جب یہ امر بکمال وضاحت ثابت
ہوگیا کہ مخلوق پر خاص احسان و انعام وغیرہ قدرت کے امتیازی سلوک کی یادگار
شرعاً درست و مفید ہے تو ممتاز اور خاص بندگان خدا کی یادگار اور ذکر و یاد
کے مشروع و مفید ہونے میں کیا کلام ہو سکتا ہے ۔
چنانچہ قصص و احوال و کمالات و برکات انبیاءو اولیاء و صلحاءکا ذکر کلام
کبریا میں اس کثرت سے ہے کہ حد و شمار نہیں ان کی خلقت و میلاد و سیرت و
کمالات و ہدایات و اخبار پر کتاب و سنت و آثار شاہد ہیں بلکہ ان کے متعلقین
و متعلقات و منسوبات کا ذکر وبیان قرآن پاک میں بکثرت موجود ہے ۔ خلقت آدم
و تعلیم اسماءو مسیات مع متعلقات و خواص اور حکم سجدہ ملائکہ کو انکار سے
ابلیس کا رد ہونا ۔ دیگر انبیاء و رسل کے اذکار و بیانات و حالات و
امتیازات و مکارم و معجزات اور انکی یادگاروں کی یاد دلانا ۔ نام لے کر ان
کی یاد کا ارشاد فرمانا جب یہ سب منجملہ کلام اﷲ ارشاد ربانی سے ثابت ہے تو
اس سے اور اس کی افادیت و مشروعیت سے انکار دین ایمان سے کیا بلکہ علم و
فہم رسا سے بھی محرومی کی دلیل ہے مثلاً ۵/۷ مائدہ ۔ عیسیٰ بن مریم کو نعمت
و احساں کی یاد کا حکم اور اس کا ذکر فرمانا ۔
اِذ قَالَ اللّٰہُ ٰیعِیسَی ابنَ مَریَمَ اذکُر نِعمَتِی عَلَیکَ وَ عَلٰی
وَ الِدَتِکَ م اِذ اَیَّدتُّکَ بِرُوحِ القُدُس (الآیة)
ترجمہ : اے عیسیٰ بن مریم میری نعمت کو یاد کر اپنے اور اپنی والدہ پر پھر
ان کا ذکر فرمایا ۔
۵۱/۲۱ یوسف: پیغمبر کا دوسرے کو اپنی یاد کا حکم فرمانا ۔ اذکرنی عند ربک ۔
مجھے اپنے مربی (بادشاہ) کے ہاں یاد کرنا ۔
۵۱/۶۱ مریم : پیغمبر کی والدہ کی یاد کے لئے بندہ کو حکم الٰہی اور خود اس
کا بیان فرمانا۔ واذکر فی الکتب مریم
۶/۶۱ مریم : جد مصطفےٰ ابراہیم ؑ کی یاد کا حکم اور اس کا بیان فرمانا
واذکر فی الکتب ابراھیم o
۷/۶۱ مریم : موسیٰ کلیم اﷲ کی یاد کا حکم اور بیان واذکر فی الکتب موسی
۷/۶۱ مریم : جد مصطفےٰ اسماعیل کی یاد کا حکم اور بیان واذکرفی الکتب
اسمعیل
۷/۶۱ مریم : ادریس کی یاد کا حکم اور بیان واذکر فی الکتب ادریس
۱۱/۳۲ ص : داؤد ؑ کی یاد کا حکم اور بیان واذکر عبدنا داؤد
۳۱/۳۲ ص : ایوب ؑ کی یاد حکم اور بیان واذکر عبدنا ایوب
۳۱/۳۲ ابراہیم : ابراہیم ، اسحاق ، یعقوب علیہم السلام کی یاد کا حکم اور
بیان
واذکر عبدنا ابراہیم و اسحق و یعقوب
۳۱/۳۲ ص : اسمعیل ، یسع اور ذوالکفل علیہم السلام کی یاد کا حکم اور بیان
واذکر اسماعیل و الیسع و ذالکفل
۳/۶۲ احقاف : ہود ؑ کی یاد کا حکم و بیان و اذکر اخا عاد
۰۲/۹۲ دھر : قرآن جس میں محبوبان خدا کا ذکر و بیان اور اس کا ارشاد ہے اور
ایمان اور اس کی جزا ہے ۔ کفر اور اس کی سزا ہے اس کے حق خالق و مالک
کائنات خدائے مصطفےٰ کا ارشاد ہے ۔ ان ھذہ تذکرة فمن شاءاتخذ الی ربہ سبیلا
۔ یہ تذکرہ نصیحت ہے تو جو چاہے اپنے رب کی راہ اختیار کرے ۔
ابتدائے آفرنیش و نہایت نبوت و رسالت ہادی عالم محمد مصطفےٰ صلی اﷲ علیہ و
آلہ و صحبہ وسلم کو خالق و مالک کائنات کا حکم و ارشاد کہ نعمت الٰہیہ کا
چرچا کرو
۸۱/۰۳ الضحیٰ: واما بنعمة ربک فحدث اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو ۔
