جس فراوانی کے ساتھ یہ الزام عاٸد کیا جاتا ہے کہ پاکستان
ایک دہشت گرد اور اس مرض کو فروغ دینے والا ملک ہے، اُسی تُجسس اور بے چینی
کے ساتھ ہماری عوام اکثر و بیشتر اس بحث میں مشغول نظر آتے ہیں کہ پاکستان
اسلام کے نظریے پر وجود میں آیا جو کہ دنیا کے 4200 مذاہب میں سب سے ذیادہ
امن پسند اور وقت کی ضروریات اور جدت کو اپنے اندر سمو لینے کی خوبی رکھتا
ہے. پھر آخر کیوں دہشت گردی کو پاکستان سے جوڑا جاتا ہے ؟
الفاظ کی اس گتھم گتھا بحث میں گھسنے سے پہلے لفظ دہشت سے تعارف کروانا
ضروری ہے:
”کسی فرد یا گروہ کا ایسا عمل جو لوگوں میں خوف و حراس پیدا کرے اور دوسرے
لوگ خود کو غیر محفوظ شمار کرنے لگیں“
مجھے یاد پڑتا ہے; ایک مرتبہ دوستوں کے ساتھ سفر کے دوران راستے میں
اندھیرا پڑ چکا تھا اور اتفاق سے گاڑی خراب ہوگٸی. قریب ہی ہم ایک مسافر
خانے تک جا بیٹھے اور مدد کے لیے انتظار کرنے لگے. تقریباً ہم سبھی با ریش
(داڑھی والے) نوجوان تھے، سڑک کے کنارے کھڑے ہوۓ گاڑیوں کو اشارہ دے کر مدد
مانگنے لگے. ہمیں دیکھتے ہی ڈراٸیور کی رفتار دگنی، چگنی ہونے لگتی تھی
گویا ہَوا میں اُڑنے کی خواہش کرتا ہو. کھڑے ہو کر جب تھک گٸے تو ایک بینچ
سڑک کے کنارے جما کر بیٹھ گٸے، تبھی ایک مسافر گاڑی آتی دکھاٸی دی، اب کی
بار ہم نے نہیں روکا مگر ڈراٸیور پہلے والوں سے بڑھ کے خوفزدہ نظر آیا (کہ
اندھیری رات میں ہمارے ہاتھوں آج اُس کی ساری گاڑی لُٹے گی اور ممکن ہے کچھ
خون خرابہ بھی). گاڑی نے رفتار پکڑی اور ہمارے طرف بے ترتیب ہچکولا کھا کر
لپکی. بلآخر ہم بچ گٸے لیکن مسافروں کی سرگوشیوں نے ہمیں مارنے میں کوٸی
کسر نہ چھوڑی، شاید ہماری داڑھیاں ہمارا قصور بن چکی تھیں......
علم نفسیات کا ایک پہلو کے مطابق; ”ایک بات جس کو ابتداٸی طور پر ذہن تسلیم
نہیں کرتا اُسےوقفہ در وقفہ دوہراتے رہنے سے انسان غیر ارادی طور پر حقیقت
ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے. ایسی حقیقت جسے بدلنا نا ممکنہ حد تک مشکل ہو
جاتا ہے“
ہمارے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی مسٸلہ درپیش ہے. غیر ممالک کے اس مفروضے کو
شاید ہم زہنی طور پر تسلیم کر چکے ہیں. حب الوطنی کو ایک لمحے کے لیے ایک
طرف کو رکھ کر خود سے سوال کیجیۓ کیا ہم اپنے ماحول (ارد گرد) سے خوف زدہ
نہیں ؟
زیادہ دور تک نہ جاٸیۓ، کیا آپ اپنے ساتھ سفر کر رہے اس شخص سے خوف زدہ
نہیں جس نے دورانِ سفر آپ سے اتنا پوچھ لیا ”آپ کہاں سے ہیں“ ؟ کیا آپ کی
دھڑکن تیز نہیں ہوٸی کہ کسی اجنبی نے آپ کو کچھ کھانے کو پیش کش کی ؟ کیا
آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ کسی نے آپکو خود سے کہہ دیا میں آپکو لفٹ دے دوں ؟
مسجد میں جاتے وقت محسوس ہو رہا ہے کہ جوتے نے پاٶں کو نہیں بلکہ پاٶں نے
جوتے کو اٹھایا ہوا ہے تو کیا آپ اپنے جوتے کو کھو دینے سے خوف زدہ نہیں؟
نہ چاہتے ہوٸے بھی کہنا پڑتا ہے کہ بحیثیت پاکستانی ہم اخلاقی طور پر ایک
بہت غریب قوم ہیں. اسلام کے پہلو سے دیکھا جاۓ تو محمدﷺ کے اخلاق سے غیر
مسلم تک متاثر تھے اور آج ہم ذرا سی بات پر ”نعرہ تکبیر“ کہہ کر بازو چڑھاۓ
پھرتے ہیں. ہمیں فخر تو ہے کہ ہم نوجوان ہیں، قوم کا سرمایہ ہیں مگر با خبر
نہیں کہ قومی ذمہ داری کا بڑا حصہ ہمارے سر ہے. ہر ایک اپنا حق ادا کرے تو
ہم بہترین قوم ہیں. پاکستان کو دہشت گرد ثابت کرنا محض دشمن ممالک کی شرارت
ہے، آپ کے وطن کی مٹی نے عبدالستار ایدھی پیدا کیا ہے نہ کی کلبھوشن
یادیو....
باقی عنوان بچتا ہے ”دہشت گردی اور اسلام“ کا تو واضح رہے ”جس نے ایک نا حق
قتل کیا اُس نے پوری انسانیت کا قتل کیا“ یقیناً ایسے لوگوں کے لیے اسلام
میں کوٸی گنجاٸش نہیں ہے. اور پاکستان اسلام کی بنیادوں پر کھڑی عمارت کا
نام ہے.
مختصراً یہ کہ جس دن ہمارے (”فی سبیل للہ“ کولر کے) گلاس کی زنجیری اتر
جاٸے گی ہم اس الزام سے بری ہو جاٸیں گے. اپنے ملک و قوم سے محبت اور
اعتبار کو زندہ رکھیۓ.
تحریر: *فرخ*
|