تھوڑی پی لئی اے تے کی ہویا۔۔۔۔!!!

کوئی بھی انسان ہو اس کی نشوونمااور کردار سازی پر ماحول بہت گہرا اثر ڈالتا ہے اگر نشوونمااور کردار سازی ایسے ماحول میں ہوئی ہے جہاں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کی صلاحیت ہے تو انسان بہت سے ایسے افعال سے بچ جاتا ہے جن کو سرانجام دینے سے اسکو پچھتاوے کے علاوہ کچھ نہیں ملتااور اگر نشوونمااور کردار سازی ایسے ماحول میں ہوئی ہو جہاں غلط کو غلط اور صحیح کو صحیح کہنے کا ہمت و حوصلہ ہی نہ ہو تو ایسے معاشرے میں نشوونما پانا یا نہ پانا ایک برابر تصور ہوتا ہے ۔ایک گیت جو شہرت کی بلندیوں کو چھورہا ہے اسکے الفاظ کچھ اسطرح کے ہیں کہ’’ تھوڑی پی لئی ہے تے کی ہویا‘‘یعنی تھوڑی سی پی لی تو کچھ نہیں ہوا زیادہ پی لیں گے تو کچھ نہ کچھ ضرور ہوگا۔ہروہ شخص جو معاشرے میں اپنی حیثیت رکھتا ہے اور مشہور انسان ہے تو لوگ اس کو دیکھتے ہیں اس کی زندگی کو نوٹ کرتے ہیں وہ کس طرح کے کام کرتا ہے کیسے کپڑے زیب تن کرتا ہے ایسے فرد کے چاہنے والوں کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے ایسے افراد اگر کوئی بات پسندکریں تو اسکے چاہنے والے بھی اس کی بات کو پسند کریں گے اور اسکا ساتھ دیں گے ۔

جو بھی صلاحیت اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ہاتھ میں دی ہے اس کو صحیح استعمال کریں تو دنیا اور آخرت دونوں میں بھلائی ہے کیونکہ اگر آپ کو یہ معلوم ہے کہ لوگ آپ کی بہت سی باتیں نوٹ کرتے ہیں تو آپ کو ایسا کام نہیں کرنا چاہیے کہ آپ کی کسی بھی بات کی وجہ سے کوئی ایک انسان بھی غلط رستے پر نہ چل پڑے کیونکہ اگر ایک بھی انسان غلط رستے پر چل پڑا تو اس دنیا میں تو پریشانی ہوگی ہی آخرت میں بھی پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔شراب کو حرام قرار دیا گیا ہے اور حرام کا ایک لقمہ بھی اندر چلا جائے تو دعا قبول نہیں ہوتی ۔اگر ہم دوسروں کو حرام کام کرنے بارے مشورے دیں گے یا ایسا کام کریں گے جس کی وجہ سے لوگ حرام کام کی طرف راغب ہوں تو اس کا مستقل گناہ ہمارے سر ہے ۔

گناہ چھوٹا ہو یا بڑا گناہ کو گناہ ہی کہا جاتا ہے یہ نہیں کہ تھوڑا سا گناہ کیا جائے تو گناہ نہیں کہلائے گا اور اگر بہت بڑا گناہ کر لیا جائے تو وہ گناہ کہلائے گا ۔اسی طرح ’’تھوڑی پی لئی اے تے کی ہویا‘‘مطلب اگر ہم تھوڑی شراب پی لیں تو کچھ نہیں ہوگا اگر زیادہ پی لیں گے تو کچھ ہوگا۔۔؟؟؟اب اس گیت کو لاکھوں افراد سن رہے ہیں اور مست ہورہے ہیں۔اس گیت کا ہر لفظ اس کے دیوانوں پر اس طرح اثر رکھتا ہے کہ وہ تھوڑی شراب پینے کو گناہ ہی نہیں سمجھتے ،اکثر افراد یہ جانتے ہوئے بھی کہ شراب کا ایک قطرہ پیئے اور اپنے کیئے پر توبہ نہ کرے تو اس پر جنت حرام ہوجاتی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ اگر کوئی شخص کسی فرد کو برائی کا مشورہ دے تو برائی کرنے والا اور مشورہ دینے والا دونوں برابر کے گناہ گار ہوتے ہیں ۔

اگر آپ میں یہ صلاحیت نہیں کہ آپ کسی کو نیکی کی طرف راغب کر سکیں تو خداراایسا کام بھی نہ کریں جس سے لوگ گناہ کی طرف مائل ہوں۔ اﷲ نے اگر آپکو لکھنے کی صلاحیت دی ہے تو خدارا ایسا لکھیں جس سے کسی کو فائدہ ہو۔۔۔۔جس سے علم میں اضافہ ہو۔۔۔۔جس سے مسائل کے حل میں مدد مل سکے۔۔۔۔جس سے انصاف کے حصول میں آسانی ہوسکے۔۔۔۔جس سے بُرائی کا خاتمہ ہوسکے۔۔۔۔جس سے حق سچ کی فتح ہوسکے۔۔۔۔جس سے ملک کی ترقی ہوسکے۔۔۔۔ایسا نہ لکھیں جس سے لوگ برائی کے رستے پر چلنا شرو ع کر دیں ،ایسا نہ لکھیں جس سے اچھائی کا دیا آخری سانسیں لینے لگے اور بُرائی کا جہاز بلندیوں کو چھونے لگے ۔دنیاکی عدالتوں میں تو شاید کہیں کچھ نہ کچھ آپکو رعایت مل جائے مگر اُس ر ب کی عدالت میں ذرہ برابر بھی رعایت نہیں ملنے والی۔۔۔۔۔تو ڈریں اس وقت سے جب کڑا احتساب ہوگا ۔۔۔

اپنے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کہیں نہ کہیں ہماری وجہ سے کوئی غلط رستے پر تو نہیں لگ گیا اگر ایسا ہے تو فوراً اﷲ کے حضور معافی مانگیں ۔۔۔۔اور آئندہ کی زندگی اُن اصولوں پر گزاریں جو ہمیں بتائے گئے ہیں کیونکہ جس طرح کسی کو ایک اچھی بات بتانا ثواب ہے اسی طرح آپ کے کسی عمل سے کوئی بُرائی چھوڑ کر اچھائی کی طرف لگ جائے تو یہ مستقل ثواب ہوگا۔۔۔اس لئے مستقل ثواب کے رستے نکالیں اور مستقل گناہ کے رستوں کو چھوڑ دیں ۔۔۔اﷲ ہم سب کی مغفرت فرمائے اور صحیح رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔۔۔آمین
 

Salman Ahmed
About the Author: Salman Ahmed Read More Articles by Salman Ahmed: 23 Articles with 22518 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.