حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی آخری دعا

 ماہِ ربیع الاوّل سن 11ھجری کے دن تھے، سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طبیعت بہت خراب تھی، بیماری کے باعث آپ ﷺ بے حد کمزور ہوگئے تھے۔اب کچھ ہی دن رہ گئے تھے جب آپ ﷺ اس دنیا سے پردہ فرمانے والے تھے۔ صحابہ اکرام ؓ آپ ﷺ کے بیمار ہوجانے کی وجہ سے بے حد غمزدہ اور بہت پریشان تھے ،انھیں اپنے گھروں میں کسی طرح چین نہیں آرہا تھا ، وہ دیوانہ وار مسجد نبوی کے ارد گرد چکر لگا رہے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے( صحابہ اکرامؓ کی آوازیں سن کر) فرمایا مجھے بٹھاﺅ۔ حضرت فضل بن عباسؓ اور حضرت علیؓ نے آپ ﷺ کو سہارا دے کر بٹھایا ، تو حضور ﷺ نے فرمایا یہ کیا کہتے ہیں؟انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ! وہ روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حضور ﷺ شاید اس مرض میں ہم سے جدا ہوجائیں گے، پھر نہ جانے ہمارا کیا حال ہو۔

ظہر کی نماز کا وقت تھا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم شدید بخار کے باوجود اٹھے ، حضرت علیؓ اور حضرت فضل بن عباس ؓ کے سہارے اپنے حجرے سے باہر آئے اور منبر پر تشریف فرما ہوگئے پھر حضرت فضل بن عباسؓ کو حکم دیا کہ اَلصَّلٰوة جَامعَة کا نعرہ لگوائیں ، یعنی کہ تمام مسلمان نماز کے لئے جمع ہوجائیں۔ جب مدینہ کی گلیوں میں کوئی یہ نعرہ لگاتا تو صحابہ اکرام ؓ سمجھ لیتے کہ کوئی ضروری بات ہے جسکا اعلان کرنے کے لئے اللہ کے رسول نے مسلمانوں کو جمع ہوجانے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ تمام صحابہ ؓ جوق در جوق جمع ہوجاتے۔ اعلان کے بعد تمام لوگ بے قراری کے عالم میں دوڑتے چلے آئے اور مسجد نبوی میں جمع ہوگئے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حمد و ثناء کے بعد فرمایا کہ اب میرا آخری وقت قریب ہے اور میرا خیال ہے کہ تم مجھ سے بہت جلد جدا ہونے والے ہو ، سچ بتاﺅ کہ جب میں تم سے جدا ہوجاﺅں گا تو تم کس طرح رہو گے؟یہ سن تمام حاضرین رو پڑے ، مسجد نبوی میں ایک کہرام بپا ہوگیا۔سب نے روتے ہوئے عرض کیا ۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! ہم آپ ﷺ کے احکام کی دل و جان سے پیروی کریں گے اور قرآن کے دستور پر عمل کریں گے۔

اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سچ کہو میں نے تم کو کس طرح احکام پہنچائے ، تمہاری وجہ سے کیا کیا مصبتیں برداشت کیں۔ میرے دانت توڑ ڈالے ، میرے چہرے کو خون میں رنگا ، جاہلوں سے گالیا ں سنیں، بھوک کی وجہ سے پیٹ پر پتھر باندھے اور صبر سے رہا۔ سب نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک آپﷺ اعلیٰ صابر اور انتہائی شاکر ہیں۔ آپﷺ نے اللہ کے احکام ہم تک پہنچا دئے، ہمیں گمراہی سے نکال کر ہدایت کی راہ پر لگایا، آپ ﷺ نے ہمیں خدا سے ملا دیا۔اس کی جزا آپﷺ کو اللہ دے گا ہم آپ ﷺ کے احسانات کا بدلہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یا اللہ تو گواہ رہنا۔ پھر فرمایا میں تمہیں اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں کہ جس کسی کا قرض میرے ذمّے ہو وہ ابھی وصول کر لے ۔ جس کسی کو میں نے مارا ہو وہ ابھی مجھ سے بدلہ لے لے۔ جس کا مجھ پر کوئی حق باقی ہو ابھی صاف صاف کہہ دے اور لے لے۔ میں نہیں چاہتا کہ یہاں کا معاملہ قیامت کے دن کے لئے باقی رہ جائے۔ کوئی شخص اپنے دل میں یہ خیال نہ کرے کہ اگر اس وقت میں اپنا حق لوں گا تو اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے مزاج کے خلاف ہوگا۔ میں اس شخص کو اپنا دوست جانتا جو اپنا حق ابھی مجھ سے طلب کر لے یا مجھے معاف کردے تاکہ میں اپنے رب کے پاس اطمینان سے جاﺅں۔ یہ فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اور نماز ظہر ادا فرمائی۔ نماز کے بعد پھر منبر پر آئے اور یہی اعلان دوبارہ فرمایا۔

مجمع میں سے ایک شخص اٹھا اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے تین درہم آپ ﷺ کے ذمے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ کس معاملے کے ہیں۔ اس شخص نے کہا ایک دن ایک سائل آپ ﷺ کے پاس حاضر ہوا تو آپ ﷺنے کہا کہ تین درہم اس سائل کو دیدو۔میں نے تین درہم اس سائل کو دے دیئے تھے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فضل بن عباس ؓ کو حکم دیا کہ اسے تین درہم ادا کر دیئے جائیں۔فضل بن عباسؓ نے اسے تین درہم ادا کر دیئے۔