نعمت و احسان اور اہل نعمت و احسان کا ذکر و چرچا مشروع و مبارک اور مقاصد
شرع سے ثابت ہوا اور کوئی امر شرعی بے مقصد اور بے فائدہ تو ہوتا نہیں
لہٰذا اﷲ کی نعمت و احسان والے لوگوں کا ذکر اور مناقب کا بیان مشروع و
مفید ہے اور عظیم مقاصد و فوائد کا موجب ہے ۔ ازاں جملہ ایک بڑا فائدہ جو
اس سے ہوتا ہے وہ یہ کہ اﷲ کے اہل احسان و نعمت بندوں کے ذکر و یاد سے اﷲ
کا رستہ دین ایمان نصیب ہوتا ہے اور ان اہل اﷲ کا ذکر بیان خود اﷲ تعالیٰ
کی سنت اور دستور و سبیل ہے چنانچہ ارشاد ہوا ۔
ان ھذہ تذکرة فمن شاءاتخذ الی ربہ سبیلا
یہ قرآن جو انبیاءو اولیاء محبوبان خدا کے احسانات و انعامات کا تذکرہ ہے
اور نصیحت ہے اس سے جو چاہے اپنے رب کی طرف راہ لے ۔ لہٰذا تمام اسلامی
مراسم معمولات اور یادگاریں قائم رکھا شرعاً مقصود و مفید اور لازمی امر ہے
اور انکی مخالفت مقصد شرع کا خلاف اور علم و ہدایت دینی سے محرومی ہے۔ معاذ
اﷲ
(۰۲): یہ امر اصول اور قراعد شر ع سے ثابت ہے نعمت اور اہل نعمت بندگان خدا
کی یاد اور ذکر و بیان اہم افادیت و مقاصد شرع میں سے ہے تو جن بندگان خدا
پر جس قدر زائد نعمات و احسانات و عطا ہو ان کے احسان و نعم و کمالات
امتیازات اور خود اہل کمالات و نعم کا ذکر و بیان اسی قدر زیادہ اہمیت و
افادیت رکھتا ہے یہی سبب ہے کہ برگزیدہ انبیاءو اولیاءو بزرگانِ دین کی یاد
اور ذکر خصوصیت سے اہل اسلام میں انواع و اقسام سے جاری و معمول ہے اور ان
معمولات و مراسم سے دینی ایمانی قوت اور راہِ حق تک رسائی ہوتی ہے پس ایسے
معمولات و مراسم پر اعتراض و تنقید بحث و انکار انسداد کی راہ وہی لوگ
اختیار کرتے ہیں جن کا مدعا اہل اسلام کو دینی ایمانی قوت و طاقت سے محروم
کرکے کفر و نفاق و بد مذہبی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ وہ اہل
اسلام کے بہی خواہ اور پیشوا و مقتدا ہرگز نہیں پس ملی یاد اور یادگاروں
اور مراسم و معمولات میں افراد و طبقات میں ایک ملی اتحادی روح پیدا ہوتی
ہے ۔ جس سے افراد ملت کی تقویت طاقت کی راہ میسر آتی ہے جسے سبیل المومنین
سے تعبیر کیا جاتا ہے سو اس میں مخالفت و اختلاف پیدا کرنا سبیل مومنین کے
قلبی اور باطنی مخالف اور دشمن ہی کا کام ہو سکتا ہے پس نہ بھولے کہ ان ملی
معمولات و مراسم میں تفرقہ و اختلاف پیدا کرنے کی مہم ملی طاقت کے تباہ
کرنے کا منصوبہ ہے لہٰذا اس بد ترین منصوبہ والے کے حق ارشادِ ربانی ہے ۔
۳۱/۵ نساء: وَمَن یُّشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن م بَعدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ
الھُدٰی وَیَتَّبِع غَیرَ سَبِیلِ المُومِنِینَ نُوَلِّہ مَا تَوَلّٰی
وَنُصلِہ جَھَنَّمَ ط وَسَآئَ ت مَصِیرًاo
اور جو رسول کا خلاف کرے بعد اس کے کہ حق راستہ اس پر کھل چکا اور مسلمانوں
کی راہ رسم سے جدا راہ چلے ہم اسے اس کے حال پر چھوڑ دیں گے اور اسے دوزخ
میں داخل کریں گے اور کیا ہی بری جگہ ہے لپٹنے کی ۔
فائدہ : (۱) اس سے صاف معلوم ہوا کہ دینیات جو تعلیم و ہدایت رسول خدا محمد
