ناول ادب کی ایک انتہائی اہم صنف ہے۔ جو ہماری
زندگی کی مختلف گتھیوں کو سلجھانے میں مدد دیتی ہے۔ ناول میں پرانے
قصوں ، افسانوں اور داستانوں کے برعکس انسانی زندگی کا قصہ ہوتا ہے۔ اس
لئے اسے موجودہ زندگی کا رزمیہ بھی کہا جاتا ہے۔ انگریزی میں تو ناول
کا آغاز اٹھارویں صدی میں ہوچکا تھا مگر اردو میں اس کا وجود انیسویں
صدی کے نصف آخر میں ہی ممکن ہوسکا۔ جدید تحقیق کے مطابق اردو کا پہلا
ناول ’’خط تقدیر‘‘ مانا جاتا ہے۔ اسے ڈاکٹر محمود الہی نے دریافت کیا
ہے۔ ورنہ مارچ 1965 سے قبل لوگ اس سے قریب قریب ناواقف تھے۔ ’’خط تقدیر‘‘
سے پہلے مولوی نذیر احمد کے ناول ’’مراۃ العروس‘‘ کو اردو کا پہلا ناول
قرار دیا جاتا تھا۔ جسے نذیر احمد نے 1869 میں تصنیف کیا تھا۔ آج ناول
نگاری کا فن اپنے عروج پر پہنچ چکا ہے اور اردو میں کئی ایسے ناول عالم
وجود میں آچکے ہیں جنھیں دنیا کے بہترین ناولوں کی صف میں فخر کے ساتھ
رکھا جاسکتا ہے۔ اردو ناول نگاری کے فن کو جہاں مرد ، ناول نگاروں نے
پروان چڑھایا ہے وہیں خاتون ناول نگاروں نے بھی اس کی آبیاری کی ہے۔ گو
کہ خواتین نے ناول نگاری کے میدان میں مردوں کے بہت بعد میں قدم رکھا
ہے پھر بھی ناول کے ارتقاء میں ان کے تعاون کو کبھی فراموش نہیں کیا
جاسکتا۔
خاتون ناول نگاروں نے بیسویں صدی کے آغاز میں ناول کی تخلیق شروع کی
اور تب سے آج تک یہ عمل مسلسل جاری ہے۔ ابتدائی خاتون ناول نگاروں کے
یہاں فنی دسترس کی کمی کا احساس ضرور پایا جاتا ہے۔ مگر ان کی مقصدیت
اور افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ انھوں نے اپنے ناولوں میں عورتوں
کے بنیادی مسائل کو جگہ دی ہے اور ناول کے ذریعہ عورتوں کی تعلیم و
تربیت اور سماجی و اخلاقی اور معاشرتی خامویں کو دور کرنے کی بھی پوری
سعی کی ہے۔ان کے خیال میں عورتوں کا جاہل ہونا ہی تمام خامیوں اور
برائیوں کی جڑ ہے۔ عورت تعلیم یافتہ ہوگی تو ہی کامیاب زندگی گذار سکے
گی۔ اس کے علاوہ انھوں نے سماج کی کہنہ اور فرسودہ رسم و روایات کی طرف
بھی لوگوں کی توجہ مبذول کروانے کی کوشش کی ہے کہ اکثر اس کا انجام
پریشان کن اور جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس ضمن میں محمدی بیگم کے ناول
’’آج کل ، سگھڑ بیٹی اور شریف بیٹی‘‘ اور طیبہ بیگم کا ناول انوری بیگم
قابل ذکر ہے۔ طیبہ بیگم نے اپنے ناول انوری بیگم میں عورتوں کے اندر
خانگی ذمہ داریوں کے احساس کو خصوصیت کے ساتھ جگانے کی کوشش کی ہے۔ ان
ابتدائی ناول نگاروں کے یہاں کہیں کہیں نئے زمانے اور نئے تقاضوں کی
پکار بھی سنائی دیتی ہے۔ لیکن صحیح معنوں میں حقیقت پسندی اور فنکارانہ
روش کا آغاز خاتون ناول نگاروں کے دوسرے دور سے ہوتا ہے۔ جس کا سہرا
حجاب امتیاز علی ، صالحہ عابد حسن ، بیگم احمد علی ، عصمت چغتائی اور
قراۃ العین حیدر وغیرہ کے سر جاتا ہے۔ اور اردو ناول کا وقار بلند کرنے
میں عطیہ پروین ، عفت موہانی ، مسرور جہاں ، دیبا خانم ، واجدہ تبسم ،
