2018ء رخصت ہوا ،چند لمحات ہوئے سال نو 2019ء کا آغاز
ہوچکا۔ جانے والے سال کو خدا حافظ اور آنے والے کو مرحبا ، خیر سے آئے،
برکتیں اور خوشیاں لائے، پریشانیوں سے محفوظ رکھے، بیماروں کو شفاء ملے، بے
روزگاروں کو روزگار، مشکل میں گرفتاروں کی مشکل ہو دور۔ مسلمان کی حیثیت سے
ہمارا نیا سال یعنی اولین مہینہ تو محرم الحرام ہے جب کہ آخری مہینہ ذولحجۂ
کا مہینہ ہے۔ یعنی ہماری ابتدا قربانی اور انتہا قربانی ہے۔ بد قسمتی سے
پاکستان قائم تو ہوا اسلام کے نام پر لیکن بہت سے معاملات میں اسلامی
تعلیمات پر عمل نہیں ہوتا ان میں سے ایک ماہ و سال بھی ہیں۔ یہاں انگریزی
مہینوں اور تاریخوں کے مطابق عمل ہوتا ہے۔ بمشکل تمام جمعہ کی چھٹی بھٹو
صاحب نے کردی تھی لیکن حکومتوں نے کچھ اور تو نہ کیا اس اسلامی کام کو
دوبارہ جمعہ کے بجائے اتوار مقرر کردیا دلیل یہ دی گئی کہ پوری دنیا اتوار
کو بند اور جمعہ کو جاگ رہی ہوتی ہے تو ہم جمعہ کو کیسے سوجائیں ۔ ملک کا
نقصان ہوتا ہے ، دنیا جاگ رہی ہوتی ہے بھلا پاکستانی قوم اس دن کیسے سوتی
رہے وغیرہ وغیرہ ۔ سعودی عرب سمیت کئی اسلامی ممالک میں جمعہ کی چھٹی ہوتی
ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کی منطق اپنی الگ ہی ہے۔ اسلامی سال اور اول مہینے
کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اسے کوئی کم نہیں کرسکتا ، بے شمار کام ہم چاند
دیکھ کر ہی کرتے ہیں حج کا دن مقررہے، قربانی کا دن متعین، رمضان کے روزے
رکھتے ہیں چاند دیکھ کر اسی طرح بہت سے کام چاند دیکھ کر ہی کر رہے ہوتے
ہیں لیکن زیادہ کام انگریزی مہینوں اور دنوں کے اعتبار سے ہورہا ہوتا ہے۔
سب سے اہم بات اجرت یعنی تنخواہ ملتی ہے انگریزی مہینے کے ختم ہونے کے بعد
، چھٹی کے معاملے ہماری قوم خود کفیل ہے یعنی اسلامی تہوار ہو تب چھٹی
انگریزی مہینوں میں کوئی تہوار ہو تب چھٹی ،اس لیے ہماری زندگی میں انگریزی
مہینے اور دنوں کا عمل دخل زیادہ ہے۔گزرے سال کے لیے دعائے خیر اور نئے آنے
والے کو خوش آمدید۔
سال گزشتہ کا احتساب ضروری ہے ، ویسے بھی 2018 ء بہت سی باتوں کے حوالے سے
میں ہمیشہ یادرکھا جائے گا، پاکستان کی تاریخ خاص طور پر سیاسی تاریخ اس
سال کے اہم واقعات کے بغیر ادھوری رہے گی۔پاکستان کے حکمراں خاندان جو شریف
خاندان کہلاتا ہے پر یہ سال بھی سالِ گزشتہ کی طرح بہت بھاری رہا اتنا
بھاری کہ اس نے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف کو اقتدار سے ہی محروم
انہیں کیا بلکہ دونوں میاں نواز شریف کو جیل جانا پڑا ور میں شہباز شریف
احتساب عدالت کی تحویل میں ہیں ۔احتساب کے حوالے سے یہ بہت سوں کو بہت یاد
ہی نہیں آئے گا بلکہ خون کے آنسو رلائے گا۔نواز شریف کے بعد شہباز شریف کا
احتساب ہونا دوسری جانب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف ہونا،نون لیگ کے دیگر
کئی رہنماؤں پر یہ سال بہت بھاری گزرا، کئی رہنماؤ ں کی آوازیں اس سال نے
بندد کردیں۔ کچھ جیل میں کچھ عدالتی حکم پر نااہل۔ پاکستان پیپلز پارٹی کا
