کیا میڈیا کا بحران خودساختہ ہے؟

خود کو ریاست کا چوتھا ستون ماننے والا میڈیا، پچھلے چند ماہ میں اپنی حد سے اس قدر دورہو چکا اور باقی تینوں ستون بشمول عدلیہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہاہے اور اب وہ خود کو خودمختار طاقتور ثابت کر رہا ہے ۔

ابتدا تو اسی وقت کر دی تھی جب ملازمین کو ویج ایوارڈ نہیں دیا اور دس ماہ کا کنڑیکٹ والا ماورائے آئین اور قانون نظام لایا جس کے خلاف نہ ریاست نہ عدالت اور نہ ہی عالمی اداروں نے نوٹس لیا جس کے باعث مالکان میڈیا ملازمین کا استحصال کرنے لگا صرف اخباری ہاکروں نے ہی معاہدے کرکے اخبارات میں کام کرنے والوں کی روٹی اور چھٹی کا بندوبست کیا آج میڈیا فوج سے زیادہ طاقتور ہےاس کے سامنے تمام ادارے کمتر اور کمزور لگنے لگے ہیں -

کوئی بھی ادارہ میڈیا مالکان کے اثاثے پوچھ سکتا ہے نہ اسے معلوم یا سوال کرنے کا اختیار ہے بلیک میلنگ کے ذریعے میڈیا مالکان خود کو ہر احتساب سے بچا لیتے ہیں میڈیا مالکان کے ٹائوٹ حکومت سے رابطے کا ذریعہ بن کر ان کے سارے غلط کام کراتے ہیں یہی ٹائوٹ حکمرانوں اور مالکان اخبارات سے مراعات حاصل کر کے اپنے ذاتی اثاثے بڑھاتے اور کاروبار کرنے لگتے ہیں۔

الیکشن 2013 میڈیا مالکان کے لیے سبق تھا وہ میڈیا جو فنڈننگ لے کر سیاسی پارٹیوں کو جتواتا تھا اس بار امپائر سے مات کھا گیا اگرچہ امپائر کے کردار پر سوالات بھی اٹھائے گئے مگر ڈنڈا کام آ گیا یہ وہ خطرہ تھا جس پر میڈیا کنگز کو خطرہ نظر آیا ایک پلان کے تحت میڈیا مالکان نے پہلے تنخواہیں لیٹ دینا شروع کیں پھر ناپسندہ افراد اور اضافی عملے کے بہانے چھانٹیاں شروع کر دیں ساتھ ہی ملازمین کی تنخواہیں کم کر دیں جب ان تمام اقدامات کو چیلنج نہیں کیا گیا تو پھر میڈیا کنگز نے ویجز خود طے کرنے اور ملازمین کو نکالنے کا ناقابل چیلنج اختیار حاصل کر لیا۔

مالکان کو پتہ ہے ٹی وی کے آنے سے ریڈیو متاثر ہوا اب آن لائن ویب پیجز سے اخبارات متاثر ہونگے لہذا ڈیجیٹل میڈیا سے کمانے کے لیے مصنوعی بحران پیدا کر دیا چینلز آنے کے بعد اس کے عملے کے لیے اخباری ملازمین کو ذمے داری دینے کے بجائے نئی بھرتیاں کی گئیں کالم نگاروں اور بولنے والوں کو اینکرز بنا کر ان کے ذریعے مال کمایا گیا اور کمایا جا رہا ہے -

اخبارات میں سرکاری اور نجی اشتہارات میں بھی کمی آتی گئی مالکان اس کا توڑ کرنے سے قاصر رہے اب جب سارے آپشن ڈیجٹل سے کمانے کی طرف جا رہے ہیں تو مالکان نے بھی ہاتھ دھونے کی ٹھان لی ۔

ایکسپریس مالکان کا ویب پیجز اخبار اور چینل کی نیوز ٹیم یکجا کرنے کا منصوبہ بہتر تھا مگر اسے منطقی انجام تک پہنچایا نہ جا سکا تین شفٹوں میں تمام ملازمین کو ایڈجسٹ کیا جا سکتا تھا اور بہت کم افرادی قوت نکالنی پڑتی لگتا ہے سازشی عناصر حاوی ہو گئے اور ون یونٹ لاہور کو بنا دیا گیا ۔سوال ہو گا کوئٹہ سکھر کراچی سے چھپنے والے ایڈیشن میں شہر کی اولین ترجیح کا فیصلہ لاہور کا باشندہ کرے گا جسے خود اپنے شہر کی بھی مکمل معلومات حاصل نہیں، کیا لاہورمیں امریکا برطانیہ کے ایڈیشن ان ملکوں کی پالیسیوں کے مطابق تیار کیے جاسکتے ہیں؟اگر ہاں تو پھر تو دنیا بھر کا کام کسی بھی ٹیم سے کرا لیا جائے۔ان شہروں میں پریس لگانے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ لاہور سے ہر جگہ شائع شدہ اخبارات بھیجے جا سکتے ہیں کیا سرکولیشن ہو گی تجربہ کرکے دیکھیے یا پھر قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اخبارات ہی بند کر دیجئے۔ حکومت کافرض ہے وہ اخباری کارکنوں کو مالکان کے استحصال سے بچائے۔محمد اجمل خان سینئر جرنلسٹ کراچی

Muhammad Ajmal Khan
About the Author: Muhammad Ajmal Khan Read More Articles by Muhammad Ajmal Khan: 5 Articles with 4137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.