ہفتہ واری خریداری کے لیے پہلے
پہل سبزی والے کے پاس پہنچ کر آلو، پیاز، ٹماٹر، ادرک ، لہسن، دھنیا ، ہری
مرچیں، اور دیگر سبزیات کے ریٹ معلوم کیے تو سنکر چکرا ہی گئے کہ چند ہی
دنوں میں فی کلو پر دس دس روپے بڑھ چکے ہیں۔ ریٹ کے مسئلے پر سبزی والے کی
طبیعت پر ہماری بحث بہت ہی ناگوار گزری اور موصوف نے ہاتھ لہرا کر ارشاد
فرمایا کہ جناب ہماری سبزیوں کے ریٹ سٹاک ایکسچینج کی طرح روزانہ کے حساب
سے بڑ ھتے ہیں، لہٰذا آپ زیادہ پریشان نہ ہوا کریں۔ اور مزید فرمایا کہ
سبزیایوں کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے
اور ازلی دشمن کو سبزیات کی ایکسپورٹ بھی سے بھی لنک ہے۔
خیر جناب سبزی والے سے فراغت کے بعد پرچون والے کے پاس پہنچے تو دالیں،
بیسن، چینی، پتی، آٹا، گھی ، دودھ وغیرہ کے ریٹ بھی ساتویں آسمان پر تھے ،
وجہ یہاں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ بتایا گیا۔ اب باری تھی
بڑے گوشت والے قصائی کی کہ اسکے ریٹ میں فی کلو پچاس روپے اضافہ ہو چکا تھا
اور وہ کئی گاہکوں کو پٹرولیم مصنوعات کو قیمتوں میں اضافے کا سبب گردان کر
مطمئن کر نے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ ایک بڑے میا ں تو پوچھ ہی بیٹھے کہ
میاں کیا گائے بھینس پٹرول اور ڈیزل سے چلتی ہے ۔چھوٹے گوشت والے کی طرف
اسلیے نہ جاسکے کہ وہ ایک عام آدمی کی پہنچ سے ویسے ہی اتنا دور ہوتا ہے
جتنا کہ زمین سے چندا ماموں۔ غریب آدمی تو صرف بقر عید پر ہی اس عنقا چیز
کا دیدار کر پاتا ہے، یا پھر کہیں غلطی سے کوئی عقیقے وغیرہ کا بھیج دے۔
مرغی کا گوشت جو کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے ہم نے دس اور بیس روپے کلو خریدا
تھا اسکا ریٹ دو سو بیس روپے سن کر ، مرغی والے کو مرغی کے کپڑے اتارنے میں
مصروف پاکر کان دبا کر فوراً ہی واپس پلٹ آئے۔ اب جناب باری تھی فروٹ والے
کی طرف جانے کی۔ کیلا، دس روپے اضافی درجن، کینو بیس روپے کلو پر مہنگا ،
سب سے زیادہ مہنگا گولڈن سیب تھا جو کہ کبھی کبھار منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے
یا امارت جھاڑنے کو لے لیتے تھے مگر اب کی بار اس کی سونا اور چاندی سے
ملتی جلتی قیمت یعنی ڈیڑھ سو روپے کلو سنکر ہی تراہ نکل گیا، لینا تو دور
کی بات تھی۔ ویسے چند ماہ پہلے آلو ساٹھ روپے اور سیب پچاس روپے کلو تھا،
اور ہم نے بیگم کو مشورہ دیا تھا کہ سالن میں آلو کی بجائے سیب ہی ڈال لو۔
مگر بیگم کا موصولہ جواب یہاں قابلِ لیکھت نہیں ہے۔ فروٹ والوں نے بھی
مہنگائی کی وجہ تسمیہ ظاہر ہے پٹرولیم مصنوعات کو ہی بتایا۔ آس پاس نظر
دوڑائی تو یوں لگا کہ جیسے کلو چیز خریدنے والا بھی شرما شرما کر پاﺅ پاﺅ
