تحریر ۔۔۔وقاص معین ،چنی گوٹھ
گزرے زمانے کی بات ہے کہ بمبور کے علاقے میں ایک جام سلطان نامی شخص حکومت
کرتا تھا۔ جو بہت ہی نیک دل اور انصاف پسند بادشاہ تھا۔ وہ اپنی رعایا کا
بہت خیال رکھتا تھا۔بادشاہ کی شادی کو کافی عرصہ بیت چکا تھا لیکن ابھی تک
بادشاہ کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوسکی۔بادشاہ نے اپنی نیک اولاد کے لئے بہت سے
درباروں پر جا کر منت مانگی۔بادشاہ کی خواہش تھی کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو
جو اس کے تخت کا وارث بنے لیکن خدا کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا۔ایک صبح
جب بادشاہ اپنے تخت پر بیٹھا لوگوں کے مسائل سن رہا تھا اسی وقت ایک کنیز
نے اس کے کان میں آ کر کہا بادشاہ سلامت مبارک ہو اﷲ نے آپ کو چاند سی بیٹی
عطا کی ہے۔ بیٹی کا نام سن کر بادشاہ غصے سے لال پیلا ہو گیا اور فوراً اس
وقت کے نجومیوں کو اپنے دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا۔ نجومی بادشاہ کے
دربار میں حاضر ہوئے اور سلام پیش کیا۔’’جی فرمائیں بادشاہ سلامت کیسے ہم
غریبوں کو یاد کیا؟‘‘ بادشاہ نے حکم دیا کہ اس بچی کی آنے والی زندگی کے
بارے میں حساب لگا کر بتایا جائے۔ نجومیوں نے کافی حساب کتاب کے بعد عرض
کیا۔’’ بادشاہ سلامت جان کی امان چاہوں تو کچھ عرض کروں۔‘‘ بادشاہ نے ان کی
جان بخشی اور بولنے کو کہا۔نجومی نے عرض کیا۔’’ بادشاہ سلامت یہ بچی جوانی
میں باغی ہوجائے گی اور کسی شہزادے کے عشق میں مبتلا ہوجائے گی۔‘‘ بادشاہ
نجومی کی بات سن کر سکتے میں آگیا ۔ اس نے رات کے وقت ایک بڑے سے صندوق میں
بہت سارا خزانہ اشرفی وغیرہ بھر کے اس کے اوپر بچی کو لٹایا اور اس کے گلے
میں ایک تعویذ باندھ کر دریائے چناب میں بہادیا۔ تعویز پر بچی کا نام اور
تاریخ پیدائش درج کر دی۔ دریائے چناب کے موجیں ٹھاٹھے مارتی ہوئی صندوق کو
آگے کی جانب دھکیل رہی تھیں یہاں تک کہ صندوق بلوچستان میں تھر کے علاقے تک
جا پہنچا۔صبح سویرے کچھ لوگ دریا کے کنارے کپڑے دھونے کے لئے آتے تھے۔ ان
میں ایک غریب دھوبی بھی تھا جو بے اولاد بھی تھا۔اس کی نظر صندوق پر پڑی،
اس نے آگے بڑھ کر صندوق کو نکالا اور گھر جاکر جب صندوق کو کھولا تو اس کی
آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔صندوق میں ایک بہت ہی پیاری سی ننھی سی کلی
مسکرا رہی تھی اور ساتھ میں اتنا سارا خزانہ تھا کہ اس کی آنے والی نسلیں
بھی عیش و آرام کی زندگی گزار سکتی تھیں۔ دھوبی بے اولاد تو تھا ہی اوپر سے
غریب بھی دونوں نعمتیں ایک ساتھ ملنے پر اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ
رہی۔اس نے بچی کو ڈھیر سارا پیار دیا اور اس خزانے کی مدد سے اس کی اچھی
طرح خیال رکھا، اس کی آرائش و زیبائش کا خیال رکھا، اس کی اعلیٰ تعلیم کا
خیال رکھا۔بچی نے بھی اچھی تعلیم و تربیت حاصل کی اور خوب اچھے اخلاق کی
مالک بنی۔جوں جوں بچی بڑی ہو رہی تھی اس کی خوبصورتی اور اخلاق میں اضافہ
ہوتا جا رہا تھا۔اب بچی جوان ہو چکی تھی اور اس کی خوبصورتی اور اخلاق کی
مثالیں دور دور تک پھیل چکی تھیں۔سسی کے لیے بہت سے شہزادوں اور بہت سے
امیر گھرانوں کے رشتے بھی آئے لیکن سسی نے سب کو انکار کردیا۔اور وہاں سسی
کا باپ (جام سلطان) اس کی کوئی اور دوسری اولاد نہ ہوسکی تو اس نے دوسری
شادی کرنے کا فیصلہ کیا اور رشتہ لے کر سسی کے گھر جاپہنچا۔جب اس نے سسی کے
گلے میں اس کا باندھا ہوا تعویذ نظر آیا تو فوراً پہچان گیا کہ یہ تو میری
وہی سسی ہے جس کو میں نے دریا کے حوالے کر دیا تھا۔ اس کا باپ اپنے کئے پر
بہت شرمندہ تھا اس نے اپنی بیٹی کو ماجرا سنایا اور اپنے کئے کی معافی طلب
کی اور اپنے ساتھ چلنے کو کہا لیکن اس نے اپنے باپ کے ساتھ جانے سے انکار
کردیااور بولی کہ،’’ آپ کو اس وقت ذرا بھی احساس نہیں ہوا، ذرا بھی مجھ پر
ترس نہیں آیا کہ دو دن کی بچی جس کو آپ دریا کے حوالے کر رہے ہو اس کا کیا
بنے گا۔آپ کو اﷲ نے شاید اسی لیے اب تک بے اولاد رکھا ہے۔ہر بندہ ہی بیٹوں
کی تمنا کرتا ہے آپ کی طرح۔ پر آپ کو کیا پتا کہ بیٹے اﷲ کی نعمت ہوتے ہیں
اور نعمتوں کا حساب لیا جاتا ہے جبکہ بیٹیاں رب تعالیٰ کی رحمت ہوتی ہیں
اور رحمتیں بے حساب ہوتی ہیں اور رحمتوں کا کوئی حساب نہیں ہوتا۔اپنے رب کی
دی ہوئی رحمت کو ٹھکرایا تھا اس لیے اﷲ تعالیٰ نے آپ کو نعمتوں سے بھی
محروم رکھا۔‘‘ایک روزسسی اپنی سہیلیوں کے ساتھ باغ کی سیر کو گئی ،باغ کی
ہریالی اور رنگ برنگ پھولوں سے مزین کیاریاں اس کے دل کو چھو گئیں۔ سیر
کرتے کرتے شہزادی سسی اتنی دور نکل گئی کہ راستے کا پتہ ہی نہ چلا۔اچانک ان
کی نظر ایک ہال نما کمرے پر پڑی۔ سسی اور اس کی سہلیاں کمرے کے اندر داخل
ہو گئی۔ کمرہ نہایت ہی خوبصورت اور مختلف چیزوں سے سجایا گیا تھا۔کمرے کی
آیت رات کی دیواروں پر مختلف علاقوں کے شہزادوں کی تصاویر ایک خاص منظر پیش
کر رہی تھی۔ یہ تصویریں خاص آر ٹسٹ سے بنوائی گئیں تھیں۔ سسی اور اس کی
سہیلیاں تصویروں کا مشاہدہ کرنے لگیں۔ان میں سے ایک شہزادے کی تصویر سسی کو
بہت اچھی لگی اور اس کے دل و دماغ میں ایسے بیٹھ گئی کہ ہر وقت سسی کو اسی
کے خیال آنے لگے۔ آس پاس کے لوگوں سے سسی نے جب اس شہزادے کے بارے میں پتہ
