سوشل میڈیا کی یلغار اور ہماری ِ زندگی (حصہ ۔۔سوئم)

حقیقت میں بالکل اس کے برعکس ہوتا ہے ، نوجوان اس قدر بد اخلاق ہوتا جا رہا ہے کہ اخلاقیات کا درس اس کے قریب تر نظر نہیں آتا ۔ سوشل میڈیا اس قدر جدیدیت کا حامل ہے کہ انسان جس آسانی سے اچھے مقاصد و پیغامات اپنے دیگر ساتھیوں تک باآسانی پہنچا سکتا ہے اسی طرح شر پسند عناصر بھی سوشل میڈیا کو اپنے مقاصد کے لیے اس کو بڑی آسانی سے استعمال کر سکتے ہیں۔ ایک زمانہ ہو ا کرتا تھا کہ خاندان اور دوست احباب کسی بھی تقریب میں اکھٹے بیٹھا کرتے تھے، وقت آپس میں مل بیٹھ کر گزارا کرتے تھے مگر اب وہ سلسلہ اس قدر نا پید ہوچکا ہے کہ اب وہ میل ملاپ بھی صرف اور صرف سوشل میڈیا کی قید میں بند ہو گیا ہے ، وہ سوشل میڈیا جو معلومات کا اس قدر آسان ذریعہ بنا تھا کہ دنیا کو گلوبل ویلج کا نام دے دیا گیا،مگر گلوبل ویلج تو بنا مگر انسان اپنے پڑوسی کے مسائل اور حالات سے ناواقف تو ہوا ہی مگر ساتھ میں دوسری تہذیبوں اور مذاہب کی رسومات کو اپنے اندر پیوست کرنا بھی شروع اس انداز میں کر دیا کہ گویا کہ یہ رسوم بھی ہمارے ہی معاشرے کا اہم جزو ہو ں جس طرح ۔ ایک زمانہ تھا کہ بچہ رات کو ماں کی لوری سنتا سنتا سو یا کرتا تھا یا پھر ماں اپنے بچوں کو لیٹنے سے پہلے کلمے اور مسنون دعائیں یاد کروایا کرتی تھیں، مگر اب دو سے ڈھائی سال کے بچے کو گیم کے لیے موبائل میں ہاتھ پکڑا دیا جاتا ہے کہ یہ لو بیٹا گیم کھیل لو اس کو بھی چھوڑو کہ پہلے مائیں قرآنی آیات پڑھتے ہوئے بچوں کو دودھ پلایا کرتی تھیں مگر آج یا تو ماں دودھ پلاتے ہوئے گانا سن رہی ہو گی یا پھر فیس بک پر لگی ہو گی ، اور ہم ہیں کہ اس امید پر کہ جی ہماری آنے والی نسلیں بڑی غیرت مند اور جرات مندانہ پید ا ہونے والی ہیں نہیں ہم غلطی کی طرف چل نہیں بھاگ رہے ہیں کہ ایک طرف تو ہماری نوجوان مائیں یہ کام کرتی ہیں دوسری طرف باپ آتا ہے گھر میں تو وہ اپنا موبائل آن کر لیتا ہے اس کو کچھ خبر نہیں کہ بیٹا / بیٹی اپنے موبائل پر کیا کر رہے ہیں ، کوئی سیکھنے سیکھانے والا سلسلہ نہیں ، کوئی درس و تدریس نہیں ۔ ایک زمانہ تھا کہ مائیں آٹا گوندھنے سے پہلے بسم اﷲ پڑھ کر آٹا نکالا کرتی تھیں کہ برکت پیدا ہو مگر آج کل منی بدنام ہوئی کا گانا زبان پر ہوتا ہے اور روٹیاں پک رہی ہوتی ہیں۔ پہلے تو اس طرح ہوتا تھا کہ احادیث و آیا ت مبارکہ تقریبا ہر بندے کو یا د ہو ا کرتی تھیں جس کی بدولت کسی بھی جگہ کوئی غلطی کرتا تو اس کی اصلاح کر کے اس کو روکا جاتا مگر آج سوشل میڈیا کی دنیا میں دین کی منا سبت سے بہت سی غلط خبریں اور باتیں بغیر کسی تصدیق کے اس طرح شیئر کی جاتی ہیں کہ جس طرح وہی سچ ہو جبکہ حققیت ان کے بالکل برعکس ہوتی ہے، بات یہاں تک ہی نہیں اگر کوئی اصلاح کے لیے اتنی بات کر دے کہ یہ بات حوالہ جات کے حساب سے ٹھیک نہیں ہے تو وقتی فلاسفر اور سکالرز اس اصلاح کرنے والے شخص سے لڑائی مول کر عجیب و غریب باتیں کرتے ہیں۔ عورت اور مرد کی دوستی کو اسلام کسی بھی صورت میں قبول نہیں کرتا بلکہ اسلام نے ماں ، بیوی ، بیٹی ، بہن، خالہ، پھوپھی وغیرہ کے رشتے دے کر ایک طرف تو عورت کو عزت کے مقامات سے نوازا مگر دوسری ہی جانب عورت اور مرد کی دوستی کے رشتے کا کوئی پہلو نہیں بیان کیا گیا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام میں عورت اور مرد کی دوستی کی کوئی راہ نہیں مگر سوشل میڈیا پر عورت اور مرد کی دوستیوں کے چرچے پھر بولنا کہ جناب ہمارے درمیان اور تو کچھ نہیں ہم آپس میں صرف اور صرف دوست ہیں حالانکہ اس طرح کی کوئی بات نہیں ہوتی دوستی کے چھوٹے سے نام سے بڑی برائی کی پیدائش ہوتی ہے ، تھوڑا تھوڑا کر کے بہت ہو تا جاتا ہے ،اور یہ کام سوشل میڈیا پر بہت زیادہ اور مقبول ہو چکا ہے ۔
 
کوئی بھی چیز بذات ِ خود غلط نہیں ہوتی غلط ہوتا ہے تو اس کا طریقہِ کار ایک مثال ہے کہ انسان نے بم اس لیے ایجاد کیا گیا تھا کہ پہاڑوں کی کھدائی اور سرنگوں کی کھدائی میں آسانی پیدا کی جاسکے مگر اب جس انداز میں بم کو لا کر رکھ دیا گیا ہے اور جس طرح اس کو استعمال کیا جاتا ہے اس میں بنانے والا کا تو قصور نہیں۔۔۔قصور ہے تو استعمال کے طریقہ کا ر کہ کوئی کس چیز کو کس طرح استعمال کرتا ہے ۔ سوشل میڈیا کے نقصانا ت سے بچنے کا اب یہ طریقہ تو ہے نہیں کہ دنیا سے لاتعلق ہو جائیں اور سوشل میڈیا کو بالکل چھوڑ دیں، حقیقت میں اگر آپ اس طرح اس دور میں کریں گئے تو آپ دنیا سے لاتعلق ہو کر الگ تھلک ہو کر اپنے آپ تک محدود اس قدر ہو جائیں گئے کہ آپ خود اپنی زندگی سے عاجز آ جائیں گئے ہاں مگر یہ بات ہے کہ آپ سوشل میڈیا کے استعمال کو لگام دے کر رکھیں ایک حد اور ایک دائرے کے اندر اندر رکھیں، دوسرے لفظوں میں اس طرح بیان کرتا جاؤں کہ اگر گھوڑے کو لگام میں رکھا جائے تو وہ آسانی سے قابو میں رہے گا ، مگرخدا نخواستہ گھوڑے کی لگام نہ ہو اور آپ اس پر سواری کرنے بیٹھ چکے ہوں تو پھر اﷲ ہی آپ کا حافظ ہے کہ گھوڑا آپ کے ساتھ کیا کرنے والا ہے ، اسی طرح ہر چیز کی لگام ہوتی ہے ، سوشل میڈیا کو آپ جس سمت لے کر جاؤ گئے تو وہ اسی طرف آپ کے ساتھ چلے گئی مگر بات اتنی ہے کہ آپ سوشل میڈیا کو کس سمت لے کر جاؤ گئے ، مگر ہمارا عالم تو یہ ہوتا ہے کہ ہم جب سوشل میڈیا کے استعمال کے لیے بیٹھنے لگتے ہیں تو ہم کو اتنا تک معلوم نہیں ہوتا ہے ہم نے سوشل میڈیا پر کرنا کیا ہے۔ کرنا ہوتا کیا ہے ۔۔۔لڑکیوں کو میسج کرنا ، فضول گروپس میں فضول پوسٹ پر تبادلہ خیال کرنا ۔ اگر ہم سوشل میڈیا کو حد کے اندر استعمال کریں تو وہ بہتر ہے یہ نہیں کہ ساری ساری رات بیٹھا جائے، ایک ٹائم ٹیبل ہو کہ دن میں سوشل میڈیا کو کتنے ٹائم استعمال کرنا ہے ، اگر آپ حدود سے باہر نکلو کے تو خاندانی، معاشی اور معاشرتی ہر لحاظ سے تباہ ہو کر رہ جائیں گئے۔
 
سوشل میڈیا کو استعمال کرنے سے پہلے آپ اپنا مقصد جان لیں کہ آپ نے سوشل میڈیا پر اس ٹائم بیٹھ کر کیا کام کرنا ہے اور دوسری اہم بات یہ کہ آ پ سوشل میڈیا پر اچھی باتیں اور اچھی پوسٹیں شیئر کریں گئے تو آپ کو سکون بھی ملے گا اور اجر بھی ملے گا۔برا کچھ بھی نہیں ہوتا بری ہوتی ہے انسان کی اپنی سوچ ، سوشل میڈیا نہیں تھا تو کیا انسان روابط میں نہیں تھے مگر اب اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ ۔۔۔جی سوشل میڈیا آگیا ہے تو آپس کے معاملات اور تعلقات کو ختم کر دیئے جائیں۔ سوشل میڈیا کا استعمال بھی کریں مگر مخصوص اوقات میں کریں ، اپنی فیملی کو وقت دیں کیونکہ آپ کے بچے کل کو آپ کا سرمایہ ہے ان کی اچھی تربیت کریں ایسی کے جس طرح آپ کے والدین نے آپ کی تربیت کی تھی ، والدین کے لیے خصوصی وقت نکالا کریں ان کے پاس گھڑی دو بیٹھ کر ان کی باتیں سنا کریں ، کیونکہ والدین زندگی کاایسا قیمتی اثاثہ ہیں کہ ان کی قدر انسان کو اسی وقت آتی ہے جب وہ مٹی کے نیچھے جا چکے ہوتے ہیں ، ان کی کی خدمت کریں نماز کے وقت نماز کا اہتمام کریں کیونکہ نماز کی چھوٹ نہیں ہے ، پڑوسی کے حقوق کا خیال کریں کیونکہ وہ آپ کے احسانات کا مصارف ہے ، ، دوست احباب اور برادری سے میل جول رکھیں کہ آپ ان سے ہمہ تن رابطے میں رہیں ، اپنی تعلیم کے لیے الگ سے وقت نکالیں اور سوشل میڈیا کو اپنے وقت میں استعمال کریں جب ضرورت ہو فارغ اوقات میں اس بات کا خیال رکھنا ہے کہ کل کو اس بات کا بھی حساب دینا ہے کہ وقت کہاں گزرا تھا۔

Muhammad Jawad Khan
About the Author: Muhammad Jawad Khan Read More Articles by Muhammad Jawad Khan: 12 Articles with 8987 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.