اس کے بعد اسی مجلس میں سے ایک صحابی حضرت عکاشہ بن محصن اسدی ؓ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ ﷺ کے بے حد اصرار کے ساتھ فرمانے پر میں مجبوراََ عرض کر رہا ہوں کہ تبوک کے سفر کے دوران جب آپ ﷺ اونٹنی کو چابک مار رہے تھے تو وہ میری پشت پر لگا تھا اور اس سے مجھے سخت تکلیف ہوئی تھی۔یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اب اس وقت میں آپ ﷺ سے اس کا بدلہ لینا چاہتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عکاشہؓ اللہ تمہیں اس کی جزا دے ، اچھا ہوا کہ تم نے ابھی کہہ دیا ، قیامت پر نہ چھوڑا۔ میں دنیا میں بدلہ دینے والے کو زیادہ پسند کرتا ہوں بمقابلہ آخرت کے۔ اے عکاشہ ؓ تمہیں معلوم ہے کہ وہ چابک کونسا تھا؟ عکاشہ ؓ نے عرض کیا ‘ ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس چابک میں لکڑی کا دستہ اور خیز ران خیزران سے بٹا ہوا تسمہ لگا ہو ا تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان فارسی ؓ سے فرمایا ۔ وہ چابک میری بیٹی فاطمہ ؓ کے پاس ہے جاﺅ اور جلدی سے لیکر آﺅ۔ حضرت سلمان فارسیؓ ، سیدہ فاطمة الزہرہ ؓ کے مکان پر پہنچے اور ان سے چابک مانگا۔ حضرت فاطمہؓ نے پوچھا اے سلمان ؓ ! میرے ابّا جان بخار میں مبتلا ہیں ‘سواری کرنے کی طاقت نہیں ، پھر آپ نے چابک کس لئے منگوایا ہے؟ حضرت سلمان فارسی ؓ نے انھیں سب ماجرا کہہ سنایا۔ حضرت فاطمہ ؓ یہ سن کر رو پڑیں اور اللہ سے دعا کرنے لگیں کہ یا اللہ جو شخص اس وقت میرے ابا جان سے قصاص طلب کر رہا ہے تو اس کے دل میں رحم ڈال دے کیونکہ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیماری کی وجہ سے بہت کمزور ہیں۔

چابک لیکر حضر ت سلمان فارسی ؓ مسجد نبوی پہنچے تو صحابہ اکرام ؓ چابک دیکھ کر غم سے چیخ اٹھے، ادھر سیدہ فاطمہؓ نے حضرت امام حسنؓ اور حسین ؓسے فرمایا، جلدی جاﺅ اور ایک ایک چابک کے بدلے سو سو، چابک اپنے اوپر لے لو اور اپنے نانا جان پر فدا ہوجاﺅ۔ آپ دونوں جب مسجد نبوی پہنچے تو دیکھا کہ مسجد صحابہ اکرام ؓ کی غمزدہ آوازوں سے گونج رہی تھی اور عکاشہؓ ہاتھ میں چابک لئے کھڑے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے ، اے عکاشہؓ ! جس طرح میں نے تجھے چابک مارا تھا اسی قوت سے مجھے مار لو۔ یہ دیکھ کر تمام صحابہ اکرام ؓ حضرت عکاشہؓ کے گرد جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک چابک مارنے کے بجائے ہم سب کو سو سو، چابک مار لو۔ حضرت حسن ؓ اور حضرت حسینؓنے رو کر پکارا کہ اے عکاشہؓ ! ہمارے نانا جان کا بدلہ اور کسی سے نہ لو ہم حاضر ہیں ہم دونوں کو سو سو چابک مار لو۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں نواسوں سے فرمایا ، جان پدر تم یہ خیال نہ کرو، قصاص مجھ پر واجب ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔ پھر حضرت عکاشہ ؓ سے فرمایا ، جلدی کر اپنا بدلہ لے۔ عکاشہؓ بولے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس دن مجھے چابک لگا تھا اس دن میرے پیٹھ برہنہ تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی پیٹھ پر سے کپڑا ہٹا دیا ۔ حسنؓ ، حسینؓ اور صحابہ اکرام ؓ کی چیخیں نکل گئیں۔ حضرت عکاشہؓ چابک لیکر آگے بڑھے ، قریب پہنچے، جب مہر نبوت پر نظر پڑی تو چابک پھینک دیا اور بیتاب ہوکر مہر نبوت کو چومنے لگ گئے۔اور کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے ماں باپ آپﷺ پر قربان ہوں ، عکاشہ کے ہاتھوں میں یہ ہمت نہیں کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بدلہ لے سکیں۔ عکاشہؓ تو دل و جان سے آپ ﷺ پر نثار ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عکاشہؓ ! یہ کیا۔ حضرت عکاشہ ؓ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ حیلہ میں نے اسی لئے کیا تھا تاکہ مہر نبوت کو چوم سکو ں ، کیوں کہ آپﷺ نے فرمایا تھا کہ جس کا بدن میرے جسم سے چھو گیا اسے جہنم کی آگ نہیں چھوئے گی۔ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے معاف کردیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عکاشہ ؓ کے حق میں دعائے خیر فرمائی۔ یہ دعا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیاوی حیات میں آخری دعا تھی۔ (ماخوذ : سیرت النبی ﷺ)
M. Zamiruddin Kausar
About the Author: M. Zamiruddin Kausar Read More Articles by M. Zamiruddin Kausar: 97 Articles with 305687 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.