افسوسناک ساہیوال پولیس مقابلہ قوم کی آنکھیں
کھولنے کے لیے کافی ہے، جس سے کثیر سرمائے سے پولیس کی اعلیٰ تربیت ،
سائنسی بنیادوں پر تفتیش و تحقیق اور پولیس کلچر میں نمایاں تبدیلی
کاحکومتی دعویٰ سب کے سامنے بے نقاب ہوا ہے۔ گزشتہ روز جب بدنصیب کار سوار
خاندان لاہور سے بورے والا شادی میں جارہا تھا کہ ساہیوال کے قریب کاؤنٹر
ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے اہلکاروں نے فائرنگ کرکے 3چھوٹے بچوں کے سامنے ماں،
باپ ، بہن اور ڈرائیور کو قتل کردیا، جس سے شادی کا گھر ماتم کدہ میں تبدیل
ہوگیا، جہاں ڈھولکی بجنی تھی وہاں کہرام مچ گیا۔ موقع پر موجود عینی شاہدین
کا کہنا ہے کہ ایلیٹ فورس کے اہل کار پہلے سے ہائی وے پر موجود تھے،سفید
رنگ کی آلٹو کار کو روکنے کے لیے پہلے ٹائروں پر گولیاں برسائی گئیں،گاڑی
سائیڈ کے بیرئیر سے ٹکرائی تو اہل کاروں نے ونڈو اسکرین اور پچھلے دروازے
سے فائرنگ کرکے کار سواروں کو موت کے گھاٹ اتاردیا،عینی شاہدین کے مطابق
کارسواروں نے مزاحمت کی نہ گولیاں چلائیں، گاڑی سے اسلحہ نہیں بلکہ کپڑوں
کے بیگ ملے جبکہ پولیس نے سیدھی فائرنگ کی ۔ جبکہ دوسری جانب سی ٹی ڈی حکام
نے آئی جی پولیس پنجاب امجد جاوید سلیمی کو جو رپورٹ دی ہے اس میں دروغ
گوئی سے کام لیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ’’ ساہیوال میں مارے جانے والے چاروں
افراد کا تعلق کالعدم داعش سے تھا اور یہ پنجاب کے خطرناک دہشت گرد تھے جن
کے قبضے سے 3بچے بھی بازیاب کروائے گئے ہیں۔ ان دہشت گردوں کو روکنے کی
کوشش کی گئی تو ان کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ اور سی ٹی ڈی کی جانب سے اپنے
تحفظ کے لیے فائرنگ کی گئی ہے، جبکہ چاروں دہشت گرد اپنے ہی ساتھیوں کی
فائرنگ سے ہلاک ہو ئے ہیں۔ سی ٹی ڈی نے موقع سے خودکش جیکٹ،ہینڈ گرنیڈ ،رائفلزاوردیگراسلحہ
قبضے میں لیا ہے۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ یہی دہشت گرد ملتان میں
حساس ادارے سے منسلک 3 افسران کے قتل، سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے
بیٹے اور امریکی شہری وارن وائن اسٹائن کے اغوا سمیت متعدد سنگین وارداتوں
میں ملوث تھے‘‘۔
سوال یہ پیداہوتا ہے کہ پنجاب پولیس کا کامیاب کارروائی کا اعلان کیا واقعی
کامیاب کارروائی ہے یا نااہلی کا ایک اور ثبوت ہے جہاں پاکستان کی تاریخ
میں پہلی دفعہ 14سالہ معصوم بچی کو مارنے کے بعد پولیس کا دعویٰ ہے کہ
کامیاب آپریشن کے بعد دہشت گرد کو ہلاک کردیا۔ جبکہ میڈیا اطلاعات کے مطابق
شواہد اور تحقیقات کے بعد داعش رہنماؤں کی گرفتاری کے لئے مبینہ پولیس
مقابلے کی سی ٹی ڈی کی کہانی جھوٹ کا پلندہ ہے ، اوریہ انکشاف بھی سامنا
آیا کہ پولیس نے کرائم سین کو محفوظ کرنے کیلئے کوئی کام نہیں کیا۔ اس
سنگین غفلت کا وزیراعظم پاکستان اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے نوٹس لیتے ہوئے
واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی اہل کاروں کو حراست میں لینے کاحکم دیا اور واقعے
کی تحقیقات کے لیے جے آئی ٹی بنادی گئی جو تین دن میں اپنی رپورٹ پیش کرے
گی،ساہیوال واقعے کی تحقیقات کیلئے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم میں آئی ایس آئی،
ایم آئی اورآئی بی کے افسران بھی شامل ہوں گے۔ ساہیوال میں پولیس مقابلے کے
نام پر بے دردی سے قتل ہونے والے چار شہریوں کے واقعے نے ثابت کردیا ہے کہ
پولیس اصلاحات کے بلند و بانگ دعوے صرف دعوے ہیں اور پولیس کا پرانا طرز
بربریت اپنی جگہ موجود ہے۔ سی ٹی ڈی کی جانب سے بغیرتصدیق کاروائی کرتے
ہوئے ایک خاندان کے افراد کو معصوم بچوں کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کردینا
یقیناسنگین مجرمانہ فعل ہے۔اس واقعہ کے بعدمعصوم بچوں پرکیا بیت رہی ہوگی؟
ان کے سامنے والدین کا قتل نہ صرف ایک ڈراؤنا خواب بنا رہے گا، بلکہ ان کی