مصطفےٰﷺ سے مستفاد ہیں وہ منجملہ ہدایت و دین حق اسلام کے ہیں خواہ اصولی
ضروریات و فرائض واجبات سنن مستجات ہوں یا فروعی معمولات و مراسم موجبات
تقویت دین و ایمان سب ہدایت دین حق اور سبیل مومنین میں سے ہیں ۔
(۲)جو اس میں اہل اسلام سے خلاف کرے اس کی راہ اہل اسلام کی راہ نہیں تو
اہل اسلام کی راہ دروش کے خلاف راہ والے بھی اہل اسلام سے نہیں اسی لئے
جہنم میں ٹھونسے جانے کی سزا اور بری بازگشت کا ٹھکانا ہونے کا اعلان ہوا ۔
(۳)اس سے اجماع صالحین امت کا حجت شرعیہ ہونا بھی معلوم ہوا جس کی مخالفت
جائز نہیں کہ وہ کتاب و سنت ہی کا اثر اور ظل ہے ۔
(۴)صراطِ مستقیم خالص دین حق اہل اﷲ صوفیائے کرام درست اعتقاد و اعمال
والوں کی راہ دروش ہے دیگر فرق محدثہ کا طریق راہِ راست صراطِ مستقیم اور
دین حق نہیں ۔
(۵)رسولِ خدا محمد مصطفےٰ کی تعظیم و اتباع والے اہل اسلام کا گروہ ہی سچے
لوگوں کی جماعت ہے جس کے ساتھ رہنے کا حکم ہے چاہے بندہ تقویٰ والا ہو تب
بھی ان کی معیت لازم ہے ۔ ۴/۱۱ توبہ :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِینَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَکُونُوا مَعَ
الصّٰدِقِینَ
ترجمہ : اے ایمان والوں! اﷲ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو ۔
فوائد: (۱) اس سے ثابت ہوا کہ اجماع صالحین امت حجت ہے اور اس کا خلاف کتاب
و سنت کے خلاف کی طرح جائز نہیں کہ صادقین درست ایمان اعتقاد و اعمال صالح
ظاہر و باطن والے خدا و مصطفےٰ کے ادب و عشق والے مومن مسلمان ہی ہیں ۔
(۲)تین ضروریات پر اس میں توجہ ہے ۔ ایمان ، تقویٰ اور معیت صادقین ۔ معلوم
ہوا کہ سب سے اول درستی اعتقاد درکار ہے پھر تقویٰ اور اس پر بھی معیت
صادقین کا ارشاد ہے بلا درستی اعتقاد (ایمان) نہ تقویٰ نہ معیت صادقین کا
محل ایمان پر تقویٰ اس پر معیت صادقین ضروری ہے ۔
(۳)تقویٰ کا مفہوم بندہ کا ظاہر و باطن اﷲ و رسول کے ادب و عشق منشاءو اصول
کےمطابق ہو جانا ہے پس کوئی ادب و عشق حق اور دین ایمان کے خلاف رہ کر
تقویٰ میں سچا نہیں ۔
(۴)َکُونُوا مَعَ الصّٰدِقِینَ o کے اطلاق سے کینونیت کا استمرار و دوام
مستفاد ہوتا ہے اس کی تعمیل و تسلیم مکمل یونہی ہو سکتی ہے کہ بہرحال معیت
و دوامی اختیار کی جاوے یعنی اعتقاد و اعمال عادات و معمولات و مراسم
مقتضیات میں معیت کی جاوے ۔
(۵)اس سے مراقبہ و تصور شیخ کی مشروعیت بھی مستفاذ ہوتی ہے جو معمولات
مشائخ کرام سے ہے ۔
ذکر صالحین حصہ دوئم
دنیا جہان میں سچا اور سیدھا دین اسلام ہے جس میں ہر خیر و برکت کی ہدایت و
تعلیم ہے دین اسلام نے امور خیر و برکت کو دو حصوں میں کرکے کائنات کے
سامنے رکھا ہے ایک فرائض یا لوازمات شرعیہ جیسے فریضہ نماز روزہ حج و زکوٰة
جہاد وغیرہ جو سراپا خیر و برکت اور ہدایت و ایمان میں ترقی تقویت کا موجب
ہیں یہ بنیادی طاعات کہلاتی ہیں۔
اور دوسرا حصہ تطوعات و اختیاری معمولات شرعیہ جو پہلے حصہ کی تمیم و تکوین
و تائید و تقویت کا موجب اور مزید انعامات و احسانات کا باعث ہیں جیسے