جیلانی بانو ، حسنہ جیلانی ، صفیہ سلطانہ ، شکیلہ اختر ، رفیعہ منظور
الامین ، جمیلہ ہاشمی ،آمنہ ابوالحسن ، ضغری مہدی ، بشری رحمن ، سلمی
کنول ، ناہید سلطانہ اختر ، رضیہ بٹ ، رشید جہاں ، ہاجرہ مسرور ، ذکیہ
شہید ، رضیہ سجاد ظہیر نے اہم کردار ادا کیا۔
ناول "رُودادِ زیست" جنوبی پنجاب کے علاقے لیہ سے تعلق رکھنے والی
ممتاز ادیبہ پروفیسر صَفیہ انورصفی کی تخلیق ہے۔ اس کتاب سے پہلے ان کا
شعری مجموعہ "مجھے تتلیوں سے پیار ہے" منصہ شہود پر شہرت کے جھنڈے گاڑ
چکا ہے۔ صفیہ انور صفی بنیادی طور پر شعبہ اُردو زبان و ادب سے تعلق
رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ تخلیق کی جستجو ان کے اندر کو ٹ کوٹ کر بھری
ہے۔روزمرہ کی گھریلو مصروفیات سے تشنہ گانِ ادب کے لیے تخلیقی فن پارے
مرتب کرنا انہی کا خاصہ ہے۔صفیہ انور صفی بیک وقت اردو ادب کی کئی
اصناف میں طبع آزمائی کر رہی ہیں جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو جلا
بخشنے کے مترادف ہے۔ ایک شاعرہ ہونے کے ناطے وہ اپنی داخلی و خارجی
کیفیات کو زینت قرطاس بنانے کے فن سے خوب آشنا ہیں او ر بطور ناول نگار
انہیں اپنے تخلیق کردہ کرداروں کے بیچ خاموشی سے بیٹھ کر مشاہدہ کر نے
کاڈھنگ بھی خوب آتا ہے۔ انہوں نے معاشرتی ناہمواریوں کی زد پر سانسیں
لیتے ہوئے انسانو ں کے دکھوں اور تکلیفوں کو احاطہ کرتے ہوئے ایک عام
نوع کی کہانی کو خاص بنا دیا ہے۔یہ ایک ایسا وصف ہے جو ہر کسی کو عطا
نہیں ہوتی۔
ناول "رُودادِ زیست" بمطابق مصنفہ نے دوہزار پندرہ سے لکھنا شروع کیا
جو دوہزار اٹھارہ کو کتابی شکل میں چھپ کر قارئین تک پہنچا۔ خوبصورت سر
ورق اور فلیپ کے ساتھ یہ ناول ناصر ملک اُردو سخن چوک اعظم (لیہ)
پاکستان نے شائع کیا ہے۔ یہ ناول ایک سو ساٹھ صفحات پر مشتمل ہے ۔ اس
ناول کا انتساب زیب گلشن صفی ،مشعال فاطمہ ، منہال فاطمہ، دُرعیناں،
دُرلائبہ اور آیاں حسن کے نام کیا گیا ہے۔اس ناول کا مقدمہ مشہور شاعر،
ادیب ، نقاد ومحقق شبیرناقد نے لکھا ہے۔جس میں وہ لکھتے ہیں کہ ناول کے
سیر حاصل مطالعے کے دوران کہیں بھی محسوس نہیں ہوا کہ یہ صفیہ انور صفی
کا پہلا ناول ہے ۔ فکری وفنی لحاظ سے اس میں بالیدگی کے لوازمات فرطِ
تسلسل سے ملتے ہیں۔ پیش لفظ میں مصنفہ لکھتی ہیں کہ شناورانِ قلزم ِفن
کی سرزمین پر میرا قلم ہاتھ میں تھام کر اپنے ہی اساتذہ کرام کے سامنے
آنا میری جرات کا منہ بولتاثبوت ہے ۔آگے لکھتی ہیں کہ میں نے اس ناول
کے ہر لفظ کو محسوس کیا۔ ہر لائن کو سمجھا، پرکھا اور قرطاس پر منتقل
کر دیا۔ اس ناول کی تکمیل کے مراحل تک میں نے زندگی اور موت کو بہت
قریب سے دیکھا ۔ زندگی اور موت کے درمیانی فرق کو آج بھی سمجھنے میں
کوشاں ہوں۔
ناول تھل کے دومتوسط گھرانوں کی کہانی ہے جس کا مین کردار رابی ہے جو
حالات وواقعات کے دوش پر ناول کے آغاز سے انجام تک تیرتی ہے۔یہ ناول
بنیادی طور پر ایک بہن اور ایک بھائی کے خاندان کے گرد گھومتی ہے۔ بہن
