آصف سانول جوئیہ ،دبئی
عزت بیگ نے جب اپنے ساتھیوں کیساتھ بلخ بخارہ سے تجارت کا سامان لے کر
گجرات کے قریب دریائے چناب کے کنارے ڈیرے لگائے تو اسے یہ دھرتی بہت پسند
آئی، عزت بیگ ساتھیوں کے ساتھ گجرات جاتا اور تجارت کا سامان کچھ فروخت
کرتا کچھ خرید لیتا پھر واپس دریائے چناب کے کنارے پہ آجاتا۔ اسی کنارے پہ
سوہنی اپنی سہیلیوں کیساتھ پانی لینے آتی تھی۔ عزت بیگ ایک دن دریا کے
کنارے پہ بیٹھا تھا، ایک دوپٹہ کنارے کے ساتھ ساتھ پانی میں آرہا تھا اور
دوپٹے کے پیچھے پیچھے ایک لڑکی بھاگتی آرہی تھی، عزت بیگ نے وہ دوپٹہ پکڑ
لیا اتنے میں وہ لڑکی بھی پاس آگئی عزت بیگ نے آج تک اتنی حسین لڑکی نہیں
دیکھی تھی جب پہلی بار عزت بیگ اور سوہنی کی آنکھیں چار ہوئیں تو شاعر آصف
سانول جوئیہ کیا لکھتا ہے،
جداں دو توں اکھیاں چار ہوئیاں
تھاں مار کے سٹیا اکھیاں
ہایا جو سرمایہ دل دے وچ
سارا ہار کے سٹیا اکھیاں
اکھیں اکھیں وچ ہو کلام گیا
انج وار کے سٹیا اکھیاں
لٹ گیا شہزادہ بخارے دا
انج ٹھار کے سٹیا اکھیاں
پہلی نظر میں عزت بیگ دل ہار بیٹھا تھا ۔سوہنی دوپٹہ لے کر چلی گئی ۔ اب
روز عزت بیگ اس جگہ پہ آ بیٹھتا۔سوہنی آتی کنارے پہ پانی بھرنے تو عزت بیگ
دل ہی دل میں خوش ہوتا کہ چلو محبوبہ کا دیدار تو ہوا۔ کئی دن ایسے ہی گزر
گئے رفتہ رفتہ جب عزت بیگ کے ساتھیوں کا سب سامان بک گیا اور انہوں نے نیا
خرید لیا تو عزت بیگ کو انہوں نے بولا بھئی چلیں واپس بلخ بخارے تو عزت بیگ
جو سوہنی کے عشق میں پورا ڈوب چکا تھا نے انکار کردیا کہ تم چلے جاؤ اور
میں ابھی ادھر ہی ہوں ۔ساتھی چلے گئے اور عزت بیگ گجرات آگیا اس دوران عزت
بیگ نے سوہنی کا گھر بار دیکھ لیا تھا۔ سوہنی ایک کمہار کی بیٹی تھی اور
مٹی کے گھڑے بناتے تھے ۔ عزت بیگ سوہنی کے والد سے گھڑے خریدتا اور بازار
میں جاکر سستے داموں بیچ دیتا۔ عزت بیگ جب گھڑے لینے آتا تو سوہنی کا والد
سوہنی کو بولتا سوہنی بیٹا تاجر کو گھڑے دو۔ سوہنی گھڑے دکھاتی تو عزت بیگ
کو گھڑے کہاں نظر آتے تھے وہ تو سوہنی کے حسن و جمال میں کھویا رہتا تھا۔
ایک دن گھڑے خریدتے عزت بیگ نے اپنے پیار کا اظہار کر ہی دیا۔ اظہار کیسے
کیا شاعر آصف سانول جوئیہ شاعری میں بیان کرتا ہے،
ساڈے دل وچ گھر کرگئی اے
تیری دلبر سوہنی ذات اے
اساں تیرے ہوکے رہ گئے آں
دوجھی بھل گئی ہر گل بات اے
سانوں خاباں چ توں ہی دسدی ایں
بڑی اوکھی لگھدی رات اے
سانوں بلخ بخارا بھل گیا اے
انج آیا پسند گجرات اے
