ملک پاکستان کو قیام کے بعد سے ہی مسلسل دشمن کی سازشوں
کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ 1947 سے آج تک لاکھوں نہیں تو ہزاروں سازشیں دشمن نے
کلمہ طیبہ پر قائم ہونے والی اس ریاست کے خلاف کیں۔ ملک پاکستان کے غیور
جوانوں نے اپنا لہو بہا کر ، اپنے سر کٹوا کر ملک کے خلاف ہر سازش کو ناکام
بنایا۔ پاکستان کے شمالی علاقہ جات میں ایک قبائلی علاقہ جو شمالی وزیرستان
اور جنوبی وزیرستان پر مشتمل ہے۔ یہاں پر بنیادی طور پر دو قبائل رہتے ہیں
مثلاً محسود اور وزیر قبائل 1895 تک وزیرستان کے تمام امور بنوں کے ڈپٹی
کمشنر کنٹرول کرتے تھے۔ جو انگریز حکومت کے ساتھ کچھ اختلافات کی بنیاد پر
اپنے عہدوں سے مسترد ہو گئے۔ اور وزیرستان کے ہیڈکواٹر میران شاہ اور وانا
بن گئے۔ شمالی وزیریستان کے بشترو علاقوں پر وزیر اور داوڑ قبایل جبکہ
جنوبی وزیرستان پر محسود قبایل قابض ہے۔ وزیرستان کا علاقہ 1500مربع کلومٹر
پر محیط ہے۔ یہاں کی علاقائی زبان وزیری ہے ۔ وزیرستان کے شمال میں دریائے
ٹوچی اور جنوب میں دریائے گومل تک پھیلا ہوا ہے جبکہ مشرق میں ایف آر ڈیرہ
اسماعیل خان اور ایف آرٹانک جبکہ شمال مغرب میں افغانستان کے صوبے خوستاور
پکتیکا واقع ہیں 1893 تک وزیرستان انگریز حکومت سے الگ ایک آزاد قبائلی
علاقے کے طورپر رہتا آیا .1947میں جب پاکستان وجود میں آیا تو وزیرستان بھی
اس میں ضم ہوا ۔ غیور پاکستانیوں پر مشتمل یہ علاقہ شروع دن سے دشمن کی
آنکھوں میں کانٹے کی طرح کڑھتا رہتا ہے، یہی کے بہادر اور نڈر جوانوں نے
پاکستان بننے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی افواج کے خلاف جہاد شروع کیا
اور ایک بڑا علاقہ بھارتی تسلط سے آزاد کروایا ۔ اگر اقوام متحدہ مداخلت نہ
کرتی تو عین ممکن تھا کہ سارا کے سارا کشمیر یہ غیور قبائلی آزاد کروا لیتے۔
افغانستان کی سرحد سے جڑے اس پرامن علاقہ میں ڈیورنڈ لائن کے رستے بھارتی
سرپرستی میں سینکڑوں دہشت گردی داخل کیے گئے جو پاکستان میں آکر عوام کو
حکومت اور فوج کے خلاف کفر کے فتوے دے کر شہریوں کو ورغلانے لگے کئی سیدھے
سادے لوگ ان نام نہاد اسلام پسندوں کے پروپیگنڈے کا شکار ہو گئے جن میں
اکثریت نوعمر لڑکوں کی تھی۔ بھارتی سرپرستی میں ان دہشت گردوں نے پاکستان
میں انتشار پھیلانے کے منصوبے کے تحت پاک فوج ، حکومت شخصیات اور قانون
نافذ کرنیوالے دیگر اداروں پر مسلح حملے شروع کر دیے۔
پاکستانی ریاست کئی بار دہشت گردوں کے چھوٹے چھوٹے گروہوں کے ساتھ محدود
علاقوں کے لیے امن معاہدے کرتی رہی ہے، لیکن پہلی بار وفاقی حکومت نے براہِ
راست تحریکِ طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کی پالیسی اپنائی۔ اس حوالے سے
متعدد کُل جماعتی کانفرنسیں بھی منعقد ہوئیں جن میں سے آخری نو ستمبر 2013ء
کو ہوئی۔ ان کانفرنسوں میں سیاسی جماعتوں کی جانب سے حکومت کو یہ اختیار
دیا گیا کہ وہ ملک میں قیامِ امن کے لیے شدت پسند تنظیموں کے ساتھ مذاکرات