پوری زندگی نفسیاتی کشمکش میں گزرے گی،ایسے معصوم نونہال جن کے سامنے ان کے
والدین کو قتل کیا گیا اور پھر ان کو زخمی حالت میں ایک پٹرول پمپ پر
چھوڑدیا گیا، اس سے بھی بڑھ کر سی ٹی ڈی نے ان افراد کو قتل کرنے کے بعد
دہشتگرد ٹھہرانے کی کوشش ہی نہیں کی بلکہ اپنی رپورٹ میں کالعدم دہشتگرد
تنظیم داعش سے تعلق بھی جوڑ دیا۔سی ٹی ڈی نے مزید قرار دیا کہ یہ
دہشتگردسابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے بیٹے اور امریکی شہری وارن اسٹائن
کے اغواء میں بھی ملوث تھے۔تاہم سی ٹی ڈی کی کارروائی کا پول اس وقت کھلا
جب عینی شاہدین نے مجرمانہ آپریشن سے پردہ اٹھایا اور جاں بحق افراد کے
ورثاء نے فیروزپورروڈ لاہور میں بھرپور احتجاج کیا،اس موقع پر اہل علاقے نے
میڈیا کوبتایا کہ جاں بحق افراد بے گناہ ہیں ہم ان کو جانتے ہیں وہ یہاں
35برس سے رہائش پذیر ہیں۔
ساہیوال واقعہ یقینا ایک عام واقعہ نہیں ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کو اسی
تک محدود رکھا جائے۔بلکہ یہ واقعہ کئی سوالات کو بھی جنم دے رہا ہے کہ سی
ٹی ڈی کی ماضی میں دہشتگردوں کیخلاف کی جانیوالی کاروائیاں حقیقت تھیں یا
ان میں بھی معصوم لوگوں کو نشانہ بنایا گیااور پھر دہشتگرد بنا کرقوم کے
سامنے پیش کردیا گیا۔ انسانی حقوق حقوق کمیشن پاکستان کے اعداد و شمار کے
مطابق یکم جنوری2014ء سے 11مئی 2018ء تک مجموعی طو رپر2117پولیس مقابلے
ہوئے جس میں 3,345افراد پولیس مقابلوں میں مارے جاچکے ہیں، جن
میں23خواتین،12بچے بھی شامل ہیں۔ ساہیوال واقعہ پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ
اگر ان افراد پر دہشت گردی کا شبہ ظاہر کیا گیا تھا تو پولیس مقابلہ ہی
کیوں ضروری سمجھا گیا انہیں زندہ گرفتار کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی جبکہ
ان کی جانب سے کسی قسم کی فائرنگ اور مزاہمت بھی نہ کی گئی تھی ۔ کراچی میں
ایس ایس پی ملیر راؤانوار کے ہاتھوں مارے جانے والے نقیب اﷲ کے قتل کے بعد
حکومت پر سوالیہ نشان بنانے والا یہ دوسرا سنگین واقعہ ہے۔ساہیوال واقعہ
میں 14سالہ اریبہ کا قتل بذات خودبڑا ظلم ہے لیکن ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ
اس کومارنے کے بعد دہشت گرد بھی قرار دے دیا گیا۔ حکومت پنجاب کی جانب سے
پولیس کلچرمیں تبدیلی کا اعلان کئی مرتبہ کیاگیا ہے، پولیس اہلکاروں کی
تنخواہوں، مراعات اور تعداد میں اضافہ کیا گیا ہے، ان کے لئے سازوسامان اور
گاڑیاں بڑھائی گئی ہیں لیکن نتیجہ ابھی تک صفر ہے۔ پولیس کا اصل کام تو
عوام میں تحفظ کا احساس پیدا کرنا تھا، بدقسمتی سے اس اہم ادارے نے عوام
میں عدم تحفظ کا احساس اس حد تک پروان چڑھا دیا ہے کہ شہری پولیس وردی میں
ملبوس رضا کار کو دیکھ کر سہم جاتے ہیں۔ ناکوں پر شہریوں کو تنگ کیا جاتا
ہے،شہریوں سے رقوم بٹورنے کے لئے مختلف حربے استعمال کیے جاتے ہیں، جامہ
تلاشی ، موٹر گاڑیوں کے کاغذات اور ڈرائیونگ لائسنس کی پڑتال کے دوران
شہریوں کو زد و کوب کیا جانا معمول کی بات ہے، جس سے بچنے کے لیے بعض شہری
ناکے پر نہیں رکتے اور فرار کی کوشش کرتے ہیں۔ وزیر اعظم پاکستان پولیس کے
نظام میں اصلاحات اور پولیس کلچر کو تبدیل کرنے کی خواہش رکھتے ہیں، ضرورت
اس امر کی ہے کہ فوری پولیس اصلاحات کی جائیں تاکہ شہریوں کا پولیس پر
اعتماد بڑھے۔ساہیوال واقعہ کی تحقیق کے بعد زمہ داروں کو قرار واقعی سزا دی
جائے ۔حکومت کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ساہیوال واقعہ کی انکوائری کا
حال بھی راؤ انوار کیس کی طرح نہ ہو ،اگر راؤ انوار کا مقدمہ منطقی انجام
تک پہنچ جاتا تو شائد یہ واقعہ پیش نہ آتا۔حکومت کو چاہیے کہ زندہ بچ جانے
والے معصوم بچوں کی تاحیات کفالت کی ذمہ داری اٹھائے تاکہ ان معصوموں کے دل
ودماغ پرواقعہ سے متعلق خوف ختم ہوسکے اوران کا پاکستانی اداروں کے خلاف
منفی تاثر قائم نہ ہوسکے۔ |