کیپٹن علی روف مگسی پاک فوج کا وہ عظیم افسر ہے جس
نے فوج میں شامل ہوکر نہ صرف اپنے وطن عزیز کا نام سربلند کیا بلکہ
اپنے مگسی قبیلے کی عزت کو بھی چار چاندلگا دیئے ۔ کیپٹن علی ‘ پاک فوج
کے ایک شیر دل افسر ‘کرنل (ر)سردار عبدالرؤف خاں مگسی کے فرزند ہیں ‘
بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ کرنل سردار
عبدالروف مگسی جیسا دلیر اور بہادر میں نے زندگی میں نہیں دیکھا ۔وہ
دشمن کی آنکھوں میں آنکھ ڈال کر اسے جہنم واصل کرنے کا جذبہ اور طاقت
اب بھی رکھتے ہیں ۔انہوں نے 1965ء اور 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں بھی
کارہائے نمایاں انجام دیئے ۔ان کی بہادری کے بے شمارواقعات میرے سینے
میں محفوظ ہیں لیکن ان کا تذکرہ پھر کبھی سہی ۔کیپٹن علی کی رگوں میں
بھی اسی دلیر باپ کا خون دوڑ رہا تھا ‘ اس نے پاک فوج کو جوائن ہی اس
لیے کیا کہ دشمن میں دودو ہاتھ کیے جاسکیں ۔یہ 28 جنوری 1998ء کا واقعہ
ہے اپنے گھر کے ڈرائنگ روم میں کرنل (ر) مگسی اور کیپٹن علی محو گفتگو
تھے۔ بیٹے سے سوال کرتا ہے ابو پاک بھارت جنگ کب ہوگی ‘ والد نے بتایا
بیٹا پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی طاقتیں ہیں اس لیے کھلی جنگ کا
امکان نہیں ‘کیونکہ یہ جنگ دونوں کی تباہی کا باعث بنے گی ۔یہ سن
کرکیپٹن علی نے کہا ابو میں تو فوج میں شامل ہی اس لیے ہوا ہوں کہ
بھارت کے ساتھ جنگ کرکے شہادت کا جام نوش کرسکوں‘ اگرجنگ نہیں ہونی
توکیا میں فوج کو خیر باد کہہ دوں۔والد نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا بیٹا
سیاچن ایک ایسا مقام ہے جہاں اب بھی ‘ دونوں ملکوں کی فوجوں میں چھڑپیں
ہوتی رہتی ہیں ‘ یہ سنتے ہی کیپٹن خوشی سے اچھل کر کھڑے ہوگئے اور کہا
تو پھر آپ میری ٹرانسفراس یونٹ میں کروا دیں جس کے ذمے ان دنوں سیاچن
کا دفاع ہے ۔کرنل مگسی بولے بیٹا تم نے سیاچن کاصرف نام سنا ہے اس کی
تباہ کاریوں کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ وہاں دشمن سے زیادہ موسم بے
رحم ہے ‘ جسم کا جو حصہ کھلارہتا ہے وہ آئس بائٹ (یعنی منجمد )ہوجاتا
ہے ‘ جسم کا وہ حصہ کاٹنا پڑتا ہے ‘وہاں جسم کو ڈھانپنے کے لیے خاص
لباس اور مشکل ترین ٹریننگ حاصل کرنا پڑتی ہے ۔کیپٹن علی نے کہا ابو بس
آپ میری وہاں ٹرانسفر کر وادیں‘ میں نہ موسم سے ڈرتا ہوں اور نہ بھارتی
فوج سے۔ میں تو پیدا ہی شہادت کے لیے ہواہوں ۔ بیٹے کے اصرار پر کرنل
مگسی نے این ایل آئی میں پوسٹنگ کروا دی‘ بعد ازاں ان کی اپنی یونٹ 40
بلوچ بھی سیاچن جا پہنچی تو کیپٹن علی اپنی یونٹ میں واپس آگئے ۔کیپٹن
علی نے اپنے ساتھیوں کے ہمراہ ان برف پوش چوٹیوں پر دشمن سے کئی معرکوں
میں بہادری کے جوہر دکھائے اور کامیابی حاصل کی ‘اس کے ساتھی بتاتے ہیں
کہ یوں محسوس ہورہا تھا جیسے سیاچن آنے کے بعد ان کے جسم میں بجلیاں
بھر چکی ہوں‘ وہ جلد سے جلد کوئی بڑا معرکہ سرانجام دینے کے لیے پرجوش