کا خاوند ایک حادثے میں وفات پا گیا ہوتا ہے۔ جبکہ اسکے دو بیٹے ہوتے
ہیں ایک بنک میں کام کرتا ہے اور دوسرا ڈاکڑی کے دوسرے سال میں ہوتا
ہے۔ بھائی کے دو بیٹے اور ایک بیٹی ہوتی ہے۔ بہن بھائی کی بیٹی اپنے
بیٹے سے بیاہ کر لے آتی ہے۔ بڑا لڑکا اپنے باپ کے حادثے کا کھوج اپنے
وکیل دوست کی مدد سے لگاتا ہے اور جب اسے پتا چلتا ہے کہ بیس سال قبل
اسکے والد کا قاتل اسکا سگا ماموں ہے تو وہ ہارٹ اٹیک سے انتقال کر
جاتا ہے۔ اسکے بعد چھوٹا بھائی معلوم کرتا ہے کہ بھائی کس وجہ سے اچانک
دنیا سے چلے گئے تو وہ راز معلوم کر کے انکے وکیل دوست سے ملاقات کرتا
ہے اور پھر معلوم ہونے پر کہ ماموں ہی انکے والد کا قاتل ہے تو عدالت
میں کیس کر دیا جاتا ہے اور کیس بھی ماموں جیت جاتا ہے لیکن پھر حالات
وقت کے سمندر کی موجوں میں تیرتے چلے جاتے ہیں زندگی کا سفر تیزی سے
چلتا ہے۔ ماموں اور اس کا ایک بیٹا انتقال کر جاتے ہیں جبکہ دوسرا شادی
کے بعد اسلام آباد منتقل ہو جاتا ہے۔ ایک بیوہ عورت حالات اور قسمت سے
لڑتے لڑتے( رابی) اپنے بیٹے اور دیور کی شادی کروا دیتی ہے اور اپنی
پھوپھو ساس کے گھر دوبارہ آکر آباد ہو جاتی ہے۔
ناول زندگی کی حقیقی تصویر کا دوسرا نام ہے۔صفیہ انور صفی کا
ناول۔۔۔روداد زیست۔۔۔زندگی کی حقیقی منظر کشی پیش کرتا ہے۔ جہاں درد و
غم اپنی داستان سناتا ہے وہاں خوشیوں کے رنگ بھی قاری کی توجہ اپنی طرف
مبذول کرتے ہیں۔دکھوں کی وادی سے ہو کر قاری محبت, جذبات, سچائی, اور
امید کی بین کی لوری سے بھی لطف اندوز ہو تا ہے۔بلا شبہ بطور ناول نگار
صفیہ انور صفی نے مہارت سے واقعات نگاری, منظر نگاری, کردار نگاری,
عمدہ اسلوب کو خوب نبھایا ہے۔ ناول کی زرخیزی اپنے اندر اتنی جازبیت
رکھتی ہے کہ قاری پڑھنے لگتا ہے تو کوشش کرتا ہے کہ ایک ہی جست میں
ناول کو مکمل کر ڈالے جیسے کہ ناچیز نے کیا۔ خوشی و غم کا حسین امتزاج
رکھا گیا ہے ۔ ناول نگار کہانی کے شروع سے آخر تک اپنے کرداروں کو اس
مضبوتی سے کہانی سے جوڑتی ہے کہ کہیں بھی کوئی ڈھیل یا خلا دیکھائی
نہیں دیتا۔یوں لگتا ہے کہ مصنفہ نے ناول کے آغاز سے اختتام تک کہانی کے
کرداروں کے ساتھ انصاف کرتے ہوئے حقیقت نگاری کی ہے۔ شادی کے تمام رسم
و رواج کو جس خوبصورتی سے قرطاس پر ا ُتارا گیا ہے وہ یقینا ایک قابل
ناول نگار ہی کر سکتا ہے جس کی نظر تیزاور اپنے اردگرد کے رسم و رواج
کو سمجھنے کی سوجھ بوجھ ہو۔راقم خود یہ ناول پڑھتے ہوئے اس کی کہانی
میں ڈوب گیا اور کئی مقامات پر تو آنکھوں میں آنسو تک اُتر آئے ۔
مختصراً اتنا کہنا چاہوں گا کہ ہر قاری کو یہ ناول ضرور پڑھنا چاہئے
تاکہ وہ اپنے معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں اور غلطیوں سے سیکھیں۔
ناول نگار کی اپنے فن پر مہارت کی داد نہ دینا ذیادتی کے مترادف ہو گا۔
ان کا یہ ناول نقش اول کی حیثیت رکھتا ہے۔ امید رکھنی چاہیے کہ آمدہ
ناولوں میں ان کی فکری و فنی خصوصیات مزید اُبھر کر سامنے آئیں گی۔ |