ساہیوال واقعہ ذمہ دار کون!

بالکل جہاں سی ٹی ڈی اس واقعہ کی ذمہ دار ہے اسی طرح دیگر کے ساتھ وزیرِ اعظم اور وزیر اعلیٰ بھی ٹھیک اسی طرح ذمہ دار ہیں جس طرح ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے قتل عام کے ذمہ دار اس وقت کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ ہیں ۔نقیب اللہ محسود کا بوڑھا باپ ایک سال سے منتظر ہے کہ اس کے ساتھ انصاف ہو آج بھی اس امید پر ہے کہ مجھے تین بڑوں آرمی چیف، چیف جسٹس اور وزیرِ اعظم نے یقین دلایا ہے کہ انصاف ملے گا لیکن افسوس ایک سال گذرنے کے بعد بھی انصاف اب تک نہ ملا ماڈل ٹاون واقعہ کے ذمہ داروں، نقیب کے قاتلوں،کراچی میں قتل ہونے والے سرفراز اور کئی جعلی مقابلہ دکھا کہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والوں کو اگر عبرت ناک سزا دے دی جاتی تو کسی کی جرءت نہ ہوتی کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استمال کرتے ہوئے ساہیوال جیسا واقعہ رونما کرسکے ۔

ساہیوال واقعہ کے بعد سوشل میڈیا پر جس طرح کی باتیں ہورہی ہیں وہ اس واقعہ کے زخم کو مزید گہرا کررہی ہیں ۔ معصوم بچوں کے سامنے ان کے ماں، باپ ، بہن اور ڈرائیور کو قتل کردیا گیا ۔چلیں ایک لمحہ کو سی ٹی ڈی کو پہلا مؤقف مان بھی لیا جائے تو بھی کس قانون نے اس کو اجازت دی کہ آپ معصوم بچوں کے سامنے یوں ان کے پیاروں کا قتل کرو۔سوشل میڈیا کا دور ہے وقت کے ساتھ ساتھ کئی شواہد عوامی سطح پر سامنے آئیں گے اب تک کی جتنی وڈیوز آئیں ہیں کہیں سے بھی دہشت گردی کے مؤقف کی تصدیق نہیں ہورہی ۔ مارے جانے والے والدین کا بچہ کہتا ہے کہ ابو روتے رہے کہ خدا کے لیے ہمیں نہیں مارو ہم سے پیسے لے لو۔تینوں بچوں کو گاڑی سے نیچے اتار کر ان کے سامنے ان کے والدین اور بہن کو قتل کردیا جاتا ہے ، پہلا مؤقف یہ دیا جاتا ہے کہ خطرناک دہشت گردوں کو ہلاک کرکے اغوا ہونے والے تین بچوں کو بازیاب کرالیا گیا ۔

