ایک مرتبہ شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ ہارون الرشید سے ملنے
گئے، ہارون نے پوچھا ،آپ ہی شقیق زاہد ہو۔۔۔؟
شقیقؒ نے جواب دیا کہ میں تو شقیق بلخی ہوں ، زاہد تو تم ہو۔
ہارون نے پوچھا میں زاہد کیسے ہو سکتا ہوں۔۔؟
شقیقؒ نے جواب دیا کہ زاہد وہ ہوتا ہے جو تھوڑے پر صبر کرے ۔ میں نے دنیا
سے منہ موڑ لیا ہے، اور مجھے جنت کے جلوے لہلہاتے نظر آتے ہیں لیکن اس کے
باوجود میری زبان سے ہل من مزید کے جملے نکلتے ہیں، پھر میں زاہد کیسے
ہوا۔۔؟ ہاں البتہ تم زاہد اس طرح ہو کہ تم اس مردار اور خوار و بےقرار دنیا
پر صبر کئے ہوئے ہو اور آخرت کی بے پایاں جنتوں سے بے نیاز ہو۔
ہارون اس بات کی گہرائی کو سمجھ چکا تھا ، اسی وجہ سے شقیقؒ سے کہا مجھے
کچھ نصیحت کیجیے۔
پھر جو قیمتی باتیں شقیقؒ نے کہیں وہ قابل توجہ ہیں، کہ اے ہارون خدا نے
تجھے صدیق کی جگہ بٹھایا ہے اس لئے کہ تم سے صدق چاہتا ہے۔ اے ہارون۔۔! اس
رب ذوالجلال نے تجھے عمر کی جگہ بٹھایا ہے کیونکہ سختی اور انصاف چاہتا ہے۔
اس رب نے تجھے عثمان کی جگہ بٹھایا ہے حیا، حلم اور سخاوت چاہتا ہے ۔ اس رب
نے تجھے علی المرتضی کی جگہ بٹھایا ہے اور تم سے انصاف اور علم چاہتا ہے۔
پھر فرمایا کہ اے ہارون خدا نے ایک جگہ بنائی ہے جس کو دوزخ کہا جاتا ہے
اور تمہیں اس کا دربان مقرر کر کے تین چیزیں عطا کی ہیں، ایک بیت المال،
دوسری تلوار اور تیسری چیز تازیانہ(کوڑا)۔ اور تمہیں حکم دیا ہے کہ ان
تینوں چیزوں کی مدد سے مخلوق کو اس جگہ جانے سے روکے رکھنا۔ اب یہ کام اس
طرح ہوگا کہ جو شخص خدا کے حکم کے خلاف کرے اسے تازیانہ (کوڑا) سے سزا دو،
جو شخص کسی کو نا حق قتل کرے اسے تلوار سے قتل کردو۔ اور جو شخص محتاج اور
غریب ہو جائے اسے بیت المال سے اس کا حصہ دلاؤ۔ اور یہ بھی یاد رکھو کہ اگر
تم اس بات پر عمل نہ کرو گے تو اس جہنم میں داخل ہونے والے پہلے انسان تم
خود ہو گے، باقی سب تمہارے پیچھے پیچھے آئیں گے۔
ہارون نے کہا حضرت کچھ اور نصیحت کیجیے۔شقیقؒ نے جواب میں کہا کہ تم چشمے
کی طرح ہو اور دوسرے اہل کار ندیوں کی مانند ہیں۔ صاف چشمے سے جو پانی پھوٹ
کر آیا کرتا ہے ندیاں اسے گدلا نہیں کر سکتیں۔
ہارون پر ان نصائح کا ایسا اثر ہوا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا، اور شقیق
بلخیؒ کو بڑی عزت اور تعظیم سے رخصت کر دیا۔(جوامع الحکایات برائے محمد ابن
العوفی، ص۱۸۲)
اس حکایت میں شقیق بلخیؒ نے جہاں ہمیں ایک اچھے حکمران کے تمام اوصاف اور
ذمہ داریاں بڑے جامع انداز میں سمجھا دی ہیں وہیں اس بات سے بھی آگاہ کر
دیا کہ ایک حکمران کامقام کیا ہوتا ہے اور انجام کیا ہو سکتا ہے۔ وہ ملک جو
جمہوری طرز عمل پر اپنے حکمران کا چناؤ کرتے ہیں وہاں حکمران کو مخالف
جماعت سے تنقید بھی سہنی پڑتی ہے لیکن اس کے با وجود اگر وہ غیر جانب دار
رہے اور اپنی پالیسی بھی ایسی ترتیب دے جس میں جانب داری کی بو نہ ہو تو
یقینا ایسا حکمران چشمے سے پھوٹنے والے پانی کی مانند ہے جس کو دوسری ندیاں
گدلا نہیں کر سکتیں۔
لیکن آج نا جانے شقیق بلخی جیسے کردارکی کمی ہے یا ہارون الرشید جیسے
حکمرانوں کی، بہر حال اگر ان میں سے کسی ایک کی بھی کمی ہے تو ہمارے لئے
باعث تشویش ضرور ہے ۔
خدا سے دعا ہے کہ ہمارے ملک میں بھی کسی شقیق بلخی کو پیدا کر دے جو کسی
حکمران کے سامنےبے خوف کھڑا ہو کر اس کو اس کے مقام و مرتبہ سے آگاہ کر تے
ہوئے اس کی ذمہ داریاں بھی بتائے اور انجمام بھی۔ آمین |