انسانیت اور اخلاقیات

قرآن مجید میں اﷲ تعا ٰلیٰ سورۃ التین میں ارشاد فرماتا ہے کہــ یقینا ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا۔

انسان اشرف المخلوقات ہو نے کی وجہ سے انسان کے بس میں بہت کچھ ہو تا ہے ۔ انسان اپنی قسمت کود بناتی ہے وہ دریاؤں میں راستہ بنانے سے لے کر آسمان پر کمندین ڈالنے تک کہیں بھی ہو بے بس نظر نہیں آتا۔ اﷲ تعا لیٰ نے انسان کو بے حساب خو بیوں اور ان گنت صلاحیتیں دی ہیں جن کو استعمال کرکے نہ صرف دنیا میں ترقی کے منازل طے کر سکتے ہیں بلکہ اپنی ہی اعمال سے آخرت کو بھی سنوار سکتے ہیں۔ مگر آج کا انسان اتنی ترقی کرنے کے باوجود اخلاقی طور پر اس قدر کمزور ہو چکا ہے کہ اسے اخلاقیات کے کونسے درجے پر شمار کیا جا ئے سمجھ سے بالا تر ہے یہ بات ہمارے لئے کسی سبق سے کم نہیں ہے کہ انسان جتنی اونچائی کی طرف جائے اس کا وزن کم ہوتا ہے کیونکہ یہ قانون فطرت کا تقاضا ہے۔ لیکن اس کی دوسری رخ ہم جتنی زیادہ ترقی کے منازل طے کرتے جا رہے ہیں ہمارا وزن بڑھتا جا رہا ہے ہماری آنا اور نفس کو تقویت ملتی جا رہی ہے۔ ہماری چال میں اکڑ اور دماغ میں غرور ساتھ ساتھ ہمارے معاشرے میں حیا کا تصور ختم ہو تا جا رہا ہے۔ ہم اس قد ر بے حسی کے عالم میں ہیں کہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کو انسان سمجھنے سے قاصر ہیں۔ معاشرے میں پائی جانے والی ہمدردی، اخلاص ، اخوت ، صبر و برداشت جیسے الفاظ دن بہ دن نا پید ہو رہے ہیں۔ یہاں تک کہ ریا کاری اس قدر بڑھ چکا ہے کہ ہم نیک کا موں میں بھی ریاکاری اور ایک دوسرے کو دیکھانے کے علاوہ کچھ نہیں کر رہا ۔ اگر ہم ایک لمحہ کے لئے آنکھ بند کر کے سو چیں اور اپنی اوقات کا اندازہ لگا دیں تو حضرات انسان ننگے ہی آئے تھے اور اسی طرح ہی چالے جاتا ہیں۔ نہ آنے کے وقت اپنی لباس پہن سکتا تھا اور نہ جانے کے وقت۔تو اگر یہی ہے ہماری اوقات تو یہ غرور اور آکڑ کس بات کی۔ ہمیں اپنے وقت کسی کے ساتھ اچھائی میں گزار لینا چاہیے اگر ایسا ممکن نہیں تو خاموشی میں۔

لیکن اپنی قسمت بنانے والا انسان اپنی ہی شخصیت کے آگے کتنا بے بس اور مجبور ہے، کتنا خودنما اور خود پسند ہیں کہ گاڑیاں چلاتے وقت وہ کسی دوسرے گاڑی سے آگے نکلنے کے لئے پیدل چالنے والوں کو کیڑے مکوڑوں کی طر ح روند کر نکل جاتا ہے۔ سانحہ ساہوال جیسے دل خراش واقعات انسانیت کی جیتا جی موت ہے اور حکومت وقت اپنی اہلکاروں کو سزادینے کے بجائے انسانیت کو جیتا جی دفنانے پر تلا ہوا ہے۔ اور ایسے ہی واقعات ہماری اخلاقی اقدار کی وضاحت کر تا ہے۔ آج ہماری معاشرتی بد اخلاقی کی انتہا یہ ہے۔ کہ دوکان دار سے سودا لیتے وقت بحث کرتے کرتے گالم گلوچ ، ہاتھا پائی اور بھر اقدام قتل پر اتر آتے ہیں۔گھر میں کام کرنے والی معصوم بچی یا عورت کی عزت کب تار تار کی جائے یا کب پھر مار مار کر اسے زندگی بھر کے لئے معزور کر دیا جا ئے اس بارے میں کیا کہا جا سکتا ہے۔ گلی محلوں میں ہونے والی لڑائیاں کب دو چار گھروں کے اکلوتے سہارے چھین لیتے ہیں۔ یہ تو چند ایک مثا لیں ہیں ایسی ہزاروں کہانیاں ہمارے معاشرے میں پھیلی ہو ئی ہے۔ بہت سی ایسی مجبوریاں ہیں جو ہماری نظروں سے اجھل ہیں۔ اور وہ بھی ہم میں سی ہیں جو ان تمام مجبوریوں کے فائدہ اٹھاتے ہیں۔

اخلاقی طور پر کمزور ہونے اور انسان کو انسان نا سمجھنے کی سب سے بڑی وجہ مذہب سے دوری اور اسلامی تعلمات سے نا اشنا ہو نا ہے۔ اسلام بردباری اور رواداری کا درس دیتا ہے۔ ہمارے پیارے نبی ﷺکی سیرت پاک کا مطالعہ اور ان کی زندگی ہم سب کے لئے مشعل راہ ہے۔ ایک کامیاب زندگی کا راز ان تعلیمات میں چھپا ہوا ہے۔ مگر آج انتہائی افسوس کے ساتھ ہم ان تعلیمات کی بجائے اپنی زندگی فلمی ستاروں میں اور غیر مسلموں کے افعال میں ڈھونڈرہے ہیں۔ ہمیں سادگی میں پسماندگی دکھا دیتی ہے۔ ہمارا تعلیمی نظام اخلاق سنوارنے کے بجائے اس کی بگاڑ کا سبب بنتے جا رہے ہیں معاشرتی بے حیائی کو جدیدیت کا نا م دیا جا رہا ہے۔ سمجھوتہ کرنااور مسائل کا حل مل بیٹھ کر نکالنا ایک دوسرے کی کمزوری گردان لیا جات ہے۔ اور جھک جانا بزدلی معاف کرنا سب سے برا جرم مانا جاتا ہے۔ لیکن یہ سب دنیاوی حد تک ہی ہو گی بات صرف آنکھ بند ہونے کی ہے۔ اگر ہم سے ہر کوئی دوسروں کی اصلاح کے بجائے اپنی اصلاح پر توجہ دیں اور اپنی ہی قبلہ درست کریں تو کیا ہی اچھا ہوتا ۔ کیونکہ بارش کا پہلا قطرہ ہی سے دریا اور پھر سمندر بن جاتا ہے۔ سال نو کا پہلا آرٹیکل ہے امید ہے آپ سب حوصلہ افزائی کے ساتھ دعا کریں گے۔

اﷲ ہم سب کو ہدایت یافتہ لوگوں کی صف میں شا مل فرمااور ہمیں اپنی اصلاح کرنے کی توفیق عطا فرما۔

Ashraf Ahmed
About the Author: Ashraf Ahmed Read More Articles by Ashraf Ahmed: 6 Articles with 8783 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.