آزادیِ رائے آزاد ہونی چاہیے

عمر یاد ہے تم پہلے عمیر کہلاتے تھے چھوٹا سا عمیر۔ پھر تم عمر بن گئے اور اونٹ چراتے تھے اور اب تم امیر المومنین عمر بن الخطاب کہلاتے ہو ہےنا؟ حضرت عمر بڑی بےتکلفی سے کھڑے اس بوڑھی عورت کی باتیں سن رہے تھے۔ حضرت عمر جن کی شخصیت کے سامنے بڑے بڑے سرداروں کے کندھے جھک جاتے اور آوازیں پست ہوجاتی تھی۔ لیکن ایک بوڑھی عورت حضرت عمر کو ڈانٹتی ہوئی لہجہ میں کہہ رہی تھی کہ فلاں کام کرو اور اللہ سے ڈرو۔ اور حضرت عمر فرما رہے تھے کہ ٹھیک ہے بہت اچھا۔ جب وہ عورت چلی گئی تو لوگوں نے پوچھا اے امیر المؤمنین یہ عورت کون تھی جس کے لیے آپ نے سارا مجمعہ روک دیا اور اس کی باتیں سننے لگے۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ یہ بی بی خولہ تھی جس کی درخواست اللہ نے سنی تھی اس کی درخواست عمر کیوں نہ سنے۔ خدا کی قسم اگر یہ تین دن بھی میرے ساتھ باتیں کرتی تو میں کھڑا رہتا۔ عزیزانِ من یہ بی بی خولہ ایک دن دربار رسالت میں اپنا مقدمہ لا کر کہنے لگی کہ یا رسول اللہ میرا خاوند جو میرے چچا کا بیٹا بھی ہے وہ میرا مال بھی کھا گیا اور میری جوانی بھی اور آج جب میں بوڑھی ہوچکی ہو تو کہتا ہے کہ تو میری ماں کی طرح مجھ پر حرام ہے۔ میں کہا جاؤ میں بوڑھی عورت ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خولہ تمہارے مسئلے کے بارے میں کوئی حکم اللہ کی کتاب میں نہیں ہے۔ جب تک اللہ کے کتاب میں کوئی حکم نہ آئے میں تیرے خاوند کے فیصلے کو برقرار رکھتا ہوں۔ تو بی بی خولہ غصے میں کہنے لگی اچھا قرآن میں سارے مسئلے ہے میرا مسئلہ نہیں ہے؟ تو رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بی بی غصہ کیوں کررہی ہو تیرے مسئلے میں ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں ہوا ہے۔ بی بی خولہ نے کہا آپ نے میری فریاد نہیں سنی (اشتکی الی اللہ) میں اللہ کے پاس اپنی شکایت لے جاتی ہوں۔ اور وہ ارحم الراحمین کو فریاد کرتی ہوئی جونہی دربار رسالت سے باہر نکلی تو اللہ نے یہ آیات نازل کئے (قدسمع اللہ قول التی تجادلک فی زوجھا وتشتکی الی اللہ واللہ یسمع تحاورکما) کہ اے پیغمبر جو عورت تم سے اپنے شوہر کے بارے میں بحث جدال کرتی اور خدا سے شکایت رنج ملال کرتی تھی خدا نے اس کی التجاء سن لی اور خدا تم دونوں کی گفتگو سن رہا تھا۔ عزیزانِ من بی بی خولہ کی داستان نے تاریخ اسلام میں آزادئ فکر کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔ کہ جب خدا کا نبی سابقہ روایات کے مطابق فیصلہ سناتے ہیں تو وہ عورت نہ صرف یہ کہ وہ فیصلہ قبول نہیں کرتی بلکہ خدا سے اپنا حق مانگنے کے لیے فریاد کرتی ہیں۔ اور اس کی فریاد آسمان کو چیرتی ہوئی ارحم الراحمین کے دربار تک پہنچتی ہے ۔ تو خدا وہ فیصلہ اسی عورت ہی کے حق میں کرتا ہے اور یہ نہیں کہتا کہ اے میرے بندی تیری اتنی جرأت کیسی ہوئی کہ زمین پر موجود میرے نبی کا کیا ہوا فیصلہ تو میرے عدالت میں لے آئی۔ اور نہ جماعت صحابہ میں سے کسی نے تلوار بےنیام کرکے یہ کہا کہ یہ عورت گستاخ ہے یہ پیغمبر کے فیصلے کو قبول نہیں کرتی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ میں ایسے متعدد واقعات ملتے ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ فرد کو فکر ورائے کی مکمل آزادی دیتے تھے چنانچہ اہل مدینہ نے جب اپنے ان یہودیوں کے حوالے کئے ہوئے بچوں کو جبراً مسلمان کرنے کی جو تجویز پیش کی تھی اس پر بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (لا اکراہ فی الدین)کی ضرب لگائی۔ عہد نبوی اور عہد صحابہ و تابعین کے دور زریں اور تہذیبی عروج کے زمانے میں حریت فکر وآزادئ رائے کی بہت اعلیٰ مثالیں ملتی ہیں۔ امام ابو یوسف کتاب الخراج میں لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا اے عمر اللہ سے ڈرو اور بار بار یہ دہرایا تو کسی نے اسے چپ ہونے کو کہا جس پر حضرت عمر نے یہ قیمتی الفاظ کہے کہ اسے کہنے دو اس لیے کہ تم میں کوئی خیر نہیں اگر تم ایسی بات مجھ سے نہ کہو اور ہمارے اندر کوئی خیر نہیں اگر ہم اس کو قبول نہ کریں۔ عزیزانِ من۔ اس زمانے میں حقیقی آزادئ رائے اور آزادئ فکر تھی۔ ان بندگان خدا سے تو ایسی روایات منقول ہے کہ اگر آج کوئی شخص اس کا اظہار کرے تو منبر و محراب اور دارلافتاء کے مسند نشین اہل علم اس پر بدعت و زندقہ سے اوپر یعنی کفر کا لیبل چسپاں کردیں گے۔ مثال کے طور پر عبداللہ ابن عمر کتابیہ سے نکاح کے قائل نہیں تھے۔ حضرت ابو حذیفہ سورج نکلنے تک سحری کھانے کو جائز سمجھتے تھے۔ حضرت ابنِ مسعود قرآن کی آخری دو سورتوں (الفلق، الناس)کو قرآن کی سورۃ تسلیم نہیں کرتے تھے وہ سمجھتے تھے کہ یہ دعا ہے جو جھاڑ پھونک کے لیے نازل کی گئی تھی۔ اور تو اور صحابہ میں ابنِ مسعود، ابنِ عباس، ابو سعید، ابو ہریرہ، اور آئمہ میں امام شعبی،امام ابنِ تیمیہ اور ابن قیم اس بات کے قائل تھے کہ کسی دن جہنم کو بھی فنا کردیا جائے گا اور بلآخر کفار بھی جنت میں داخل کردئیے جائیں گے۔ ابنِ قیم لکھتے ہیں کہ حضرت ابنِ مسعود نے تقریباً 100 مسائل میں حضرت عمر سے اختلاف کیا لیکن پھر بھی حضرت عمر ان کو علم و فقہ سے بھرا ہوا پیالہ سمجھتے تھے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے فتح الباری کے مقدمے میں 18ایسے راوی ذکر کئے ہیں جو شیعہ تھے اور جنکی روایات بخاری میں موجود ہے اور صرف شیعہ ہی نہیں بلکہ تمام فرقوں خوارج، معتزلہ، جہمیہ اور قدریہ وغیرہ سے اہل سنت والجماعت کے آئمہ حدیث، تفسیر اور فقہ و تاریخ نے بے شمار روایات لی ہے ۔ جس کی حقیقت سے کوئی بھی صاحب مطالعہ شخص انکار نہیں کرسکتا۔ اور محدثین کے سرخیل امام بخاری نے تو اپنی کتاب میں ایک رافضی سے بھی روایت لی ہے حالانکہ عام طور پر محدثین نے روافض کی روایات لینے سے احتراز کیا ہے۔ امام ابنِ تیمیہ سے منقول ہے کہ امام احمد بن حنبل نے جہمیہ اور قدریہ جیسے گمراہ فرقوں کی کھبی تکفیر نہیں کی ہے بلکہ انہوں نے بسا اوقات ان کے پیچھے نماز تک ادا کی ہے۔ اور اس پس منظر میں سب سے پیاری بات امام شافعی نے کی ہے۔ یونس صدقی کہتے ہیں کہ میں نے امام شافعی سے زیادہ عقلمند اور روادار کسی کو نہیں دیکھا ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ مناظرہ کیا پھر الگ ہوگئے پھر ایک دن ہماری ملاقات ہوئی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے ابو موسیٰ کیا یہ چیز بہتر نہیں ہے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی رہے خوا کسی مسئلے میں بھی ہم متفق نہ ہو۔ عزیزانِ من ہمارے اکابر و اسلاف نے بڑی شائستگی سے ایک دوسرے کے ساتھ علمی اختلاف کیا اور اس کا برملا اظہار بھی کیا لیکن کھبی بھی ایک دوسرے کی تکفیر نہیں کی اور نہ باہمی تعلقات قطع کئے اور نہ اپنی مسجدیں الگ کی ۔ اور آج ہم آپس میں علمی اختلاف کرنے کا سلیقہ بھول چکے ہیں آج ہم ایک دوسرے کی تکفیر بھی کرتے ہیں اور ہم نے اپنی مساجد بھی الگ کی ہے۔ جس کی وجہ سے فرقہ واریت پروان چڑھ رہی ہے۔ اور بڑے افسوس کے ساتھ ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ ہمارے دینی مدارس میں آزادئ فکر و آزادئ رائے پر سخت پابندی ہے بظاھر تو دینی مدارس میں امت کے اختلاف کو رحمت بتایا جاتا ہے لیکن اگر کوئی طالب علم اختلاف کرنے کی جسارت کرتا ہے تو پھر اس کے لیے زحمت بن جاتا ہے۔ مثلاً حنفی مسلک کے مدرسے میں اگر کوئی طالب علم حنفی فقہ کی تائید میں دلائل پیش کرے اور شافعی فقہ پر جرح کرے تو اختلاف رحمت ہے اگر وہ طالب علم اکابر علمائے احناف تو دور اپنے سامنے بیٹھے اس استاد سے اختلاف کرے تو پھر آپ اس کا حشر دیکھے کہ کیسے اس پر قیامت برپا کی جاتی ہے اس وقت امام ابو حنیفہ اور صاحبین کے درمیان اختلاف کو نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی حال دوسرے مکتب فکر کے مدارس کا بھی ہے۔ دوسرے مکاتب فکر کے اقوال پر مروجہ طریقے سے جرح و تعدیل کرنے پر ایک زمانے میں امام العصرعلامہ محمدانورشاہ کشمیری بہت روئے تھے کہ کل بروز محشر ہم ان آئمہ فقہاء و مجتہدین کو کیا جواب دیں گے۔ میں انتہائی ادب اور بڑی معذرت کے ساتھ اس بات کی جسارت کرونگا کہ ہمارے مدارسِ دینیہ میں فکری آزادی کے ساتھ تعلیم نہیں دی جاتی بلکہ اپنے اپنے نظریے کو ترویج دینے کی تعلیم دی جاتی ہے۔ عزیزانِ من میری طالب علمانہ رائے یہ ہے کہ اگر ہمارے دینی مدارس میں علماء کسی بھی نظریئے اور فرقے کا لبادہ اوڑھے بغیر ایک آزاد ماحول میں دینی علوم پڑھائے تو یقیناً ہم میں فرقہ واریت کے ٹھیکیدار نہیں بلکہ قرآن و سنت کی دعوت کے شہسوار پیدا ہوگے۔ ہمیں چاہیے کہ اپنے اکابر و اسلاف کی طرح اگر اختلاف کرے تو ایک دوسرے کی راۓ کا احترام بھی کرے اور سب سے بڑھ کر ہمیں امام شافعی کی بات پر عمل کرنا چاہیے کہ ہم آپس میں بھائی بھائی ہیں خواہ کسی مسئلے میں بھی ہم متفق نہ ہو۔ نیز دینی نظریہ ہو یا سیاسی نظریہ آزادئ فکر آزاد ہونی چاہیے۔

Malak gohar iqbal khan ramakhel
About the Author: Malak gohar iqbal khan ramakhel Read More Articles by Malak gohar iqbal khan ramakhel: 34 Articles with 34129 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.