کرے۔ آئندہ کئی ماہ تک مذاکرات ہوتے رہے۔ کمیٹیاں بنیں، کمیٹیوں پر سوال
اٹھے، خفیہ مقامات پر کمیٹیاں ہیلی کاپٹروں کی مدد سے ملنے گئیں۔ یہاں تک
کہ موجودہ وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تو
طالبان کا دفتر کھولنے تک کی تجویز پیش کر دی۔ امریکا نے بھی ڈرون حملے
روکنے کی حامی بھر لی۔ مگر طالبان قیادت کسی فیصلہ پر اپنے گروہوں کو متفق
نہ کر سکی۔ آخرکار مذاکرات ناکام ہو گئے۔ جس کے بعد 2014ء کا پہلا ڈرون
حملہ ہوا اور طالبان کی طرف سے بھی کراچی ہوائی اڈے پر حملہ کیا گيا۔ 8 جون
2014ء کو کراچی، پاکستان کے جناح انٹرنیشنل پر 10 دہشت گردوں نے حملہ کیا۔
کل 31 افراد بشمول 10دہشت گرد ہلاک ہوئے۔ تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی
ذمہ داری قبول کی ہے اور اسے اپنے سابقہ سربراہ حکیم اللہ محسود کے قتل کا
بدلہ قرار دیا ہے جو ایک ڈرون حملے میں نومبر 2013ء کو شمالی وزیرستان میں
مارا گیا تھا۔تحریک طالبان کی طرف سے مزید حملوں کی دھمکی بھی دی گئی ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد کے مطابق ہوائی اڈے پر حملہ
کی وجہ یہ تھی کہ یہاں کم شہری اور زیادہ سرکاری افراد ہوتے ہیں۔ اس کے
علاوہ تحریک طالبان پاکستان نے 10 جون سے پورے پیمانے پر پاکستانی ریاست کے
خلاف حملوں کی دھمکی دی۔ دشمن کی گود میں بیٹھ معصوم بچوں سمیت سینکڑوں
شہریوں کو شہید کرنے والے بدترین خوارج کے خلاف
15 جون 2014ء کو پاکستانی فوج نے شمالی وزیرستان میں عسکری کارروائی کا
فیصلہ کیا۔
15 جون: کو رات کو پہلے حملے میں 120 دہشت گرد مارے گئے اور بارود کا ایک
بڑا ذخیرہ تباہ کیا گيا۔
16 جون
: کو جٹ طیاروں سے میر شاہ کے علاقے میں گولہ باری سے 12 ازبک دہشت گرد
مارے گئے۔
17جون
: فضائی حملے میں 25 دہشت گرد مارے گئے، اس طرح مارے جانے والے دہشت گردوں
کی تعداد 215 ہو گئی۔
19 جون
: کوبرا ہیلی کاپٹروں نے رات گئے میران شاہ کے مشرق میں واقع زراتا تنگی کی
پہاڑیوں پر شدت پسندوں کے مواصلاتی مراکز کو نشانہ بنایا جس میں 15 شدت
پسند ہلاک ہو گئے۔
20 جون
شمالی وزیرستان کے علاقے حسو خیل کے علاقے میں بمباری کی گئی، جس میں شدت
پسندوں کے تین ٹھکانے تباہ کیے گئے اور 20 عسکریت پسند مارے گئے۔
خیبر ایجنسی میں افغان سرحد کے قریب جیٹ طیاروں کی بمباری میں شدت پسندوں
کے دو ٹھکانے تباہ کیے گئے۔
شمالی وزیرستان کے علاقے میران شاہ، میر علی اور دتہ خیل کے عمائدین نے
فوجی آپریشن کی مکمل حمایت کا اعلان کیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق عمائدین نے اعادہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کو
دوبارہ شمالی وزیرستان میں آنے نہیں دیں گے۔ پاک فوج کے آپریشن کے باعث
ہزاروں خاندانوں نے نقل مکانی کی۔ جن کو بنوں اور پشاور میں بنائے گئے
عارضی کیمپوں میں منتقل کیا گیا۔ 6 دسمبر 2014 کا دن پوری قوم کےلیے تاریخ
کا سیاہ ترین دن ہے جسے قوم کبھی نہیں بھلا سکے گی۔ سفاک دہشت گرد صبح 11
