تحریر: آمنہ وزیر
علیم ماہی کے ساتھ اپنی زندگی میں مطمئن تھا۔ دونوں کو رفیق سفر ہوئے 2 سال
کا عرصہ گزر چکا تھا۔ علیم عام لوگوں جیسا نہیں تھا، وہ سادہ مزاج ہونے کے
ساتھ ساتھ بے شک زمانہ شناسی کے ہنر سے واقف نہیں تھا لیکن خلوص کی دولت سے
مالا مال تھا، اس لیے جب ماہی کا باپ دنیائے فانی سے کوچ کر گیا تو ماہی کے
چھوٹے بہن بھائیوں کو زمانے کی ستم ظریفی سے بچانے کے لیے علیم نے انہیں
اپنے گھر پناہ دی اور ماہی کی بہنوں کے ہاتھ اپنے زیر سرپرستی مہندی سے رنگ
دیے۔
سحر شادی کے بعد جب بھی اپنی بہن ماہی کے گھر آتی تو اپنے شریک حیات کے
اعلی اوصاف بیان کرتی، جس کا یہ اثر ہوا کہ ماہی کو علیم میں وہ تمام
خامیاں نظر آنے لگی، جس سے وہ ابھی تک ناواقف تھی۔
ماہی امور خانہ داری میں محو تھی، جب دروازے پر دستک نے اس کی توجہ اپنی
طرف کر لی۔ ماہی! ماہی کہاں ہو ’’دروازے پر دیکھو کون ہے‘‘۔ اماں کی مسلسل
آواز سے ماہی دروازے کی طرف بڑھ گئی، جونہی ماہی نے دروازہ کھولا سامنے
سیلز مین سرف کے نمونے لیے کھڑا تھا۔ ماہی کے کچھ کہنے سے پہلے سامنے والے
نے اپنا اور اپنی پروڈکٹ کا مختصر تعارف شروع کروا دیا۔ ’’میرا نام رجب ہے
اور یہ ہماری کمپنی کا سرف ہے، اس کے ایک دفعہ کے استعمال کے بعد آپ بھی اس
کی کارکردگی کی قائل ہو جائیں گی اور اس کے ساتھ ہر سال کمپنی کی طرف سے
قرعہ اندازی میں انعامات کا اعلان کیا جاتا ہے، جو جیتنے والے کے کوائف کے
مطابق اس کے گھر پہنچا دیے جاتے ہیں۔ اگر آپ قرعہ اندازی میں شامل ہونا
چاہتی ہیں، تو آپ کو یہ پروڈکٹ ہماری ٹیم سے رعایتی دام میں مل جائے گی‘‘۔
قرعہ اندازی کے فارم میں مکمل تفصیلات درج کروانے کے بعد ماہی نے سیلز مین
کے ہاتھ سے نمونے کا پیک لیا اور دروازے سے اندر ہوکر دروازہ بند کر دیا۔
وقت تین سال مزید آگے بڑھ
گیا۔ علیم کا آنگن تانی اور عبدل کے وجود سے بارونق ہو چکا تھا۔ لیکن قدرت
کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا، اس لیے کچھ برس پہلے دروازے پر دی گئی دستک
دراصل ماہی کے دل پر دستک ثابت ہوئی تھی۔ فون کال پر رجب کے ساتھ رابطہ ان
کی دوستی کو کافی گہرا کر چکا تھا۔
ماہی کچن میں کھانا بنانے میں مصروف تھی، جب دروازے پر زوردار دستک ہونے
لگی۔ چولہے کی آگ ہلکی کرنے کے بعد ماہی نے دروازہ کھولا تو سامنے اس کا
بھائی ارشاد اپنی بیوی کے بہکاوے کی وجہ سے غصے میں دہک رہا تھا، دروازہ
کھلتے ہی وہ اندر داخل ہو گیا اور ماہی کی کوئی بات سنے بغیر اسے زد وکوب
کرنے لگا۔ ماہی نے جب امید بھری نگاہوں سے علیم کی جانب دیکھا تو علیم
سامنے بیٹھا یہ سب دیکھ رہا تھا لیکن اپنی کم ہمتی کی وجہ سے وہ اپنی شریک
حیات کو اس کے بھائی کے تشدد سے بچا نہیں پایا۔
ماہی انتہائی دلبرداشتگی کے عالم میں گھٹنوں پر دونوں بازو کے حصار میں سر
رکھے رو رہی تھی کہ اسی وقت موبائل فون وائبریٹ کرنے لگا۔ ماہی نے ہاتھ
بڑھا کر فون اٹھایا تو اسکرین پر رجب کا نام دیکھتے ہی ایک دم فون کال آن