سندھ تک محدود ہوجانا، آصف علی زرداری کے گرد گھیرا تنگ ہونا اس سال کے
کارناموں میں سے ایک ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کا عمران خان کی قیادت میں
حکومت کی باغ ڈور سنبھالنا۔ سیاسی حوالوں سے پاکستان میں تبدیلی کا سال
ثابت ہوا۔ عرصہ دراز کے بعد دو جماعتوں کو شکست اور تیسری قوت کا بر سرِ
اقتدار آنا اس سال کے نمایاں کارناموں میں سے ایک ہے۔
سال جو بیت گیا اس کا پوسٹ مارٹم تحقیقاتی ادارے پاکستان انسٹی ٹیوٹ فار
کانفلکٹ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز(پکس) نے پیش کیا ہے۔ اس کے مطابق پاکستان میں
دہشت گردی میں کمی واقع ہوئی سال گزشتہ کی نسبت اس سال خود کش حملوں میں
کمی ہوئی۔پختونخواہ میں صورت حال بہتر ، بلوچستان میں ابتری برقرار رہی ،
فاٹا میں اغوا کے واقعات بڑھے، گلگت بلتستان میں کوئی واقعہ رپورٹ نہیں
ہوا۔ امریکی ڈالر کے اوپن مارکیٹ میں اضافہ ہوا ، ڈالر کی اس بڑھتی ہوئی
قدر پاکستان میں مہنگائی کا باعث بنی اور مہنگائی کی شرح پانچ فیصد سے بھی
زائد کے اضافے کا سبب بنی، یورو کی قدر میں اضافہ ہوا ۔ دہشت گردی کے
واقعات میں کمی ضرور آئی یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان واقعات کے درمیان وقفہ
زیادہ دکھائی دیا لیکن دہشت گردی کے واقعات ختم نہیں ہوئے۔ جاتے جاتے یہ یہ
سال متحدہ قومی موومنٹ کے فیصل رضاعابدی کو اپنے ساتھ لے گیا۔ بچوں کے ساتھ
زیادتی کے واقعات بھی ہوئے ننھی زینب قتل ایسے درد ناک واقعات اس سال رونما
ہوئے۔
پاکستان کی پارلیمنٹ جس میں ہمارے منتخب نمائندوں کا بنیادی کام قوانین بنا
نا ہے قومی اسمبلی کے اگست سے دسمبر تک6 سیشن ہوئے اوراجلاسوں کے
40اکاروائی چلی ۔ایکشن 2018 میں جن جماعتوں کو شکست کا سامنا اٹھانا پڑا ان
میں ایم کیوں ایم، جماعت اسلامی، جمیعت علماء اسلام، عوامی نیشنل پارٹی
شامل ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنی ساکھ کو
کسی حد تک بچائے رکھا۔ نون لیگ حزب اختلاف اور پیپلز پارٹی سندھ کو
سنبھالنے میں کامیاب ہوگئیں۔ البتہ اسفند یار ولی، فضل الرحمٰن ، جماعت
اسلامی کو شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ الیکش کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف
مرکز اور پنجاب میں سادہ اکثریت اور خیبر پختونخواہ میں واضح اکثریت سے
حکومت بنانے میں کامیاب رہی۔
احتساب کا دن قدرت کی طرف سے مقرر ہے، نصیحت ہوجانی چاہیے نواز شریف کی نا
اہلی سے، کہ بڑے سے بڑے اقتدار کا سورج غروب ہوسکتا ہے۔ بات کپتان کی درست
ہے کہ نواز شریف تم درست کہتے ہو کہ تمہارے خلاف فیصلے کوئی طاقت کرارہی ہے
، واقعی یہ سب کچھ کوئی طاقت کرارہی ہے اور وہ طاقت ہے اللہ کی ۔ تمہیں
اللہ کی طرف سے سزا ملی اور اب بھی مل رہی ہے۔ لیکن تم پھر بھی نہیں
سدھرتے، پھر بھی راہے راست پر نہیں آتے، جب آنکھوں پر اقتدار کی پٹی بندھ
جائے تو پھر کچھ نظر نہیں آتا، نہ عزت، نہ جائیدار، نہ بیوی،نہ بیٹے ، نہ
بیٹی، نہ داماد ، نہ سمدھی۔ یہ ایسی ظالم چیز ہے اقتدار یہ اپنے آپ کو بھی
بھلادیتی ہے۔
