور اس کے ساتھ نئی زندگی کی شروعات کرے گا۔ادھر افزا بھی خوشی کے مارے فضا کی انتہائی بلندیوں میں پرواز کرنے لگی لیکن قسمت اس کے بھولے پن پر ہنس رہی تھی اور یہ راز اس کی آنکھوں سے پوشیدہ نہ رہ سکا کیونکہ کہ اس نے فراز اور صادق صاحب کی بات اپنے کانوں سے سن لی تھی ۔صادق صاحب اپنے بڑے بیٹے شیراز کے ساتھ منسوب کر کے دوستی کو رشتہ داری میں بدل دینے کا فیصلہ کر لیا تھا اور فراز صاحب کی نظر میں افزا کے لئے شیراز سے اچھا رشتہ اور کوئی نہیں تھا اور وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی لاڈلی بیٹی ان کی نظروں سے دور جائے ۔انہوں نے فورا قبول کر لیا․․․․․ اور وہ جو کہ دعوی کیا کرتی تھی کہ زندگی کا ہر فیصلہ اس کا اپنا ہوگا․․․․․ اور ہر بات منوا کر رہے گی لیکن ایک ہی پل میں اس کی تمناؤں کا محل مسمار ہو گیا۔ اس کا دل اس وقت ارسلان کے لئے بیقرار ہو رہا تھا اور اس کی جدائی کے بعد اپنی بے بسی پر پہلی بار اسے یاد کرکے روئی اور اس کے لبوں پر ایک شکوہ مچل اٹھا․․․․․’’کاش ․․․․․ارسلان جانے سے پہلے اپنی خواہش کا اظہار بزرگوں سے کر دیا ہوتا اور محبت کے جنون میں سوچا سب کو جا کربتا دے کہ وہ ارسلان کی امانت ہے لیکن اپنے والد کی محبت و شفقت جنہوں نے اسے ماں باپ دونوں کا پیار دیا تھا اس کی آنکھوں میں ذرا سی نمی بھی دیکھ کر پشیماں ہو جایا کرتے تھے اس نے قدم روک لیا․․․․․اور اس طرح وہ افزا سے مسز افزا شیراز بن گئی ۔
شیراز اسے پاکر اس قدر نازاں تھا کہ ساری دنیا اسے اپنے قدموں میں نظر آنے لگی لیکن افزا کے لئے زندگی کی پہلی محبت کودل سے مٹا دینا اتنا آسان نہیں تھا ․․․․لیکن وقت نے اس کو بڑا سہارا دیا اور آہستہ آہستہ اس کے زخم کو مندمل کر ہی دیا اور اس کے گھرآنگن میں ایک ننھا سا پھول کھل گیا ․․․․اب وہ ہر وقت اپنے بیٹے کی دلجوئی میں لگی رہتی۔
لیکن ارسلان نہایت شکستہ ٹوٹا ہوا بکھرا بکھرا سا دیوانوں کی طرح اپنی ویران آنکھوں سے پھولوں کی کیاری میں بیٹھ کر سب کچھ دیکھتا رہتا ۔جب افزا اپنے بیٹے کے ساتھ لان میں کھیلتی اور آج جب وہ بیٹے کے ساتھ کھیل رہی تھی کہ اس کی گیند اس سے ٹکڑاتی ہوئی دور جا گری․․․․․افزا اضطرابی کی حالت میں اس کے قریب آئی تو اس کی حالت دیکھ کر بے اختیار اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر سسک پڑی ۔
’’ارسلان!تمہیں چوٹ تو نہیں لگی ․․․․‘‘
’’چوٹ․․․․․اونہہ ․․․․․افزا تم نے زندگی بھر کا مجھے جو․․․․․درد دیا ہے ان پر اب کسی چیز کا اثر نہیں ہوتا ۔‘‘اس کے درد بھرے جملے سن کر افزاکی آنکھوں سے آنسوآبشار کی طرح بہنے لگے ۔