کی اور دن بھر کی تمام آپ بیتی رجب کو ہچکیوں کے ساتھ سنا دی۔ رجب کافی دیر
تک اسے تسلی دیتا رہا اور پھر دونوں نے ایک بڑا فیصلہ کر لیا، ایک ایسا
فیصلہ جو آج تک ماہی علیم کی سادہ مزاج طبعیت اور اچھائی کی وجہ سے نہیں لے
پائی تھی۔
آج ماہی علیم کا بے چینی سے انتظار کر رہی تھی۔ رات کے تقریبا دس بجے جب
علیم کمرے میں داخل ہوا تو کچھ دیر انتظار کے بعد ماہی علیم سے مخاطب ہوئی۔
علیم! آج مجھے آپ سے بہت ضروری بات کرنی ہے۔ ماہی کی آواز جونہی علیم کی
سماعتوں سے ٹکرائی تو اسے بہت حیرت ہوئی کیونکہ پچھلے ایک ماہ سے ماہی علیم
سے بات کرنے سے گریزاں رہتی تھی۔ ’’ہاں میں سن رہا ہوں‘‘، علیم کو اپنی طرف
متوجہ پاکر ماہی کہنے لگی، ’’علیم میں اس بندھن سے آزاد ہونا چاہتی ہوں‘‘،
ماہی نے جونہی یہ الفاظ ادا کیے، علیم کو اس کے پیروں تلے سے زمین سرکتی
محسوس ہوئی اور وہ بامشکل بولا لیکن کیوں؟ ’’میرے والد صاحب نے مجھے جس
تحفط کی نیت، یقین اور بھروسے کے ساتھ آپ کے ساتھ اس بندھن میں منسلک کیا
تھا، مجھے نہیں لگتا کہ ویسا کچھ بھی ہوا‘‘۔ ’’بے شک آپ ایک اچھے انسان ہے
لیکن ایسی اچھائی کا کیا فائدہ جب سربراہ اور محافظ ہونے کے ناطے ایک مرد
اپنی شریک حیات کو تحفظ ہی نہ فراہم کر سکے‘‘۔ ماہی نے اپنی بات مختصرا
مکمل کی اور علیم کو اس کرب کی کیفیت میں اکیلا چھوڑ دیا۔
علیم ماہی کو ہر صورت قطع تعلقی سے روکنا چاہتا تھا لیکن ماہی کے شدید
تقاضے پر علیم نے ماہی کو ہر بندھن سے اچھے طریقے سے آزاد کر دیا۔
علیم سے علیحدگی کے بعد ماہی رجب کی رفیق ہمسفر تو بن گی لیکن اب اس کے لیے
تانی اور عبدل کے بغیر رہنا انتہائی مشکل مرحلہ ثابت ہو رہا تھا۔ جس کے لیے
اس نے اپنے بھائی ارشاد کی مدد سے دونوں بچوں کو علیم کی رضا مندی سے اپنے
پاس بلا لیا۔ رجب کو ماہی کا تانی اور عبدل کے لیے لگاو پسند نہیں تھا، اس
لیے اس نے ماہی سے دونوں کے اخراجات کا مطالبہ شروع کر دیا، بعدازاں ماہی
نے بچوں کو مکمل طور پر باپ کے حوالے کر دیا کیونکہ اب سمجھوتہ کرنا اس کی
مجبوری تھی۔
وقت ایک مرہم ہے جو کسی بھی طرح کی چوٹ لگنے کی صورت میں درد کی شدت میں
کمی کرتا ہے، اسی طرح علیم کا درد بھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مدہم ہونے
لگا لیکن ماہی کی خود غرضی نے بچوں کو ماں کے ہوتے ہوئے بھی ممتا کے سائے
سے محروم کر دیا۔ حصول رزق کی وجہ سے علیم کے لیے دونوں کی تربیت کرنا آسان
نہیں تھا، اس لیے وقت کے ساتھ تانی اور عبدل اصلاحی رہنمائی سے بھی دور
تھے۔ ماہی کی بے حسی اور خود غرضی کی کمی کو دور کرنا آسان نہیں تھا لیکن
علیم کی کمزور حالت کو دیکھتے ہوئے علیم کی بڑی بہن نے عبدل کی تربیت کی
ذمہ داری لے لی اور ممکن حد تک تانی کی بھی مکمل رہنمائی کرتی رہی۔ الماری
سے کپڑے نکالتے علیم کی نظر پرانی تصویروں پر پڑی تو اس کے ذہن میں کئی
یادیں تازہ ہوگی۔’’ علیم !ناشتہ تیار ہے۔ آ جاو‘‘، اماں کی آواز نے علیم کی
یادوں کا سلسلہ توڑتے ہوئے ماضی کا دریچہ بند کردیا۔ |