فقیر بہت سمجھ دار ہوتے ہیں لیکن پتہ نہیں پھر بھی
فقیر ہی کیوں رہ جاتے ہیں ؛ شاید فقیر رہنے میں ان کا فائدہ ہوتا ہے۔ فائدہ
تو ہر کوئی اپنا کرتا ہے اور اپنا فائدہ کرنے کا نام ہی ترقی اور ترقی کرنے
کا نام خوش حالی ہے ۔ حالیؔ تواردو کے ایک بہت بڑے نقاد ، شاعر اور سوانع
عمری لکھنے والے عظیم انسان کا نام ہے جس کا اردو ادب پر بڑا احسان ہے۔
احسان کرنے سے بچنا بھی چاہیئے اور کبھی کبھی کر بھی دینا چاہیئے کیوں کہ
احسان کرنے سے لوگ ناراض ہو جاتے ہیں، خفا بھی ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی
خلاف بھی ہو جاتے ہیں ۔ مخالفت تو زندگی کا ایک بہت بڑا صول ہے اس کے بغیر
تو زندگی کا وجود برقرا ررہ ہی نہیں سکتا ۔ انسان کی ساری کوشش اپنے وجود
کو برقرار رکھنے کے لئے ہی تو ہے۔ اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے انسان
بیرونِ ملک بھی چلا جاتا ہے اور اکثر کو وہاں قرار آ جاتا ہے اور ایسا قرار
آ تا ہے کہ وہ وہیں کے ہو کے رہ جاتے ہیں ۔ ویسے بھی انسان کو زندگی میں
کسی نہ کسی کا ہونا تو پڑتا ہے اور وہ کسی گوری کا ہو جائے تو زیادہ مزے کی
بات ہے بجائے کالیوں یا سانولیوں کا ہو ۔
پرانے زمانے میں انسان اگرچہ زیادہ پڑھے لکھے نہیں تھے، لیکن، ایسا کہا جا
سکتا ہے، وہ ستاروں سے اپنے مستقبل کا حال جانا لیا کرتے تھے جو کہ ترقی
یافتہ سائنس کے بس سے ابھی تک دور ہے۔ ستاروں کا انسان کی زندگی پر اثر
شاید بہت صدیوں بعد سائنس کی ریسرچ، ادراک اور عقیدے میں آ سکے۔ فی الحال
تو سائنس توانائی کے مسائل سے نمٹنے کی ناکام کوشش کر رہی ہے۔ اس ناکام
کوشش میں سائنس کے لئے مسائل کی فہرست مذید لمبی ہوتی جا رہی ہے، اور سائنس
دان پریشان ہیں کہ درجہ حرارت کو مذید بڑھنے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ اس
دنیا میں کسی کو بھی بڑھنے سے تو روکا جا ہی نہیں سکتا ،کیوں کہ یہ زمانہ
شخصی آزادی کا زمانہ ہے اس میں ہر کسی کو بڑھنے کا مکمل حق حاصل ہے چاہے وہ
کسی بھی سمت میں بڑھے، خاص طور پر درجہ حرارت اور قیمتوں کو بڑھنے سے کبھی
نہیں روکا جا سکا۔ قیمتیں اور انسانی خواہشات راست تناسب میں ہوتی ہیں اس
لئے نئی ایجادات کا زمانہ نت نئے عجوبے سامنے لائے گا اور ان کو حاصل کرنے
کی دلوں میں امنگیں جوان ہوں گی اور پھر قیمتوں یا درجہ حرارت کو کون روک
پائے گا۔ قیمتوں اور درجہ حرارت کے ساتھ ساتھ زمانے کو بھی آگے بڑھنے سے
کوئی نہیں روک سکتا۔ زمانے نے ابھی اور بہت آگے بڑھنا ہے اور نے نئے گُل
کھلانے ہیں اور ابھی انسان کو ایک جگہ سے دوسری جگہ فیکس کرنے کا زمانہ آنا
ہے جو کہ زمانے کو روکنے سے کبھی نہیں آئے گا ۔
