ورٹیکل فارمنگ: ایک ایکڑ سے چار ایکڑ کی پیداوار کیسے؟

سانگھڑ میر پور خاص روڈ پر گنے اور سرسوں کی کئی سو ایکڑ پر پھیلی ہوئی فصلیں لہلاتی نظر آتی ہیں لیکن کنڈیاری شہر سے صرف چار کلو میٹر دور واقع 20 ایکڑ پر کی گئی کاشت یہاں ایک ماڈل اور نمائش فارم کا درجہ رکھتی ہے۔

چند سال قبل تک یہاں بھی روایتی فصلیں کاشت کی جاتی تھیں لیکن عدیل قائم خانی نے اسے غیر روایتی بنا دیا۔
 

image

کھپرو کے رہائشی 33 سالہ نوجوان عدیل قائم خانی کی تعلیم تو پولیٹیکل سائنس ہے لیکن کاشت کا شوق انھیں زرعی میدان میں لے آیا۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے عدیل قائم خانی کا کہنا تھا کہ وہ روایتی فصل جس میں گندم، کپاس اور گنا شامل تھے اگاتے تھے لیکن اس میں آمدن اتنی نہیں ہوتی تھی۔

’میں نے سنا کہ پنجاب میں لوگ ایک سے چار ایکڑ کی فصل لیتے ہیں تو پھر میں پنجاب گیا جہاں معلوم ہوا کہ ورٹیکل فارمنگ سے ایک ایکڑ سے تین ایکڑ کی فصل حاصل کی جاسکتی ہے۔

ورٹیکل کاشت کیا ہے؟
عام فصل زمین پر پھیلتی ہے جبکہ ورٹیکل فارمنگ میں یہ اونچائی کی جانب جاتی ہے جس کی افزائش کے لیے نائیلون کی جالی کا استعمال کیا جاتا ہے خاص طور پر کھیرے، توری اور کریلے جیسی سبزیوں کی کاشت کے لیے یہ طریقۂ کار مفید ہے۔
 
image

عدیل قائم خانی کے مطابق عام فصل میں آٹھ فٹ کا بیٹ چاہیے تاکہ اس پر بیل پھیل سکے جبکہ ورٹیکل میں یہ ہوتا ہے کہ اسے جالی کے سہارے سے لگا لیتے ہیں تو یہ چار پانچ فٹ اونچائی تک چلی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انھیں قریب بھی لگاتے ہیں ورنہ روایتی کاشت پر ایک بیل دوسری سے آٹھ فٹ دور لگانی پڑتی ہے اس طرح ہم ایک ایکڑ میں سے چار ایکڑ کی پیدوار حاص کر لیتے ہیں۔

غیرموسمی کاشت
عدیل قائم خانی موسم گرما کی سبزیاں سردی میں کاشت کرتے ہیں جس کی وجہ سے ان کی پیداوار عام فصل کے مقابلے میں دو تین ماہ پہلے مارکیٹ میں آ جاتی ہے جس سے انھیں تین سے چار گنا زیادہ نفع ہوتا ہے۔ اس کے لیے وہ ورٹیکل فارمنگ کے ساتھ ٹنل کا طریقہ استعمال کرتے ہیں جس میں لکڑی اور پولیتھن کی مدد سے خیمہ نما فارم بنا کر درجۂ حرارت کو کنٹرول کیا جاتا ہے۔

عدیل کے مطابق ’جیسے توری فروری میں اگتی ہے لیکن ہم اسے نومبر میں اگاتے ہیں اور اسے سردی سے بچا لیتے ہیں، اس کو ہم ورٹیکل لگاتے ہیں اس سے ہمیں فی ایکڑ پیدوار زیادہ ہوتی ہے اور یہ مارکیٹ میں پہلے آ جاتی ہے۔ عام طور پر سیزن میں توری 250 رپے فی دس کلو فروخت ہوتی ہے لیکن غیر موسم میں ہمیں سات سے آٹھ سو رپے فی دس کلو مل جاتی ہے۔

