صاحب! محبت کو پھلنے دیجیے

محبت کا وجود اس روئے زمین پر اتنا ہی قدیم ہے جتنی کہ انسانی تاریخ بلکہ یہ کہنا بھی بے جا نہ ہو گا کہ محبت کی تخلیق انسان کی تخلیق سے بھی قبل ہے۔ اگرچہ محبت زندگی کے ہر رشتہ کی بنیاد ہے لیکن یہ جذبہ ہمارے معاشرے میں دم توڑتا جا رہا ہے۔ آج محبت کا مفہوم بدلتا جا رہا ہے۔ محبت کے قصے کہانیاں اٹھا کر دیکھ لیں، دنیا کی سب تہذیبیں محبت کا پرچار کرتی تو نظر آئیں گی لیکن محبت کرنے والوں سے جینے کا حق چھیننے والی بھی یہی تہذیبیں ہی ہوں گی۔

گو کہ محبت کا ہونا بلکہ ہو جانا برا نہیں ہے بلکہ اس کو غلط انداز میں لینا اور اسے محض شغل اور تفریح کے لئے استعمال کرتے ہوئے کسی دوسرے کی زندگی سے کھیلنا سراسر غلط اور نا انصافی ہے۔
محبت کا ہونا تو دل پہ گراں نہیں ہے خلش
ہاں مگر! اس کے ہو جانے سے ڈرتا ہوں

آج محبت محض جنسی اور نفسانی خواہش تک محدود ہو کر رہ گئی ہے جو کہ یقیناً محبت جیسے مقدس رشتے کی توہین ہے۔ آج لوگ محبت کرتے ہیں انھیں محبت ہوتی نہیں ہے۔ جو محبت کرتے ہیں وہ محض دل لگی تک محدود رہتے ہیں۔ اور دوسرے وہ جنھیں محبت ہو جاتی ہے وہ محبت کی سرحد پار کر کے عشق کی حد میں داخل ہو جاتے ہیں۔ جنھیں محبت میں منزل مل جاتی ہے وہ امر ہو جاتے ہیں اور جو سفر میں رہتے ہیں ان کے آگے عشق کی سرحد کے بعد جنون اور دیوانگی کی سرحدیں آ کھڑی ہوتی ہیں۔ اور پھر جو اس دیوانگی کی حد کو پار کرنے لگتے ہیں تو ان ان کا عشق مجازی عشق حقیقی میں بدلنا شروع ہو جاتا ہے۔

محبت کے ماروں اور اسے پڑھنے والوں نے یہ تو پڑھا ہو گا کہ محبت میں نہ جیت ہوتی ہے اور نہ ہار۔ یہ جملہ سننے میں تو شاید خاصا رومانوی سا ہے لیکن صاحب! یقین مانیے اس ہار اور جیت میں انسان نہ جیتا ہے اور نہ مرتا ہے۔ انسانی زندگی کے ساتھ ایک اور بڑا المیہ یہ بھی ہے صاحب کہ جیتے جی اس کی محبت اس کے لئے بدنامی کا باعث ہوتی ہے لیکن اس کی سانسیں تھمتے ہی جب وہ تاریخ کا حصہ بننے لگتی ہیں تو وہ ہی محبت ان کے چرچے کا سبب بن جاتی ہے۔ ہائے رے محبت۔۔۔۔

صدیوں پہلے اس ایک قیدی کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہو گئی اور بس صاحب!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے آگے کچھ کہنے، لکھنے اور آپ کے پوچھنے کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ پھر آگے کیا ہوا؟ ١٤ فروری کو اس کی روح نے ویلنٹائن کے جسد خاکی کو آزاد کیا اور اس دن کے بعد سے اس کی محبت امر ہونا شروع ہو گئی۔ وہ جو اس کی محبت کو تسلیم کرنے سے انکاری تھے، اس کی موت کے بعد اس کی یاد میں محبت کی شمعیں روشن کرنے لگے۔ اس سچ کو بھی تسلیم کیجیے صاحب! کہ آپ کی محبت کا چرچا بھی تب ہی ہوتا ہے جب آپ دین کے رہتے ہیں اور نہ دنیا کے۔

آج صدیاں بیت گئیں اس محبت کے ایک قصے کو گزرے لیکن محبت کی شمعیں اس کی یاد میں آج بھی روشن ہوتی چلی آرہی ہیں۔ آج لوگ اس کی محبت کو تازہ نہیں کر رہے بلکہ اپنے دل میں سلگتی ہوئی محبت کی آگ کو بجھانے کے لئے یہ دن منانے کی کوشش کرتے ہیں۔ آج یہ دن محض ایک تہوار بن کر رہ گیا ہے جس کا چہرا بگڑتے ہوئے معاشرے نے اور بھی مسخ کر دیا ہے۔

کاش صاحب! لوگ یہ سمجھنا شروع کر دیں کہ محبت کتنا مقدس رشتہ ہے۔ کاش کہ محبت کے دشمن یہ جان لیں کہ اس محبت نے تو مصر کے بازار میں یوسفّ کو نیلام کر دیا تھا۔ اس محبت کی خاطر زلیخا نے اپنے رب سے ہمیشہ رہنے والی جوانی کا سودا کر کے دو جہانوں کا بڑھاپا خریدا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر وہ یہی محبت تھی یہی عشق تھا اور یہی جنون تھا جس نے رب ذوالجلال مالک دو جہاں کو دنیا کی تخلیق پر آمادی کیا جس نے اپنے محبوب نبی کے عشق میں کئی جہاں تخلیق کر ڈالے۔

جب وجود زندگی محبت ہے تو پھر صاحب! اس محبت کو پھیلنے دیجیے۔ سدباب کرنا ہے تو اس کی آڑ میں ہونے والی فحاشی کا کیجیے، اس سوچ کا کیجیے جو اس مقدس رشتے کا مفہوم بدلتی جا رہی ہے۔
خلش
About the Author: خلش Read More Articles by خلش: 2 Articles with 10083 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.