وہ زمانہ ضرور آنا ہے جب انسان فیکس مشین سے نکلا کرے گا جو کہ ایک فریج
جیسی ہو گی۔ بٹن دبانے اور مناسب واجبات ادا کر کے انسان ایک فیکس مشین میں
داخل ہوا کرے گا اور اپنے مطلوبہ اسٹیشن، محلے یا گھر کی فیکس مشین سے باہر
آ جایا کرے گا۔اگر انسان کا میسج جا سکتا ہے، آواز اور تصویر بھی جا سکتی
ہے تو وہ خود کیوں نہیں جا سکتا ہے۔وہ بھی اک دن ضرور جائے گا۔ اگلے جہان
بھی تو سب نے جانا ہے اور کسی نے پیچھے نہیں رہ جانا، ویسے بھی ترقی کے اس
دور میں کسی میں پیچھے رہ جانے کا حوصلہ بھی نہیں ہے۔ پیچھے رہ جانا ویسے
بڑے مزے کی بات ہے اور یہ بات پیچھے رہ جانے والے ہی جانتے ہیں۔
بعض اوقات زندگی میں بے معنویت در آتی ہے اور اس وقت زندگی کا رنگ پہلے
جیسا نہیں رہتا۔یہ لمحہ باقی لمحات سے کچھ زیادہ بھاری بھاری سا لگتا ہے۔
انسان یکدم عام انسان سے فلسفی سا ہو جاتا ہے اور سوچ میں گُم بھی ایسا
ہوتا ہے ہ سوچ کو کوئی رستہ بھی نہیں ملتا اور سوچ ذہن سے جاتی بھی نہیں۔
انسان کسی خاص نکتے پر سوچتا بھی نہیں اور اسے کوئی خاص سمجھ آتی بھی نہیں۔
شاید اس لمحے اُسے سوچنے کی ضرورت بھی نہیں ہوتی۔یہ لمحہ سائنس کی زبان میں
بے وزنی کا ہوتا ہے اور شاعر اس لمحے کو الفاظ میں کچھ یوں کیچ کرتا ہے:
نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
اس بے معنویت کے دوران انسان دنیا کو ایسے بیگانگی سے دیکھتا ہے جیسے کوئی
پردیسی کسی جگہ کے مناظر سے خود کو الگ تھلگ کر کے دیکھتا ہے۔ اس دنیا سے
تعلق بناتے بناتے زندگی کا سفر تمام ہو جاتا ہے اور تعلق ہے کہ بننے اور
استوار ہونے کا نام ہی نہیں لیتا ۔ انسان کا دنیا سے سوائے سانس کے تعلق ہے
بھی کوئی نہیں اور سانس سے جڑا ہوا رشتہ کتنامضبوط ہو سکتا ہے ،اس بات کی
سمجھ اس وقت آتی ہے جس سانس بھی ختم ہونے کے قریب ہوتے ہیں اور جب آخری
سانسیں نکل رہی ہوتی ہیں تو پھر ادراک ہوتا ہے کہ ہمارا تو دنیا کے ساتھ
تعلق ہی کچھ نہ تھا ۔ہم تو یہاں کچھ پل گزارنے آئے تھے اور ہم پاگل ہو کر
ایک بہت بڑے دھوکے کا شکار ہو گئے۔
دھوکہ کھانا انسان کی قدیم عادت ہے انسان جنت سے دھوکہ کھانے کے بعد ہی
نکلا تھا بلکہ منع شدہ پھل بعد میں کھایا تھا اور دھوکہ پہلے کھا لیا تھا ۔
اور اب تک انسان اس دھوکے سے باہر نہیں آ سکا ۔ زندگی میں وہ بار بار دھوکے
پہ دھوکہ کھاتا چلا جاتا ہے۔ انسان کو سب سے بڑا دھوکہ اس کا اندر دیتا ہے
جو کہ باہر کی خواہش کے فریب میں آ جاتا ہے۔ اگر انسان اندر کو قابو میں
رکھے اور باہر کی خواہش کے فریب سے بچتا رہے تو اس کو باہر کی بادِ صر صر
کچھ نہیں کہتی لیکن اگر اس کا اندر باہر کی زد میں آ جائے تو پھر اس کے
اندر بچتا کچھ نہیں ! |