طریقہ اختلاف

عالمی گاؤں کے اس دور میں کہ جب دنیا جہاں کی معلومات محض ایک کلک کے فاصلے پر ہیں،آراء و نظریات میں اختلاف ایک یقینی امر ہے۔ لہذا اختلاف کریں لیکن حسن اخلاق کا دامن ہاتھ سے نا چھوڑیں کہ ایک سمجھدار انسان کس طرح بد اخلاقی کرسکتا ہے بھلے ہی مقابل لاکھ مخالف ہو۔ مانا کہ مذہبی جزبات مجروح ہوتے ہیں لیکن اس کا جواب بدزبانی سے دینے سے آپ اپنے نظریے کی خدمت نہیں الٹا نقصان کر رہے ہوتے ہیں ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھ لیں کہ اگر کچھ بزعم خود دانشور آپ کے مقدسات کے خلاف بغض رکھتے ہوئے ناجائز الزامات عائد کرتے ہیں اور اس وطن کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مقابلتا آپ اس شخص کو گالیوں اور الٹی سیدھی باتوں سے جواب دیتے ہیں۔ یہ گالیاں اور دشنام طرازی اس فرد کو ناصرف مزید مقبول بناتی ہے بلکہ اس کے لیے ڈھیروں فوائد حاصل کرنے کا سامان بھی پیدا کرتی ہے۔ یوں انجانے میں ہم دشمن کی بھرپور مدد کر رہے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ لوگ ہمارے دین اسلام اور ہماری مقدس شخصیات کے بارے میں زبان دراز کرتے ہیں اس پر ایک مخصوص طبقہ ہی نہیں ہر طبقہ سے دینی پہچان رکھنے والے احباب کی طرف سے اس قدر بد زبانی ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ، ستم بالائے ستم کہ اس بد زبانی اور گالم گلوچ کو دینی حمیت کو غیرت کا نام دے کر دفاع بھی کیا جاتا ہے۔ کوئی بتائے ان پگلوں کو کہ دین کی غیرت ان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے بڑھ کر تو ہر گز نہیں ہے اور ہمیں دین بھی انہی سے ملا۔ لہذا اگر ان سے بدزبانی تو کجا حسن اخلاق کے مظاہر ملیں تو ہم کیونکر اس زبان کے مرکتب ہوسکتے ہیں کہ جسے محبوب خدا محمد ﷺ نے ناپسند کیا ہے۔ ایک دلیل اور جو اس بد زبانی اور بد اخلاقی کے لیے پیش کی جاتی ہے کہ مخالفین بھی تو زبان دراز ہیں، لو بھلا مخالف کا غلط کام بھی کبھی دلیل ٹھہرا ہے وہ بھی ان مسلمانوں کے لیے جن کے نبی کریم ﷺ خلق عظیم کے مرتبے پر فائز ہیں۔ لیکن اب بات آتی ہے جواب دینے کی کہ پھر جواب کس طرح دیا جائے تومیرے عزیز احباب !جو اس کتاب چہرہ اور دیگر سماجی ذرائع ابلاغ کے مقامات پر وطن عزیز و اسلام کے دفاع کا بار گراں اٹھائے کھڑے ہیں ، سب سے پہلے ہدیہ تبریک قبول کریں اس مقدس مشن میں اپنی توانائیاں صرف کرنے لیے، اب کچھ گزارشات ہیں جن کو قابل اعتنا جانیے اور دفاع اسلام و پاکستان کا فریضہ مزید بہتر انداز میں ادا کیجیے۔

v سب سے پہلے اپنے مطالعے کو وسعت دیں اور کتب کا مطالعہ کریں اگر یہ طبعیت پر گراں گزرے توکسی ایک قومی اخبار کے کالم روزانہ کی بنیاد پر پڑھیں۔ البتہ دونوں کام ہوجائیں تو سونے پر سہاگہ ہے۔
v اعتراض کرنے والے کسی بھی مخالف کی آراء کو بغورپرکھیں اور اگر اس میں کوئی تاریخی یا سیاسی واقعہ مذکور ہو تو خود سے اس کو پڑھ لیں کہ یہ واقعہ در اصل کیا ہے۔ پھر اس کے بعد دلائل کی روشنی میں انتہائی بااخلاق انداز میں انہیں جواب دینے کی کوشش کریں
v فریق مخالف کی آراء اگر محض مبنی بر بغض ہو تو کنارہ کشی اختیار کریں اور قرآن مجید کی ہدایت پر عمل کریں کہ و اذا خاطبھم الجاھلون قالوا سلام۔ یعنی کسی جاھل سے واسطہ پڑے تو سلام کہہ کر رخصت ہوجائیں ۔ یاد رہے کہ ماضی قریب میں بہت سے مبنی بر بغض اسلام و وطن مخالف آراء کو ہم نےخود اس قدر پھیلایا کہ ان کو لکھنے والے اگر پورا زور بھی لگاتے تو اپنے اس مواد کو دسویں حصے تک بھی نا پہنچاپاتے۔
v خود کو عقل کل سمجھنے سے گریز کریں او ر ہمیشہ سیکھنے کے لیے تیار رہیں ۔ یوں بلندی کی طرف سفر جاری رہے گا لیکن اگر آگے بڑھنے کا عمل رک گیا تو پھر زوال لازم ہے کہ سکون موت ہے۔
v اخلاق کا دامن کبھی ہاتھ سے مت چھوڑیں اسوہ حسنہ پر پوری طرح سے عمل درامد کریں ۔ یاد رہے کہ کہ آپ کے الفاظ سے زیادہ مضبوط دعوت آپ کے کردار کی ہے ۔
 

Hanzla Ammad
About the Author: Hanzla Ammad Read More Articles by Hanzla Ammad: 24 Articles with 21868 views Doing M-Phil from Punjab University
A Student of Islamic Studies
.. View More