بجے اسکول میں داخل ہوئے اور معصوم بچوں پر اندھا دھند فائرنگ شروع کردی
اور بچوں کو چن چن کر قتل کیا۔ سیکیورٹی فورسز کے اسکول پہنچنے تک دہشت گرد
خون کی ہولی کھیلتے رہے اور کچھ ہی دیر میں ان ظالموں نے 132 معصوم جانوں
سمیت 141 افراد کو شہید کردیا۔ پاکستان سمیت پوری دنیا اس سانحے کی بربریت
کو دیکھ کر خون کے آنسو رو رہی تھی۔
واقعے کے بعد ہر طرف خون اور معصوم بچوں کی لاشیں بکھری ہوئی تھیں اور اگر
پیچھے کچھ بچا تھا تو صرف شہید بچوں کے والدین کی آہیں اور سسکیاں تھیں۔
اسکول کے در و دیوار دہشت اور ہولناکی کی دردناک کہانی بیان کررہے تھے،
دہشت گردوں نے اسکول میں درندگی کی ایسی مثال قائم کی کہ انسانیت بھی شرما
جائے۔ لیکن سلام ان معصوم شہدا کو جنہوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا،
ان شہدا کے لواحقین کو جن کے بچے صبح اسکول تو گئے لیکن واپس گھروں کو نہ
آئے۔ سلام ان بہادر اساتذہ کو جنہوں نے بچوں کو بچانے کی خاطر اپنی جان
قربان کردی، بالخصوص پرنسپل آرمی پبلک اسکول طاہرہ قاضی کو جنہوں نے فرض
شناسی اور بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جان قربان کردی لیکن دہشت گردوں اور
بچوں کے بیچ میں دیوار بن کر کھڑی رہیں۔
سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد ہر آنکھ اشک بار تھی۔ پاکستان سمیت پوری
دنیا اس سانحے کی بربریت کو دیکھ کر خون کے آنسو رو رہی تھی۔ سانحہ اے پی
ایس میں ملوث دہشت گردوں کے افغانستان کی جانب سے آنے کی تصدیق کی گئی
واقعے کے فورا بعد حکومتی اور فوجی قیادت نے شمالی وزیرستان میں دہشتگردوں
کے مکمل خاتمے کے لیے آپرین ضرب عضب شروع کیا۔ پاک فوج کی چار سال کی انتھک
محنت ، جوانوں کی قربانیاں رنگ لائیں اور شمالی وزیرستان میں مکمل امن قائم
ہو گیا۔ پاک فوج کی زیر نگرانی قبائلیوں کی اپنے علاقوں کو واپسی مکمل ہوئی
آج جہاں گولیوں ، دھماکوں کی دہشت تھی وہاں آج امن کی فضاء قائم ہے۔ رواں
ہفتے ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور کے ہمراہ ملکی و غیر ملکی
میڈیا کے نمائندوں نے شمالی وزیرستان کا مکمل دورہ کیا۔ اس دوران میجر جنرل
آصف غفور عام شہریوں میں گھل مل گئے اس موقع پر شہریوں کی کثیر تعداد نے
پاک فوج کے حق میں نعرہ بازی کی۔ شمالی وزیرستان میں آپریشنز کے بعد میڈیا
نے پہلی بار عوام سے براہ راست ملاقات کی۔ عوام نے میڈیا نمائندوں کو اپنے
درمیان پا کر خوشی کا اظہار کیا ۔ صحافیوں نے میران شاہ بازار میں عوام کے
ساتھ امن کی بہتر صورتحال اور درپیش انتظامی مسائل پر گفتگو کی۔عوام کی
جانب سے پاک فوج کی بحالی امن اور تعمیرو ترقی کے اقدامات کو سراہا گیا ۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے ساتھ لوگوں نے سیلفیاں بھی بنوائیں۔ میڈیا نمائندوں
نے بارڈر پر خاردار تار لگانے کے مشکل کام کو سراہا۔
پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
|