لگایا تو معلوم ہوگا کہ یہ شہزادہ مخران کے بادشاہ کا بیٹا پنوں ہے۔شہزادے
سے ملنے کی غرض سے شہزادی روز صبح اپنے سوتیلے باپ دھوبی کے ساتھ کپڑے
دھونے دریا پر جانے لگی۔شاید کبھی شہزادہ تجارت کی غرض سے یا سیر کی غرض سے
اس جانب نکل آئے اور اس کا دیدار نصیب ہوجائے۔دن گزرتے گئے لیکن نہ تو
شہزادہ اس جانب آیا اور نہ ہی سسی کو پنوں کا دیدار نصیب ہوا۔ایک روز جب
سسی کپڑے دھونے کے بعد واپس گھر کی جانب جانے لگی تو اسی وقت شہزادہ پنوں
اس طرف آ نکلا اور سسی کی خوبصورتی کو دیکھ کر وہیں پر منجمد ہو گیا۔جب اس
کے بھائیوں نے پنوں کو دیکھا کہ یہ کسی گہری سوچ میں غرق ہے تو اسے جھنجوڑا۔’’
اوئے پنوں کیا دیکھ لیا تو نے ؟کوئی بھوت تو نہیں دیکھ لیا ؟کیا سوچ رہا ہے؟
چل گھر چلتے ہیں۔‘‘ پنوں بس سسی کے خیالوں میں کھویا گھر کی جانب چلتا جا
رہا تھا، اسے کوئی خبر نہیں تھی کہ وہ کہاں جا رہا ہے آخرکار وہ گھر پہنچ
گیا۔ گھر آکر اس نے اپنے بھائیوں کو سسی کے بارے میں بتایا اور سسی سے شادی
کی خواہش ظاہر کی۔ پہلے اس کے بھائیوں نے اس کا مذاق اڑایا اور پھر سمجھایا
کہ تو محلوں کا شہزادہ اور وہ ایک دھوبی گھاٹ پر کام کرنے والی کپڑے دھونے
والی ہم یہ شادی نہیں ہونے دیں گے۔پنو نے پورا محل سر پر اٹھالیا اور طرح
طرح کی شرارتیں کرنے لگا وہ سسی کے پیار میں پوری طرح دیوانہ ہو چکا تھا
اسے کچھ بھی نظر نہ آتا نہ بھوک لگتی، نہ پیاس لگتی۔ بس ایک ہی رٹ لگائے
رکھتا سسی سسی سسی۔ اس کے دیوانے پن کو دیکھ کر اس کے بھائیوں نے اس کے آگے
ہتھیار ڈال دیے اور رشتہ لے کر چلے سسی کے گھر۔سسی کیونکہ پنوں کے بھائیوں
سے ناواقف تھی اس لئے اس نے اس رشتے سے صاف انکار کردیا اور کہا کہ یہ سسی
کسی کی امانت ہے۔اس کے بعد پنوں خود رشتے کے لئے اس کے باپ کے پاس آیا اس
کے باپ نے کہا کہ میں ایک شرط پر اپنی بیٹی تیرے ساتھ بیاہ دوں گا اگر تو
یہ کپڑے مجھے دھو کر دیکھا دے تو۔پنوں ٹھہرا محلوں کا شہزادہ اسے کپڑے
دھونے کہاں آتے تھے لیکن پھر بھی اس نے اپنے عشق کا امتحان پاس کرنا چاہا
لیکن کامیاب نہ ہو سکا اور اس سے کپڑے پھٹ گئے۔ اس نے چپکے سے کپڑوں میں
کچھ اشرفیاں چھپا دیں تا کہ جو دھوبی کا نقصان ہوا ہے وہ پورا ہو جائے۔سسی
اس سارے واقعے سے ناواقف تھی اسے کوئی خبر نہیں تھی کہ اس کا عاشق پنوں اس
کے لئے رشتہ لے کر آیا ہے۔ جب سسی کو علم ہوا تو وہ واپس دوڑی پنوں کے
پیچھے لیکن تب تک پنوں جاچکا تھا۔پنوں اب کیونکہ باغی ہو چکا تھا وہ نہ تو
کھانا کھاتا نہ ہی کسی اور کو پہچان پاتا طرح طرح کی حرکتیں کرنے لگا۔
دیوانے پن کو دیکھ کر اس کے بھائیوں نے اسے پکڑ کے رسیوں میں جکڑ دیا اور