افسوس صد افسوس کے یہ سب دیکھ،سن اور پڑھ کر بھی سوشل میڈیا پر کچھ ایسی باتیں ہورہی ہیں کہ واقعہ تو واقعی بہت افسوس ناک ہے لیکن اس میں وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ پنجاب کا کیا لینا دینا ہے ! یہ کس طرح کی بات کی جارہی ہے یہ حکومت تو آئی ہی یہ بات کرتے ہوئے تھی کہ ہم پاکستان کو مدینہ کی طرز پر ریاست بنائیں گے کیا ریاستِ مدینہ میں حاکم وقت کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوا کرتی ہے کیا حضرتِ عمر فاروقؓ کا وہ قول یاد نہیں کہ اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مرگیا تو روز ِ محشر مجھ سے اس بارے میں پوچھا جائے گا کیوں کہ اس وقت حاکم میں ہوں ۔ تو کیوں کر ایسی باتیں کی جارہی ہیں کہ اس سے وزیرِ اعظم یا وزیرِ اعلیٰ پنجاب کا کیا لینا دینا ہے ۔ بالکل جہاں سی ٹی ڈی اس واقعہ کی ذمہ دار ہے اسی طرح دیگر کے ساتھ وزیرِ اعظم اور وزیر اعلیٰ بھی ٹھیک اسی طرح ذمہ دار ہیں جس طرح ماڈل ٹاؤن میں ہونے والے قتل عام کے ذمہ دار اس وقت کے وزیرِ اعظم اور وزیرِ اعلیٰ ہیں ۔نقیب اللہ محسود کا بوڑھا باپ ایک سال سے منتظر ہے کہ اس کے ساتھ انصاف ہو آج بھی اس امید پر ہے کہ مجھے تین بڑوں آرمی چیف، چیف جسٹس اور وزیرِ اعظم نے یقین دلایا ہے کہ انصاف ملے گا لیکن افسوس ایک سال گذرنے کے بعد بھی انصاف اب تک نہ ملا ماڈل ٹاون واقعہ کے ذمہ داروں، نقیب کے قاتلوں،کراچی میں قتل ہونے والے سرفراز اور کئی جعلی مقابلہ دکھا کہ بے گناہ لوگوں کو قتل کرنے والوں کو اگر عبرت ناک سزا دے دی جاتی تو کسی کی جرءت نہ ہوتی کہ وہ اپنے اختیارات کا ناجائز استمال کرتے ہوئے ساہیوال جیسا واقعہ رونما کرسکے ۔

ایسے تمام واقعات کے ذمہ دار صرف قتل کرنے والے ہی نہیں بلکہ وہ بھی ہیں جو لواحقین کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم انصاف دلائیں گے، ذمہ دار وہ بھی ہیں جو ایسے واقعات ہونے پر سب کچھ جانتے بوجھتے بھی اپنی سیاسی وابستگی کی وجہ سے غلط کو درست بتانے پر تلے ہوتے ہیں ۔ ذمہ دار وہ بھی ہیں جو مجرموں کو اس لیے تحفظ دیتے ہیں کہ اگر انہیں تحفظ نہیں دیا تو آئندہ کوئی ہمارے مفاد کی خاطر ایسے جرم نہیں کرے گا ، ذمہ دار وہ بھی ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ یہ غلط ہورہا ہے اس کے باوجود خاموش رہتے ہیں ۔ذمہ دار وہ بھی ہیں جو دانستہ ایسے لوگوں کو ہم پر مسلط کرتے ہیں ، ذمہ دار وہ بھی ہیں جو قلم کی طاقت رکھتے ہوئے ایسے واقعات پر اپنے قلم کو جنبش نہیں دیتے ۔بہت ہوچکا خدارا اب آئیں پاکستان کے بہترین مفاد کی خاطر اپنی ذمہ داریں ایمانداری سے نبھائیں ۔

اب حکومت کو بھی چاہیے کہ روایتی لفاظی کی جنگ سے گریز کرے یہ جو دوسری سیاسی جماعتیں جو ماضی میں حکمرانی کے مزے لے چکی ہیں اب شور کررہی ہیں یا کریں گی ان کے دامن پر خود بے گناہوں کا لہو ہے ۔ یقین جانیں آپ سے ابھی تک لوگ مکمل مایوس نہیں ہوئے ہیں اب بھی حسرت سے آپ کی جانب دیکھتے ہیں اب بھی لوگوں کی آنکھوں میں امید کی ایک چمک ہے اب بھی وہ آپ کو اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں ماضی کی حکومتوں کی طرح بار بار جے آئی ٹی بنا کر انصاف کی فراہمی کو طول نہ دیں بلکہ واقعہ میں ملوث افراد اور اس کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دے کر اپنا فرض پورا کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ اور عوام کے سامنے سرخرو ہوں اور ثابت کریں کہ آپ ریاستِ مدینہ کے طرز حکمرانی کی جانب رواں دواں ہیں ۔

YOU MAY ALSO LIKE:

After four people were killed in a shady ‘police encounter’ in Punjab’s Sahiwal, Twitter users were quick to weigh-in on the alleged police brutality. The victims which included two women were killed by Punjab’s counter-terrorism police on a highway in Qadirabad.