لے رہا ہے، اور اگر مہنگائی اسی تناسب سے بڑھتی رہی تو لگتا ہے لوگ ماشے
اور رتی میں چیزیں خریدا کریں گے یا پھر گھر میں شوروم میں سجا کر صرف
دیکھا کریں گے۔ بہرحال! پورے بازار میں صرف خربوزہ ہی واحد اکیلا دکیلا
فروٹ نظر آیا جو کہ ہماری جیب پر گراں نہیں گزر رہا تھا، لہٰذا اس ہفتہ
واری فروٹ ڈے پر بچوں کو خربوزے کی ایک ایک قاش پر ٹرخا نے کا سو چ کر ایک
دانہ خرید ہی لیا۔ تھوڑا دور چلے تو ایک مجمع سا نظر آیا، خیا ل آیا کہ
شاید مداری والے دوبارہ وارد ہونا شرو ع ہوگئے ہیں، یا پھر کوئی طاقت کی
دوا بیچنے والا ہوگا، مگر قریب جا کر پتہ چلا کہ ہوٹل والے نے ایک خان صاحب
سے روٹی کے زیادہ پیسے چارج کر لیے تھے اور اس تنازع میں دونوں گھتم گتھا
ہیں۔ ابا اور اماں کے پان چھالیہ کے لیے پان سگریٹ والے کے پاس پہنچے تو
حیرانگی ہوئی کہ پچاس روپے میں چند روز پہلے جتنے پان چھالیہ آتے تھے اب
آدھے آئے۔ امپورٹ ہونے کے باوجود پنواڑی صاحب نے بھی مذکورہ وجہ بتا کر جان
چھڑائی۔ جنرل اسٹور پر سے شیمپو، صابن، ٹوتھ پیسٹ اور بیگم کے سرخی پاﺅڈر
وغیرہ کے دام پوچھے تو بتایا گیا کہ ریٹ تقریباً دس سے پندرہ فیصد بڑھ چکے
ہیں لہٰذا فورا لے لیں، ہو سکتا ہے کل نئے ریٹ آجائیں۔ ہم نے سب کچھ چھوڑ
چھاڑ کر صرف بیگم کے سرخی پاﺅڈر خرید لیے، کیونکہ ان چیزوں کے بنا گھر میں
داخلہ ممنو ع ہو سکتا تھا۔
دواﺅں کے لیے میڈیکل اسٹور سے صرف قیمیتیں پوچھنے پر ہی گزارہ کیا کہ تمام
دوائیں تیس چالیس فیصد بڑھنے سے بچوں کیا اب بڑوں کی پہنچ سے بھی اتنا دور
ہو چکی ہیں جتنا کہ پاکستان سے امریکہ۔ سرکاری ہسپتال جسے کبھی حقیر فقیر
سمجھا تھا ، ڈاکٹروں کی بڑھتی فیسوں کی وجہ سے اب آغا خان ہسپتال لگنے لگے
ہیں، لہٰذا سب کو صائب مشورہ ہے کہ وہیں جایا کریں ہر مرض کی ایک ہی سی دوا
فری ملتی ہے ۔ چلتے چلتے خیا ل آیا کہ بچوں کو وین میں ٹھونس ٹھانس کر
اسکول والوں کے حوالے کرنے والا درجن بھر ماہ میں آدھا درجن بار کرایہ بڑھا
کر دوبارہ تقاضا کر رہا تھا اور اسکول والے بھی ہر ماہ بچوں کے ہاتھ ایک
پھرا بھجوا رہے ہیں کہ چند ناگزیر وجوہات کی بنا پر ، نہ چاہتے ہوئے بھی
اسکول کی فیسوں میں اضافہ کیا جارہا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ راہ چلتے ایک عدد
فقیر سے ٹاکرا ہوگیا، موصوف نے چھوٹتے ہی دو یا پانچ نہیں پورے پچاس روپے
ایسے ڈھٹائی سے مانگے جیسے ہم نے اسکا ادھار دینا ہو، اور ساتھ احسان بھی
جتایا کہ کم نہ دینا ورنہ دعا کی بجائے بد دعا دے دونگا۔ فقیر سے نمٹ کر
بیگم کا دوپٹہ رنگوانے رنگساز کے پاس پہنچے تو بیچارہ کئی ایک خواتین سے
ریٹ کے معاملے پر جھگڑنے میں مصروف تھا اور ہم سے بھی فی ڈوپٹہ دس کے بجائے
پندرہ روپے جھاڑ لیے۔ ہم نے بحث اسلیے نہ کی کہ ر نگساز کو قفیں ٹونگ کر