نوافل سنن و صدقات خیرات و حسنات کی وہ صورتیں کہ پہلے حصہ کی طرح ان کی
شدت سے تاکید تو نہیں مگر افادیت نہایت اہم درجہ تک ہے کہ شرع مقدس نے اس
کی ترغیب و ہدایت پر توجہ دلائی ہے ۔ ۳/۲ بقرہ :
وَمَن تَطَوَّعَ خَیرًا لا فَاِنَّ اللّٰہَ شَاکِر’‘ عَلِیم’‘
اور جو کوئی از خود نیکی کی بات کرے تو اﷲ بے شک قدر دان جاننے والا ہے ۔
۷۱/۷ حج : وَافعَلُوا الخَیرَ لَعَلَّکُم تُفلِحُون
خیر کے سب کام کرو اس اعتقاد پر کہ تمہیں کامیابی ہو ۔
فوائد: (۱) اس سے صاف معلوم ہوا کہ معمولات شرعیہ دوقسم ہیں ۔ مامورات جنکا
امر ہے ۔ دوسرے مختارات جو اہل دین و ایمان دینی ایمانی علم و فہم فراست سے
از خود اختیار کریں اور مقاصد شرع کے مطابق افادیت و خیر پر مبنی ہوں اور
اہل دین ایماں کی یہ ایجاد خیر کی صلاحیت اس قسم کی آیات سے ثابت ہے اور
حدیث شریف میں بھی اس کی تصریح موجود ہے جسے اصول محدثین و فقہا اسلام میں
استنباط اصول و قواعد کا مرتبہ دیا گیا ہے اور اہل دین و ایماں کی اسی
صلاحیت کی بنا پر ایجاد کردہ مراسم و معمولات کو سنة حسنة کا لقب دیا گیا
ہے ۔
مشکوٰة کتاب العلم میں مسلم بروایت جرید بن عبداﷲ ؓ معلم کائنات ہادی عالم
آخر المبعوثین محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ و آلہ وسلم کا ارشاد ہے
من سن فی الاسلام سنة حسنة فلہ اجرھا و اجر من عمل بھا من بعدہ من غیر ان
ینقص من اجررھم شی و من سن فی الاسلام سنة سیئة کان علیہ و زرھا و وزرمن
عمل بھا من بعدہ غیر ان ینقص من اوزارھم شی (مسلم)
جس نے اسلام میں کوئی اچھی ایجاد کی تو اسے اس کا اجر اور اس پر آئندہ عمل
والوں کا اجر ملتا ہے بغیر اس کے عمل میں کسی کمی کے اور جس کسی نے اسلام
میں کوئی بڑی ایجاد کی تو اس کا بار اس پر اور آئندہ اس پر عمل کرنے والوں
کا سا بار (گناہ) اس پر ہے بغیر کسی کے (مسلم)
اور مسند احمد ج ۵، صفحہ ۷۸۳ عہد رسالت میں سوالی کے سوال پر لوگوں نے کچھ
نہ دیا اور پھر ایک نے اسے کچھ دیا پھر اسے دیکھ کر دوسروں نے بھی کچھ دیا
تو حضور نے فرمایا ۔
من سن خیر فاستن بہ کان لہ اجرہ و من اجورھم شیئا
جس نے کوئی خیر کا طریقہ جاری کیا تو پر دوسروں نے عمل اختیار کیا تو اس کے
لئے اس طریق خیر کے جاری کرنے اور اس پر عمل و پیروی کرنے والوں کا سا ثواب
و اجر ہے بغیر کسی عجمی کے ۔
و من سن شرا فاتن بہ کان لہ وزرہ من اوزاد من یتبعہ غیر منتقص من اوزارھم
شیئا o
اور جس نے کوئی برا طریقہ ایجاد کیا تو اس پر اس کی پیروی کی گئی اس کے لئے
اس کا بار ہے اور ان کا بار بھی جو اس کے پیرو ہوئے بغیر کسی نقص و خمی کے
۔
فوائد : (۱) معلوم ہوا کہ اچھے طریقوں کی ایجاد دین اسلام میں پسند اور اجر
و ثواب کا موجب ہے اور برے طریقوں کی ایجاد نا پسند اور عذاب کا موجب ہے ۔
(۲)ہر اچھی ایجاد کو بھی بری ایجاد یا بدعت تصور کر لینا بھی ایک جہالت اور
برا طریقہ ہے پس عقائد و اعمال کی نیکی بدی معلوم کرنے کے لئے اہل علم و
عرفان اولیاءاﷲ سے دریافت کرنا ضروری ہے جسے اہل اﷲ برا کہیں وہ بری ہے
ورنہ نیکی ہے ۔ نیکوں اور نیکیوں کی پیروی اﷲ رسول کو پسند ہے اور اجر و
ثواب کا کام ہے ۔ |