تھے ‘کیپٹن علی نے ایک دن اپنے کمانڈنگ آفیسر کامران رضا سے درخواست کی
کہ ان کو سب سے بلند پوست پر مامور کیاجائے جس کانام حاجی پوسٹ تھا۔ یہ
سطح سمندر سے 26 ہزار فٹ بلند تھی جہاں پہنچنے کے لیے برف میں ڈھکی
ہوئی نوکیلی اور عمودی چٹانوں کو عبور کرناپڑتا تھا۔ اپنی تعیناتی کے
بعد ایک رات وہ اگلو ( خیمے ) کے باہر حسب معمول ڈیوٹی پر مامور تھے کہ
انہیں اذان کی آواز سنائی دی ‘ وہ حیران تھے کہ دور دور تک یہاں کوئی
انسان یا آبادی دکھائی نہیں دیتی ‘ پھر اذان کی آواز کہاں سے آرہی ہے ‘
انہوں نے چاندنی رات میں اردگرد دیکھنے کی جستجو کی تو ان برفانی
چوٹیوں پر سفید لباس پہنے دور تک لوگ نماز پڑھتے دکھائی دیئے ‘کیپٹن
علی نے بھی بے ساختہ نماز کی نیت کر لی ‘ نماز سے جب فارغ ہوئے تو
کیپٹن علی بدحواسی کے عالم میں خیمے میں داخل ہوئے ‘اس لمحے وہ پسینے
سے شرابور تھے ‘ ساتھیوں کے پوچھنے پر بتایا کہ میں نے سفیدلباس پہنے
لوگوں کو ان برفانی چوٹیوں پر نماز پڑھتے دیکھا ؟‘ ساتھی مسکرائے اور
بولے سرآپ پریشان نہ ہوں وہ پاک فوج کے ان شہیدوں کی روحیں ہیں ‘ جو
یہاں شہید ہوچکے ہیں‘ ہم تو کتنے ہی نماز یں ان کے ہمراہ ادا کرچکے ہیں
۔ جب ہم مشکل میں پھنستے ہیں تو شہیدوں کی روحیں ہماری رہنمائی بھی
کرتی ہیں ۔۔26 ہزار فٹ بلند پوسٹ سے واپس آئے ابھی چند دن ہی گزرے تھے
کہ خضرپوسٹ پر مامور کیپٹن بلال نے اپنی بہن کی شادی کی وجہ سے چھٹی
مانگ لی ‘ اس سے پہلے کہ وہاں کسی اور کی ڈیوٹی لگائی جاتی کیپٹن علی ‘
خضرپوسٹ پر جانے کے لیے تیار ہوگئے‘ ساتھیوں سمیت جب وہ لبیک پوسٹ پر
پہنچے تووہ تعینات پوسٹ کمانڈر نے کہا بہتر ہوگا اگر آپ دن کی بجائے
رات کو سفر کریں کیونکہ دن کے اجالے میں دیکھ کر دشمن گولہ باری شروع
کردیتا ‘اور اس گولہ باری سے برفانی تودے گرنے لگتے ہیں لیکن کیپٹن علی
نے روکنے کی بجائے اپنا سفر جاری رکھاوہ ابھی کچھ ہی دور گئے تھے کہ
گولہ باری شروع ہوگئی ‘ برف کا ایک طوفان اٹھا اوربرفانی تودے یکے بعد
دیگر ے گرنے لگے ۔ ایک ہزار من وزنی تودہ ان پر آگر اجس سے کیپٹن علی
پانچ ساتھیوں سمیت شہید ہوگئے ۔ یادرہے کہ یہ وہی مقام تھا جہاں چند دن
پہلے خود کیپٹن علی ایک پتھر پر اپنا نام لکھاتھا ۔ ایسے بے شمار
واقعات کیپٹن علی شہید سے منسوب ہیں جسکے گواہ 40بلوچ رجمنٹ کے افسراور
جوان اور شہید کے والد ین بھی ہیں جن کو شہادت کے بعد بھی خواب کی حالت
میں کیپٹن علی نہ صرف ملتے ہیں بلکہ بوقت ضرورت مدد بھی کرتے ہیں ۔ حسن
اتفاق سے یہ 28 جنوری 1999ء کا دن تھا ۔ بیٹے کی شہادت کے صدمے میں ماں
نہ جانے کتنے دن بے ہوش رہیں جبکہ بہادر باپ نے اتنا ہی کہا کہ شہادت
کی تمنا تو میری تھی‘ میرا بیٹا کیپٹن علی روف مگسی مجھ سے جیت گیا ۔بعد
از شہادت کیپٹن علی روف مگسی شہید کو تمغہ بسالت سے نوازا گیا ۔ بے شک
شہید زندہ ہوتے ہیں ہمیں انکی زندگی کا شعور نہیں ۔(القران) |