’’افزا !میں تم سے صرف اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ ․․․․․میں اپنے خواب․․․․․اپنی آرزؤ ․․․․․تمہارے پاس چھوڑ کر گیا تھا لیکن میرے آنے سے پہلے ہی تم نے میرے خواب ․․․․․میری آرزؤں کو پامال کر دیا․․․․․کیوں․․․․․؟تم نے زندگی کے ہمسفر بن کر منزل طے کرنے کا وعدہ کیا تھا․․․․افزا ہماری محبت کی گواہ اس چمن کے پھول اور کلیاں ہیں ․․․․جو بچپن سے لے کر جوانی تک ہر لمحہ کی دھڑکن کے رازدار ہیں․․․․دیکھو افزا آج بھی یہ اپنا سر جھکا کر ہماری محبت کا اعتراف کر رہی ہیں۔‘‘
اس کی بات سن کر افزا کی آنکھوں میں بے شمار آنسو تیرنے لگے لیکن اس میں اتنی تاب نہ تھی کہ اس کے سوال کا جواب دے سکے ۔
’’بولو افزا ․․․․․میری باتوں کا جواب دو․․․․․وہ قول و قرار․․․․․عہد و پیماں ایک ہی پل میں سب بھول گئی ۔‘‘بولتے بولتے اس کی آواز بھیگ گئی تو وہ دل برداشتہ ہو کر رو پڑی اورکانپتی ہوئی آواز میں بولی۔
’’ارسلان مجھے سب یاد ہے ․․․․․وہ قول و قرار․․․․․عہد و پیماں․․․․!‘‘
’’افزا تم نے سب لوگوں کو کیوں نہیں بتایا کہ․․․․․ تمہیں کسی کا انتظار ہے ۔‘‘
’’ ارسلان ہم دونوں نصیب سے ہار گئے ورنہ ہم دونوں کی محبت سچی تھی ․․․․․‘‘
’’اچھا․․․․․! ‘‘ارسلان نے آنسو بھری نگاہوں سے دیکھتے ہوئے کہا۔
’’ہاں ارسلان ․․․․․ابو کی محبت و شفقت کے آگے مجبور ہو گئی تھی،میں نہیں چاہتی تھی کہ میری ذات سے انہیں کوئی تکلیف ہو۔‘‘آنسوؤں سے بھیگی آواز میں بولی ۔
’’افزا․․․․․!یہ قدرت کی کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک چھت کے نیچے تم میری محبوبہ بھی ہو ․․․․․اوربڑی بھابھی․․․․․اس نے بالوں کو بے ترتیبی سے بکھرتے ہوئے کہا۔ارسلان مجھے کسی سے کوئی شکایت نہیں ،شکایت ہے تو کاتب تقدیر سے جس نے اسے بنایا،اس لئے ارسلان خدا کے لئے مجھے بھول جاؤ،وہ لوگ خوش قسمت ہوتے ہیں جنہیں مکمل جہاں ملتا ہے․․․․․ ارسلان کچھ طوفان کو اپنے اندر قید کرلینے میں اب بھلائی ہے کیونکہ اگر وہ باہر آگئے تو بہت کچھ تباہ ہوسکتاہے۔افزا نے آنسو بھری آواز میں کہا۔
’’افزا !انسان کسی سے دینا میں ایک بار محبت کرتا ہے․․․․․ اس درد کو لے کرجیتا ہے․․․․․ اور اس درد کو لے کر مرتا ہے ۔‘‘اور نہایت شکستہ سا آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔وہ اسے روک بھی نہ سکی کیونکہ اب وہ کسی اور کی ملکیت بن چکی تھی اس کے علاوہ کسی غیرمحرم کو روکنا اب گناہ عظیم تھا اور بالکل بے حس و حرکت بھیگی پلکوں سے اسے جاتا ہوا دیکھتی رہی۔

M H Babar
About the Author: M H Babar Read More Articles by M H Babar: 83 Articles with 73026 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.