سال 2018ء میں کئی شخصیات ہم سے جدا ہوگئیں ان میں علماء ،اساتذہ،
سیاستداں، صحافی، اداکار، لکھاری ، مصور، ماہر امور خانہ داری اور دیگر
شامل ہیں۔ ان میں مذہبی رہنما حاجی عبد الوہاب، پاکستان فضائیہ کے پہلے
مسلمان کمانڈر انچیف اور ممتاز سیاستداں محمد اصغر خان ، معروف وکیل عاصمہ
شیرازی، سلیم شہزاد، مظفر احمد ہاشمی ، جام ساقی، طاہر احمد سندھو، الیاس
شاکر، سلیم صدیقی، ااکرام الحق، مشتاق احمد یوسفی، مرزا محمد کاظم، محمد
علوی، منو بھائی، ساقی فاروقی، طاہر چودھری، نذیر احمد ساجد،فلم ڈائیکٹر
الطاف قمر، مصور انعام راجہ، اداکارہ مدیحہ گوہر، قاضی واجد، طاہر اقبال،
کیلی گرافر شمع راؤ، ماہر امور خانہ داری زبیدہ طارق ، سائنداں ڈاکٹر اشفاق
احمد، نثار احمد نثار اورفیصل رضا عابدی شامل ہیں۔
اپنی ذات کی بات کروں تو اس سال بہت سے نئے دوست بنے ۔ محبت کرنے والے عزت
دینے والے۔ فیس بک پر میرے دوستوں کی تعداد 4000ہوچکی ہیں۔ دوستوں کی محبت
اور چاہت کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ دسمبر میں ایک پوسٹ بعوان ’’رفاقت
کے 43 سال ہم سفر کے ساتھ‘‘۔ اس پوسٹ پر لائیک اور کمنٹس کرنے والے دوستوں
کی تعداد ایک ہزار ہے۔ میں ان تمام دوستوں ، عزیزوں ، ساتھیوں کا ممنون ہوں
جنہوں مجھ سے محبت کا اظہار کیا، دعاؤں سے نوازا۔ اس سال میرے لکھنے کی
رفتار بھی سابقہ سال کی طرح حوصلہ افزارہی۔ سو (100)مضامین اور کالم اس
دوران تحریر کیے۔ ایک کتاب ’’رشحاتِ قلم ‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئی۔
2019 جو 12ماہ یعنی365دن ہمارا مہمان رہے گا۔ اگر اس نے سابقہ مہمانوں کی
پیروی کی، ان کی طرف دیکھتا رہا تو پھر وہی کچھ ہوگا جو ماضی میں ہوتا رہا
، ممکن ہے اور ہماری دعا بھی ہے کہ یہ سابقہ مہمانوں سے مختلف ہو، اس کے
ارادے نیک اور سوچ مثبت ہو، یہ نیکیوں کا پرستار ہو برائیوں سے نفرت کرتا
ہو ، امن کا داعی ہو، جنگ سے نفرت کرتا ہو ۔ پاکستا ن وہ واحد ملک ہے جو
اسلام کے نام سے قائم ہوا، اللہ کی رحمت و خصو صی عنایت اس ملک پر اس ملک
کے عوام پر رہیں ہیں اور انشاء اللہ جاری و ساری رہیں گی۔ ہمیں اچھی امید
رکھنی چاہیے۔ میری بھتیجی دردانہ عارف نے ایک پیغام بھیجا تھا گزشتہ برس
اسے یہاں پھر نقل کررہا ہوں، ممکن ہے اسے کسی اور نے بھیجا ہو ، پر اچھا ہے
’’ دسمبر اب کے جانا تو دلوں کے میل، حسد کی آگ،بری نظریں ، گھٹن اور
بدگمانی سب تم اپنے ساتھ لے جانا ، جہاں تم ڈوبتے ہونا وہیں ان کو بھی دفنا
دینا، تم تحفے تو بھیجو گے ؟ جنوری کے ہاتھوں؟ محبت بے تحاشا سی خلوص و گرم
جوشی بھی، بے غرض ناطے، گہرے تعلق اور نرم سے دل جو سب کے لیے دھڑکتے ہوں
بھجوادینا‘‘۔ اسی قسم کا اظہار ادب کی چاشنی لیے حبیبہ طلعت نے کیا ’وہ
دھڑکتے دل جو خلوص و وفا کی مالا جپتے ہوں، جو کچھ کہتے ہیں تو ان کے لفظ
مہر و محبت سے مہکتے ہیں، وہ دل جو نگاہ بنتے ہیں تو پیار کی پھوار سے
شرابور کردیتے ہیں ، جنوری اب کے آؤ یہی دل لے آنا، وگر نہ وہاں یہ دل لے
جانا جو سچے اور سچے دلوں کا متلاشی ہے‘۔
|