کم خرچ زیادہ منافع
عدیل 12 مہینے سبزیوں کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کے مطابق وہ 15 ایکڑ توری، پانچ ایکڑ کھیرا اور دس ایکڑ پر کریلے کی کاشت کرتے ہیں۔ ’میں نے دو ایکڑ سے 1600 سے 1800 من کھیرے کی پیدوار حاصل کی اور 1100 سے 1200 روپے من ریٹ گیا ہے، اس طرح میں نے 20 لاکھ روپے دو ایکڑ سے بنائے اگر میرا پورا خرچہ آپ نکال دیں تو پانچ ساڑھے پانچ لاکھ روپے خرچہ بنے گا مجھے چار سے پانچ لاکھ روپے فی ایکڑ بچت ہوئی ہے جو روایتی کاشت میں 30 سے 40 ہزار سے زیادہ نہیں ہوتی۔
 
image


سانگھڑ کا شمار سندھ کے ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں پانی کی قلت ہے اور ہزاروں ایکڑ زمین غیر آباد اور بنجر نظر آتی ہے۔

عدیل کا کہنا ہے کہ جب ورٹیکل فارمنگ میں چار ایکڑ کی پیداوار ایک ایکڑ زمین سے حاصل کرتے ہیں تو اس سے لاگت پر بھی فرق آتا ہے اور پانی کی کھپت کم ہوجاتی ہے۔

جو پانی چار ایکڑ کو ملنا تھا صرف ایک ایکڑ کو دینا پڑتا ہے۔ یہ پانی کہیں اور استعمال ہو سکتا ہے اس کے علاوہ کھاد اور زرعی ادویات کا استعمال بھی محدود رہتا ہے اور مزدوری بھی بچ جاتی ہے۔

ورٹیکل فارم کی تیاری
ورٹیکل فارمنگ میں زیادہ تر مختلف سائز کے بانس استعمال کیے جاتے ہیں۔ عدیل قائم خانی کے مطابق پنجاب سے یہ چھوٹے بانس آتے ہیں جنھیں موڑ کر فریم بنایا جاتا ہے اور فی ایکڑ پر 50 ہزار روپے لگ جاتے ہیں۔ اسی طرح 50 ہزار روپے پولیتھن پر خرچ آتا ہے جو دو سال چل جاتی ہے کیونکہ جب درجۂ حرات معمول پر آ جائے تو ہم پھر اس کو اتار کر رکھ لیتے ہیں۔ اس طرح فی ایکڑ پر ہماری سرمایہ ایک لاکھ روپے ہے۔

عدیل کا کہنا ہے کہ سندھ کے مقابلے میں پنجاب میں جدید طریقوں پر زیادہ کام ہو رہا ہے یہاں ہم بانس لگاتے جبکہ وہاں پائپ لگایا جاتا ہے جو فی ایکڑ دو لاکھ روپے کا خرچ ہے۔ اس کی تنصیب کے لیے سبسبڈی ملتی ہے یعنی 20 فیصد کاشت کار کو دینے ہیں اور 80 فیصد حکومت دے گی۔ اسی طرح ڈرپ ایریگیشن نظام وہاں سولر سسٹم کے ساتھ دیا جا رہا ہے جس میں 20 فیصد کاشت کار کو دینے ہیں جبکہ 80 فیصد حکومت دیتی ہے اس کے برعکس سندھ میں 40 فیصد کاش کار کو دینا ہے۔
 

image

ورٹیکل فارمنگ اور کسان
سندھ میں خاص طور پر زیریں اضلاع میں زمیندار اور کاشت کار کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ سانگھڑ سمیت کئی اضلاع میں جبری مشقت کی شکایات بھی سامنے آتی ہیں۔ عدیل قائم خانی کا کہنا ہے کہ ورٹیکل فارمنگ سے یہ تعلق بہتر اور خوشگوار رہتے ہیں۔

’میری زمین 20 ایکڑ ہے جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو ہمیں چننے کے لیے 30 سے 35 لوگ چاہیں ہوتے ہیں جو آسانی سے مل جاتے ہیں۔ جب ہمیں آمدن اچھی ہو گی تو ہم ادائیگی بھی اچھی کریں گے۔ روایتی فصلوں میں یہ ہوتا ہے کہ اس میں آمدن اتنی ہوتی نہیں ہے بندہ یہ دیکھ رہا ہوتا ہے میں کیسے زیادہ منافع کماؤں اس لیے وہ مزدور کو زیادہ ادائیگی بھی نہیں کرتا ہے۔‘

Partner Content: BBC URDU

YOU MAY ALSO LIKE:

You would ned to do a cost analysis covering the cost of the equipment and the maintenance which would include the energy required to grow a crop for say 30 days against the market price of the end product. Shoot out this analysis for six months covering both fixed and variable costs and limit yourself to crops which have a short maturity such as leafy vegetables.