سوہنی پہلے ہی عزت بیگ کو دل ہار بیٹھی تھی لیکن عورت ذات تھی اظہار نہ
کرپائی۔ عزت بیگ روز گھڑے خرید کے بازار لے جاتا اور سستے داموں بیچتا آخر
عزت بیگ قرض دار ہوتا گیا اور عزت بیگ اور سوہنی کے قصے مشہور ہوگئے۔ جب
علاقے والوں کو پتہ چلا تو انہوں نے عزت بیگ کو بھگا دیا اور سوہنی کی شادی
قریبی لڑکے سے کردی جب سہاگ رات کو وہ لڑکا سوہنی کے قریب آیا تو سوہنی نے
کہا مجھے ہاتھ مت لگانا میں کسی کی امانت ہوں لیکن جب اس نے دست برداری کی
تو سوہنی کی زبان سے نکلا ۔’’شالا تینوں سپ لڑے۔ ( اﷲ کرے تمہیں سانپ کاٹے
)‘‘اسی دوران چھت سے کالا ناگ نکلا اوراس لڑکے کو کاٹ لیا وہ لڑکا مرگیا
سوہنی اسی گھر میں ہی رہتی تھی جبکہ عزت بیگ نے دریائے چناب کے دوسرے پار
جاکے ڈیرہ لگایا تھا جس کا سوہنی کو علم تھا، سوہنی پکے گھڑے پہ تیر کر
دریائے چناب عبور کرتی اور عزت بیگ کو ملتی تھی عزت بیگ دریا سے مچھلیاں
پکڑ کر سوہنی کو بھون کر کھلاتا تھا۔ ایک دن کوئی مچھلی نہ پکڑی گئی، عزت
بیگ پریشان تھا سوہنی آئی تو پوچھا۔’’ مچھلیاں کہاں ہیں ؟‘‘عزت بیگ نے کہا۔
’’ پڑی ہیں۔‘‘ عزت بیگ نے چھری سے اپنی ران سے گوشت اتارکے بھون کے سوہنی
کو کھلا دیا۔ سوہنی کہتی۔’’ آج تو مچھلیاں بڑی لذیذ ہیں۔ ‘‘دن گزرتے گئے
سوہنی کی نند کو پتہ چل گیا کہ سوہنی عزت بیگ کو دریا عبور کرکے ملتی ہے۔
اس نے ایک دن سوہنی کے جانے سے پہلے جہاں سوہنی پکا گھڑا رکھتی تھی وہاں
کچا گھڑا رکھ دیا اور پکا اٹھا لیا۔ سوہنی آئی عشق ٹھاٹھیں ماررہا تھا،
دریائے چناب بھی پوری ٹھاٹھیں ماررہا تھا ،سوہنی کبھی گھڑے کو دیکھتی کبھی
خود کو اسے علم ہوگیا تھا کہ گھڑا کچا ہے لیکن پھر بھی وہ پار جانا چاہتی
تھی جب سوہنی کچا گھڑا لے کے دریا کی طرف چلی تو گھڑے سے چند باتیں کرتی ہے
،میں پیش کرتا ہوں ۔
سن گھڑیا میری فریاد وے
جے توں اج ناں لایا پار وے
میرا رس جانائی مہیوال
پار مینوں لادے وے
وے اڑیا اووووو بیٹھائی مہیوال
پار مینوں لادے وے
گھڑا کیاجواب دیتا ہے،
کالے بدلاں پایا شور
نی سوہنی میں کچا کمزور
پانی مٹی دا کیہڑا جوڑ
پار اساں نئیں جانا
نی سوہنیے ڈب جاں گے وچ کار
پار اساں نئیں جانا
لیکن سوہنی کہاں رکنے والی تھی اس نے کچے گھڑے کے ساتھ دریائے چناب میں
چھلانگ لگا دی جب تھوڑی دور گئی تو گھڑا کچا تھا، لہروں کی نظر ہوگیا
۔سوہنی نے آواز لگائی۔
’’مہیوال۔۔۔‘‘ مہیوال نے جب سوہنی کی آواز سنی تو اس نے بھی دریا میں
چھلانگ لگادی اور دونوں دریائے چناب کی لہروں کی نذر ہوگئے لیکن دنیا کے
لیے ایک کہانی چھوڑ گئے۔
|