ایک کمرے میں بند کردیا۔یہاں پنوں سسی کے پیار میں پاگل اور وہاں سسی پنوں
کے پیار میں پاگل جو حالت یہاں پنوں کی وہی حالت وہاں سسی کی تھی۔ سسی روز
نکلتی تھر کے تپتے ریگستان میں ننگے پاؤں پنوں کی تلاش میں لیکن پنوں کا
کوئی سراغ نہ ملتا۔آتے جاتے راہگیروں سے بھی پنوں کے بارے میں پوچھتی لیکن
کوئی بھی اسے پنوں کے بارے میں نہ بتا پاتا۔ایک راہگیر نے جب سسی کی
خوبصورتی کو دیکھا تو اس کو اپنی طرف مائل کرنا چاہا۔لیکن سسی اس کی وحشت
کو پہچان چکی تھی، وہ وہاں سے جانا چاہتی تھی لیکن راہگیر نے اس کو زبردستی
اپنے بازوں میں جھنجوڑا عین اسی وقت سسی کی زبان سے نکلا ’یا اﷲ مجھے اس سے
پناہ نصیب فرما۔‘سسی کی زبان سے یہ کلمات نکلنے تھے کہ ریت پھٹی اور وہ
زندہ اسی ریت میں سما گئی۔ آدمی نے جب یہ ماجرا دیکھا تو اسے اپنے کئے پر
شرمندگی ہوئی اور گڑگڑا کر روتے ہوئے اپنے رب تعالیٰ سے اس واقعے کے لیے
توبہ مانگنے لگا۔اس نے وہیں پرسسی کی قبر بنائی اور اس پر مقبرہ بنا دیا
ساتھ ایک دیا لگایا اور وہیں پر اپنا ڈیرہ لگا لیا۔ادھر پنوں کسی طریقے سے
خود کو رسیوں سے آزاد کرا کر گھر سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا اور جب وہ
تھر کے علاقے سے گزرنے لگا تو اس نے دیکھا کہ ایک راہ گیر قبر پر فاتحہ پڑھ
رہا ہے اس نے سمجھا شاید کسی بزرگ کی قبر ہے ان کی بھی جاتے جاتے دعائیں
لیتا جاؤں۔ فاتحہ خوانی کے بعد جب پنوں نے کہا اے اﷲ اپنے اس بزرگ کے صدقے
مجھے میری سسی سے ملوا دے۔سسی کا لفظ زبان سے نکلنا تھا کہ راہگیر نے اس سے
سسی کے بارے میں پوچھا تو پنوں نے اپنی بے بسی کی داستان سنا دی۔ راہگیر نے
روتے ہوئے اسے سارا ماجرا سنایا اور پنوں سے معافی مانگی اور اس کو سسی کی
قبر کے بارے میں بتایا کہ جس سسی کی تو بات کر رہا ہے یہ قبر اسی سسی کی
ہے۔پنوں اسکی قبر کے ساتھ لپٹ کر دھاڑیں مار مار کر رونے لگا، گڑگڑایا یہاں
تک کہ پنوں روتے روتے بے ہوش ہو گیا۔کافی دیر تک جب پنوں کو ہوش نہ آیا تو
راہگیر نے سمجھا کہ شاید یہ بھی مر چکا ہے اس نے بھی وہیں سسی کے ساتھ ہی
اس کو بھی زندہ دفن کردیا اور ان کی قبروں پر سسی پنوں بھی لکھ دیا۔جب تک
یہ اس زمین پر تھے تو کسی نے بھی ان کو ملنے نہ دیا۔آخر کار اﷲ تعالیٰ کو
ان کی بے بسی پر رحم آیا اور ان دونوں کو ایک ہی جگہ اپنے پاس بلا لیااور
دنیا والوں کو بتا دیا کہ جن عشق کرنے والوں کو یہ دنیا والے نہ ملنے دیں
اسے رب ہی ملوا سکتا ہے پھر چاہے یہ جہاں ہو یا وہ جہاں کوئی فرق نہیں پڑتا۔
سسی پنوں دونوں ایک دوسرے کے عشق میں مر کر لوگوں کے لیے امر ہو گئے۔ |