پہلے خواتین سے لڑتا دیکھ چکے تھے۔ پاس ہی کاج اور اوور لاک والے کی دکان
سے بھی قیمت کے معاملے پر کئی خواتین کے لڑنے جھگڑنے کی آوازیں آرہی تھیں ۔
بچوں کے اسکول کے جوتے اور کپڑے والے کی دکان پر پہنچے تو جو جوتے چند ماہ
پہلے سو روپے میں لیے تھے اب دو سو کے ہو چکے تھے اور دکاندار نے بحث کرنے
پر تڑی بھی لگا دی کہ لینے ہیں تو لو ورنہ اپنا راستہ ناپو۔ یوں کپڑوں اور
جوتوں کے پیسوں میں صرف جوتے ہی لے پائے۔ واپسی گھر جانے کے لیے ویگن میں
سوار ہوئے تو کرایہ بڑھ چکا تھا، بہت تکرار کی کہ ابھی ہم دس روپے میں آئے
تھے تو اب پندرہ روپے کیوں؟ ، کنڈکٹڑ نے کرایہ لیکر چلتی ویگن سے دھکا دیکر
نیچے اتار دیا۔
خیر! جیسے تیسے آدھا سامان لیکر گھر پہنچے تو کچھ سر پھٹے مہمان گھر میں
فراش تھے ۔ معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ راستے میں آتے ہوئے بس والے سے کرایہ
کے معاملے پر پھڈا کر بیٹھے تھے، اسلیے اس حال کو پہنچے۔ یوں دس روزہ
مہمانوں کی خاطر مدارت کے ساتھ روزانہ مرہم پٹی کا خرچہ بھی اٹھانا پڑا،
اور مہمان رحمت کی بجائے زحمت اور عذاب بن گئے کہ ماہانہ بجلی ، گیس، ٹیلی
فون کے بلوں کے لیے رکھی گئی تمام رقم ان مہمانانِ گرامی پر خرچ ہو چکی تھی۔
تھوڑی ہی دیر میں بڑے صاحبزادے موصوف ہاتھ پر پٹی بندھے وارد ہوئے تو پتہ
چلا کہ سپورٹس کی دکان پر گیند بلا کے ریٹ بڑھنے پر ہیرو بن کر جوش میں آ
گئے تھے اور یوں معاملہ اس نہج پر پہنچ چلا کہ ہاتھ کی ہڈی کی قربانی دینا
پڑی اور میاں کو جیب کٹوانے کی قربانی دینی پڑی ۔ بیگم کی انکوائری الگ
بھگتی کہ پچھلے ماہ تو اتنے پیسوں میں پورے ماہ کا راشن آیا تھا اس بار صرف
پندرہ دن کا کیوں؟ باقی کے پندرہ دن کہاں سے کھائیں گے ؟ وغیرہ وغیرہ۔ اور
ساتھ میں اپنے عزیزو اقارب کے ہاں ہونے والی چار عدد شادیوں کے کارڈ بھی
تھما دیے کہ انہیں بھگتا نے کا بھی بندوبست کریں ، سو دو سو سے کام نہیں
چلیگا، کم از کم ہزار پانچ سو روپے تو لازمی ہوں گے ، بچوں کے اور میرے
کپڑے لتے علیحدہ ہیں ۔ ہم اس نیک بخت کو اب کیا بتاتے کہ باہر مہنگائی سے
تنگ لوگ اپنے جگر گوشوں اور جسمانی اعضاء تک کو بیچنے پر مجبور ہیں۔ مگر یہ
خواتین کہاں مانتی ہیں، اپنی پھنی ناک کٹنے کے ڈر سے بڑھ چڑھ کر میاں کا
خرچہ کر وا دیتی ہیں۔
تو جناب مہنگائی کا اور ہمارا اب جنم جنم کا ساتھ ہوگیا ہے۔ کم از کم ہمارے
اس جنم میں یہ ختم نہیں ہونے والی۔ لہٰذا روز روز خون سڑانے سے بہتر ہے کہ
اس سے سمجھوتہ کر لیا جائے۔ کیونکہ اسلام آباد کی بھینسوں کے آگے بجا ئے
گئے اب تلک کے تما م بین اسلیے رائیگاں گئے کہ و ہاں صرف اندھی، گونگی ،
لولی لنگڑی اور بہری بھینسیں بستی ہیں۔ |